محترمہ حسین بی بی صاحبہ (چوہدرانی)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10 جنوری 2011ء میں مکرم سیف اللہ وڑائچ صاحب نے اپنی دادی محترمہ حسین بی بی صاحبہ کا تفصیلی ذکر خیر کیا ہے۔
محترمہ حسین بی بی صاحبہ کا تعلق پھالیہ ضلع گجرات کے ایک معزز تارڑ گھرانہ سے تھا۔ والد پٹواری تھے۔ آپ کی دنیاوی تعلیم پرائمری تھی لیکن قرآن حدیث پر عبور حاصل تھا۔ 1890ء میں محترم چوہدری خان محمد نمبردار سے شادی ہوئی جو اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے اور ان کی پیدائش سے قبل ہی اُن کے والد وفات پاچکے تھے۔
محترمہ حسین بی بی صاحبہ کے ہاں چار بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئے۔ آپ کے سب سے بڑے بیٹے مکرم سردار خاں صاحب جب پانچویں جماعت کے طالب علم تھے تو ان کے استاد حضرت مولوی غلام علی صاحبؓ آف راجیکی تھے (جو حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کے چچا زاد بھائی تھے) اُن کو خیال آیا کہ یہ گاؤں کے نمبر دار کا بیٹا ہے اور اگر یہ خاندان احمدی ہو جائے تو پھر گاؤں میں احمدیت کی خاص ترقی ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے سردار خان صاحب کو کہا کہ آپ اپنی والدہ سے پوچھ کر حضرت مسیح موعودؑ کو قادیان خط لکھیں کہ اگر میں سنٹر کے پرائمری کے امتحان میں اوّل آگیا تو احمدی ہوجاؤں گا۔ والدہ کا اس لئے کہا کیونکہ والد صاحب بڑے سخت مزاج اور دبدبہ والے تھے۔ جب بیٹے نے اپنی والدہ حسین بی بی صاحبہ سے اپنے استاد کی بات بیان کی تو انہوں نے کہا بیٹا! خط ضرور لکھو اور میں بھی دعا مانگتی ہوں تم بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہم کو اس عہد کو نبھانے کی توفیق دے۔ چنانچہ خط لکھ دیا گیا۔
پرائمری کے سنٹر کے امتحان میں تقریباً 10 سکولوں کے بچے حصہ لیتے تھے۔ خداتعالیٰ نے معجزہ دکھایا اور سردار خان صاحب اول آگئے اور وظیفہ بھی حاصل کیا۔ خدا کا فضل اور مسیح کی دعا کا معجزہ دیکھ کر ماں بیٹا دل سے احمدی ہوگئے لیکن باپ کے ڈر سے باقاعدہ بیعت نہ کی۔ محترمہ حسین بی بی صاحبہ نے چندہ بھی دینا شروع کردیا۔ پھر جب حضرت مسیح موعودؑ جہلم تشریف لائے تو خاموشی سے جاکر دیدار بھی کر آئیں لیکن وہاں سے واپس آکر بیعت کے لئے بہت بیتاب رہنے لگیں۔ بالآخر اُن کے خاوند کو اس بات کا علم ہو گیا کہ یہ ماں بیٹا احمدی ہو چکے ہیں اور مجھ سے ڈر کی وجہ سے بیعت نہیں کر رہے۔ اس پر انہوں نے سخت رویّہ اپنالیا تو محترمہ حسین بی بی صاحبہ اپنے میکہ چلی گئیں۔ میکے والے بھی ناراض ہوئے کہ گھر کا سکون کیوں برباد کررہی ہو۔ لیکن آپ نے ثبات قدم کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا اور دعا میں لگی رہیں۔ آخر 1910ء میں آپ کے خاوند سمیت سب گھر والوں نے حضرت خلیفہ اوّلؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ خاوند چونکہ رعب والے تھے اس لئے اُن کے بیعت کرنے کے بعد، احمدی جو پہلے ایک گھر میں نماز ادا کیا کرتے تھے، مسجد میں جاکر نماز ادا کرنے لگے اور یہ سلسلہ 1981ء تک جاری رہا۔ جب مسجد کی خستہ حالی کی وجہ سے اس کی دوبارہ تعمیر کا فیصلہ ہوا تو ساری برادری نے محترمہ حسین بی بی صاحبہ کے چھوٹے بیٹے (مضمون نگار کے والد) محترم چودھری عنایت اللہ صاحب کو کہہ دیا کہ جو مرضی فیصلہ کریں۔ انہوں نے دُوراندیشی سے کام لیتے ہوئے اکٹھے مسجد بنانے کی بجائے فیصلہ کیا کہ ایک پارٹی زمین رکھ لے اور دوسری پارٹی ملبہ لے لے۔ چنانچہ احمدیوں نے اپنی ایک مشترکہ زمین پر ایک عالیشان مسجد تعمیر کرلی جس کا افتتاح حضرت مرزاطاہر احمد صاحبؒ نے فرمایا۔ چودھری عنایت اللہ صاحب نے اس مسجد کی تعمیر کے لئے اپنی زمین کا ایک حصہ فروخت کیا۔ باقی خاندان نے بھی بہت قربانی دی۔ سردار خان صاحب کی بیٹیوں نے مربی ہاؤس وقف کرنے کی توفیق پائی۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ جس طرح مسجد معجزانہ طور پر بن گئی اسی طرح احمدیہ قبرستان بھی ایک معجزہ ہے۔ ہمارا گاؤں دریائے چناب کے کنارہ پر ہے اور طغیانی سے قبرستان میں پانی آ جاتا تھا۔ میرے دادا نے 28جون 1966ء کو وفات پائی تو یہ وصیت کی کہ اُن کی قبر سڑک کے کنارے ذاتی زمین پر بنانا۔ تب وہ اکیلی قبر تھی۔ بعد میں قبرستان میں احمدیوں کی تدفین کی مخالفت شروع ہوگئی اور 2000ء میں تو ایک احمدی کی قبر اکھاڑنے کی بھی کوشش کی گئی ۔ قصہ مختصر وہ قبرستان جو میرے دادا کی خواہش پر بنا تھا آج احمدیہ قبرستان کہلاتا ہے ۔ جماعت کی ایک عید گاہ بھی ہے۔ جس کی چار دیواری کرنے کے لئے میرے دادا نے گاؤں کے بالکل ساتھ 2 کنال زمین بیچی تھی۔
محترمہ حسین بی بی صاحبہ ایک بارُعب شخصیت کی مالکہ تھیں۔ سعداللہ پور میں سب چوہدرانی کہہ کر پکارتے تھے۔ بڑی نیک خاتون تھیں۔ ملازموں کا خیال رکھتیں۔ غریب لڑکیوں کی شادیاں بلا امتیاز کرواتیں۔ گاؤں میں کسی کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو ان کا دروازہ کھٹکھٹاتا۔ چندہ کی بڑی پابند تھیں۔ فصل کے علاوہ گھر میں جو گھی بنتا تھا اس پر بھی چندہ دیتی تھیں۔ ہر سال بچے لے کر باقاعدگی سے قادیان جایا کرتیں۔ ہمیشہ نیا بستر بنا کر لے جاتیں جو واپسی پر قادیان میں چھوڑ آتیں۔ سرسوں کا تیل، ساگ اور مکھن وغیرہ بطور تحفہ حضرت امّاں جانؓ کے لئے لے کر جاتیں۔ احمدیت کے لئے بہت غیرت تھی۔ مہمان نواز بھی بہت تھیں۔ سرکاری اور جماعتی مہمانوں کے علاوہ جب دریا میں طغیانی ہوتی تو کئی مسافر کئی کئی روز تک آپ کے ڈیرہ پر ٹھہرا کرتے۔ آپ خندہ پیشانی سے اُن کی خدمت کرتیں۔ گاؤں کی اَن پڑھ عورتیں حساب کتاب یا خط پڑھوانے کے لئے آپ کے پاس آتی تھیں۔
محترمہ حسین بی بی صاحبہ کو درّثمین کے بے شمار شعر یاد تھے۔ بے شمار پنجابی اشعار بھی آتے تھے۔ بچیوں کو قرآن کریم بھی پڑھایا کرتیں۔ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کی اور فدائی احمدی بنایا۔
آپ کی وفات 1940ء میں ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں