محترمہ صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 8؍ اور 15؍اپریل 2024ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ امۃالکافی صاحبہ نے اپنے مشاہدات کے حوالے سے اپنی ساس محترمہ صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کی سیرت قلمبند کی ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میری ساس کا نام محمودہ بیگم صاحبہ تھا۔ حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ اور حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کی بیٹی تھیں، گھر میں مودیؔ کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ بچپن میں اباحضورؓ یعنی حضرت مصلح موعودؓ پیار سے اُن کو کہتے:

’’تم بھی مودی، مَیں بھی مودی،تم میٹرک پاس۔ مَیں میٹرک فیل۔‘‘ جب یہ فقرہ وہ سنتیں تو شرم سے حالت خراب ہوجاتی۔ ہمیں یہ بات بتاتے ہوئے بھی اس قدر شرمندگی اور ندامت کا احساس ہوتا تھا کہ چہرے پر سرخی چھلک جاتی تھی۔ (دراصل یہ ایک بزرگ کا ایک بچے کے ساتھ لاڈ اور پیار کا انداز ہی توتھا۔)
خالہ مودی کے بارہ میں سب سے اچھی اور سچی رائے اور دعا تو اُن کی اپنی امی کی یہ نظم ہے جو درّعدن میں شامل ہے:

لو جاؤ تم کو سایۂ رحمت نصیب ہو

اس نظم کا ہر شعر اُن کی ذات میں پورا اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جیسے اِس دعا کا لفظ لفظ آپ کی سیرت ہوجائے۔
ہر انسان کا سب سے پہلا روپ بیٹی یا بیٹے کا ہوتا ہے۔ میں نے قریباً اٹھائیس سال اُن کے ساتھ گزارے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہوکہ اپنے ابّا میاں اورامی جان کی یاد نہ اُن کو آئی ہواورخاص طورپر ابا میاں سے تو گویا عشق تھا۔ ان کی بزرگ شخصیت اور خوبیوں میں وہ ہمیشہ رطب اللّسان رہتی تھیں۔ جب ہم نے MTA لجنہ پاکستا ن کے لیے ابتدائی چودہ ممبرات کے بارے میں پروگرام بنانے تھے تو حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے پروگرام کے لیے خالہ سے ریہرسل مجھے کروانی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد مجھے سمجھانا پڑتا تھا کہ ہم بڑی اُمی کے بارے میں پروگرام بنارہے ہیں، ابّا میاں پر نہیں۔ لیکن جتنی دفعہ بھی ریہرسل کرتے ، بڑی مشکل سے خالہ کو کنٹرول کرنا پڑتا تھا کہ موضوع کے اندر رہیں اور پھر ساتھ کے ساتھ مَیں ڈانٹ بھی کھاتی جاتی تھی کیونکہ مجھے علم تھا کہ وہ بےساختہ اس عادت سے مجبور ہیں۔
بیٹی کے بعد بہن کا روپ بھی ہم نے دیکھا۔ اپنی بڑی بہنوں (حضرت سیّدہ بُو زینب بیگم صاحبہؓ اور حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ) اور سب بھائی (جہاں سگے سوتیلے کا کوئی تصور نہ تھا اور گھروں میں یہ الفاظ کہنے اور بولنے کی اجازت تک نہ تھی۔) سب کے لیے آپ محبت ہی محبت تھیں۔ دراصل ماں کے پیٹ سے ہی نوع انسانی کی ہمدردی، پیار اور محبت یہ سب کچھ ان کی گھٹی میں داخل تھا۔ اس لیے خواہ کوئی چالاک بن کران سے رقم یا کچھ بٹورنے کے لیے خوشامدانہ چال چلے اور اِن کو پتہ بھی چل جائے لیکن محبت اور نوع انسانی کی تکلیف کا احساس اس قدر حاوی تھا کہ فوراً لپک کر تکلیف کو دُور کرنے کی کوشش شروع کردیتی تھیں۔

آپ بہت اچھی بیوی تھیں۔ ماموں (صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب) آپ کی بےانتہا خوبیوں کی وجہ سے بھی اپنی بیوی کے عاشق تھے۔ دونوں کو ایک دوسرے کی بےحد عزت اور محبت کرتے دیکھا۔ ماموں بھی گھر کی بعض ذمہ داریوں میں بھرپور شامل تھے۔ دراصل خالہ کو لمباعرصہ ’پِتہ‘ کی تکلیف رہی جس کی وجہ سے بعض بوجھل کام وہ نہ کرسکتی تھیں ورنہ پہلے وقتوں میں وہی تو سب کچھ کرتی تھیں بلکہ یہ بات ہمیشہ میں نے اُن سے سن رکھی تھی کہ جب ربوہ آباد ہوا تو یہاں آنے والا خاندان حضرت مسیح موعودؑ کا پہلا گھرانہ ماموں اور خالہ ہی کا تھا۔ کچے گھروں والے ربوہ کا ابتدائی زمانہ، وہ غربت اور تنگدستی کا زمانہ خالہ کوخوب یاد تھا اوراُس دَور کو بہت زیادہ یاد بھی کرتی تھیں۔

دارالضیافت ربوہ کا ایک منظر

اگرچہ ہجرت سے قبل قادیان میں بڑے اچھے حالات تھے لیکن رتن باغ کے واقعات اور پھر ابتدائی ربوہ کے زمانے کو جب بجلی نہ تھی، پانی کی شدید دِقت تھی اور جو پانی تھا وہ انتہائی نمکین، کچی مٹی اور کچے گھر، سردیوں کی شدت اور گرمیوں کی تمازت۔ سب کچھ بہت اچھی طرح سے یاد تھے اور بہت یاد آتے تھے۔ اکثر بتاتیں کہ وہ دن بہت مزے کے تھے ۔ آج کا صاف ستھرا ربوہ، خوبصورت دلکش جماعتی عمارات، اچھے گھر صاف سڑکیں اور جگہ جگہ بکھری شادابی دیکھ کر اپنے رب کریم کے اس معجزے ’ربوہ‘ کو دن بدن آباد ہوتا دیکھ کر دل بےساختہ اپنے اس عظیم محسن کی یادسے بھر جاتا ہے جس کی شبانہ روز کوششوں اور دعاؤں کے طفیل ہم اس پُرامن پیاری بستی میں سکون واطمینان سے رہتے ہیں یعنی حضرت مصلح موعودؓ جو اس صحرا میں خیمہ زن ہوئے اور جن کی اُولوالعزمی نے یہ جہاں آباد کیا۔
خالہ مُودی کہا کرتی تھیں کہ زندگی کے سب رشتے (یادوں میں) وقت کے ساتھ کچھ نہ کچھ بھولتے جاتے ہیں لیکن ایک ایسی ہستی ہے جو کسی لمحے، کسی آن بھول نہیں پاتی یعنی بڑے ماموں جانؓ (حضرت مصلح موعودؓ)۔ ان کے احسانات کا بہت ہی تذکرہ کرتی رہتی تھیں اور یہی حال ماموں منور کا بھی تھا۔ ہمیشہ بڑوں کا تذکرہ انتہائی ادب اور محبت کے ساتھ احسن پیرائے میں کیا کرتے۔
خالہ کی ایک منفرد سی خوبی کبھی کبھار عجیب بھی لگتی تھی۔ گھر چونکہ بہت بڑا تھااور بغیر ملازمین کے گزارا مشکل تھا۔ چنانچہ ملازمین کی کافی تعداد گھر میں ہوتی تھی۔ اب بےچارے ملازمین سے کچھ نہ کچھ غلط ہونا ہی ہوتا تھا۔ ماموں کو ان پر غصہ آجاتا کہ باوجود سمجھانے کے بار بار وہی غلطی کررہا ہے یا کررہی ہے لیکن ’بو مودی‘ (مالیر کوٹلہ میں بی بی کو ’بو‘ کہتے ہیں) فوراً ملازم کی حمایت کے لیے تیار۔ ملازم کی صفائیاں اس قدر مہارت اور چابک دستی سے پیش کرتی تھیں کہ اندر ہی اندر دل میں سخت ہنسی آرہی ہوتی مگر چھوٹے ہونے کے ناطے ہنس نہیں سکتے، بول نہیں سکتے۔ بس میاں بیوی کی بحث ہوئی تو ملازم کی جان چھوٹی اور معاملہ ختم۔ امن کی فضا قائم ہوجاتی مگر خالہ پر مجھے ہمیشہ ہنسی آتی تھی کہ کس عمدہ طریق سے ملازمین کا دفاع کرکے حالات کو قابو میں کرلیتی تھیں۔
بحیثیت ماں آپ ایک بہت ہمدرد، شفیق اور مہربان والدہ تھیں۔ بچوں کے بغیر بتائے ان کی تکالیف کا چہروں سے اندازہ لگا کر بتاد ینے والی ماں تھیں۔ دکھ، درد تکلیف میں سب سے زیادہ احساس کرنے والی ہستی تھیں اور یہی روپ بحیثیت ساس کے اُن میں اسی طرح کا تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے، میں خود بڑی ہوتی جاتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔
بڑا بننا۔ بڑی قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔ گلے شکوے نہ کرنا دوسروں کی لاپروائیوں کو درگزر کرنا، کچھ نہ جتانا یہی سب کچھ تو بڑے پن کا مقام ہوتا ہے۔ ہرایک سے ہروقت انتہائی خندہ پیشانی سے ملنا۔ چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا اور مہما ن کی ہمیشہ خاطرمدارات کی فکر۔ خالہ، ماموں کے ڈریسنگ روم کی ایک الماری میں ہمیشہ گولیوں کے پیکٹ منگواکر رکھے جاتے تھے جو مہمان بچوں کو بھی دی جاتی تھیں اور اپنے گھر کے بچوں کا شام کا ٹائم FIX تھاکہ جس میں بچے کھیلنے سے پہلے آکر لے کر جاتے اور میرے بچے تو چونکہ ساتھ ہی رہتے تھے۔ اِن کے ساتھ بہت لاڈ اور پیار کا تعلق تھا۔ جہاں تربیت میں ایک ذرہ برابرکمی کوتاہی نہ کرتی تھیں وہاں لاڈپیار میں ہر طرح کے ان کے ارمان پورے کرتیں۔ ذرا کسی بچے کو بخار ہے یا طبیعت خراب ہے تو اپنے پاس بلاکر لٹا لیتیں اور سارے ناز نخرے برداشت کرتیں۔ جب میرے بچے چھوٹے تھے اور ہمارے کمرے میں ٹی وی بھی نہ تھا تو کسی شرارت پر یا پڑھائی نہ کرنے پر میری ایک ہی سزا ہوتی تھی کہ اب تم T.V دیکھنے اُمی جان کے گھر نہیں جاؤگے۔ توبس اُسی دن یا چند گھنٹوں بعد مجھ سے پوچھتیں کہ ’’تم یہ سزا بچوں کو نہیں بلکہ مجھے دیتی ہو۔ میرے گھر رونق نہیں رہتی۔‘‘

مرزا عمر احمد

جب سے MTA پر لائیو خطبات کا سلسلہ شروع ہوا تو باقاعدگی سے اہتمام کرتیں۔ سموسے اور جلیبیاں منگواتیں اور چھوٹے بچے اس کے لالچ اور شوق میں باقاعدگی سے خطبہ سنتے۔ خلافت سے تعلق اور وفا تو آپ کے خون کا حصہ تھا۔ ایک مرتبہ کھانے کے میز پر کوئی بات ہورہی تھی کہ خالہ نے بےحد سرسری انداز میں کسی اَور شخص کی کوئی بات خلیفۂ وقت کے بارے میں بتائی۔ اس پر میرے میاں (مرزا عمر احمد) انتہائی غصہ کی حالت میں کہنے لگے کہ خلافت کے بارے میں کسی کی بھی کوئی بات کبھی بھی برداشت نہ کروں گا۔ میں نے دبے لفظوں میں اِن کو بتانا چاہاکہ وہ تو کسی اَور کی بات بتارہی ہیں۔ لیکن اِن کا غصہ تھم نہیں رہاتھا۔ یہ اٹھ کر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد خالہ نے مجھے گلے لگاکر پیار کیا کہ آج میرے دل میں ٹھنڈ پڑگئی ہے کہ میرے بچے کے دل میں خلافت کی اس قدر محبت اور احترام ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ جب منصبِ خلافت پر متمکن ہوئے تو کسی نے باتوں باتوں میں پوچھا کہ یہ تو آپ کی عمر کے لحاظ سے بہت ہی چھوٹے ہیں اب اِن کو خط میں کیسے مخاطب کریں گی؟ تو فرمانے لگیں کہ میں لکھوں گی: میرے پیارے سیدی بیٹے!۔
جماعت کی بےحد غیرت تھی۔ کسی نے ایک مرتبہ کسی اَور فرقے کی تنظیمی صلاحیتوں کی مبالغہ آمیز تعریف کی تو سن کر زیادہ دیربرداشت نہ کرپائیں اور بے ساختہ کہا ’’پھر جاؤ! تم بھی اُس میں شامل ہوجاؤ۔‘‘ یہ جواب اُن کے لیے اس قدر Shocking تھا کہ وہ ہکّا بکاّ خاموش ہوکر جلدی سے وہاں سے چل دیے اور دوبارہ کبھی ایسی بات نہ دہرائی۔


خالہ نے زندگی کے آخری دنوں تک اپنے کمرے کی کھڑکی سے اپنے بیٹوں اور پوتوں کو مسجد میں نمازوں کے لیے آتے جاتے دیکھ کر ہمیشہ الحمدللہ کہا اور بےحد خدا کا شکر ادا کیا کرتیں کہ بچے مسجد سے وابستہ ہیں۔
لجنہ اماءاللہ کے زیر انتظام مختلف پروگراموں میں میری ڈیوٹی کے دوران مکمل طورپر میرے بچوں اور میاں کا اِس طرح خیال رکھتیں کہ مجھے دِنوں اِن کی خبر ہی نہ ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ تربیتی کلاس کے شام کے ’’ملاقات پروگرام‘‘ میں خالہ کو ہم نے مہمان کے طورپر بلایا ہواتھا۔ ایک بچی نے اُن سے پوچھا کہ آپ کیسی سا س ہیں کہ سارا دن آپ کی بہو یہاں ہوتی ہیں اور آپ بُر ا نہیں مناتیں ۔ آپ نے یہ جواب دیا کہ ’’اگر یہ دین کی خدمت نہ کررہی ہوتی تو پھر برا محسوس کرتی۔ دین کی خدمت کررہی ہے اس وجہ سے خوشی سے اس کے بچوں کا خیال رکھتی ہوں۔‘‘
آپ کو اکثر سچی خوابیں آتی تھیں جن کو پورا ہوتے ہم نے بھی دیکھا۔ مجھے بہت ڈر لگتا تھا جب کبھی کوئی مُنذرخواب سناتیں اور کچھ ہی دنوں بعد وہ بات پوری ہوجاتی۔ چونکہ عاجزی و انکساری طبیعت میں بہت زیادہ تھی اس لیے ہمیشہ بہت سرسری سا ذکر کرتی تھیں کہ کہیں کوئی اس وجہ سے بزرگ نہ سمجھنے لگ جائے۔ اسی حوالے سے مجھے یاد آیا کہ ایک روز میری چار سالہ بیٹی ہاجرہ نے انتہائی بھولپن میں اپنے اور حضرت ہاجرہ (علیہاالسلام) کے ناموں میں مماثلت کا ذکر آپ کے سامنے کیا تو آپ نے بےساختہ کہا کہ بیٹا! ’حضرت‘ والے کام تو کرنا پر ’حضرت‘ کہلوانے کا شوق نہ رکھنا۔
آپ مبلغین، واقفینِ زندگی کی اور اُن کی بیگمات کی بےحد عزت و قدرکرتی تھیں۔ خود بھی ایک واقف زندگی کی بیوی تھیںاور کافی مشکل وقت صبر اور سلیقہ سے گزارا ہوا تھا۔ حالانکہ بچپن سے شادی ہونے تک نوابی شان اور پُرآسائش زندگی کی عادی تھیں۔ ضمناً یاد آیا کہ ماموں جب میڈیکل کے چوتھے سال میں تھے تو شادی ہوگئی۔ میڈیکل کے بعد ہاؤس جاب سے جب پہلی تنخواہ ملی تو ماموں نے ساری تنخواہ لفافہ میں ڈال کر اپنے محترم والد حضرت مصلح موعودؓ کو بھجوادی۔ حضورؓ نے لفافہ پر جزاکم اللہ لکھ کر واپس کردی اور اس امر پر خوشی کا اظہار فرمایا۔ بعد میں ماموں بتاتے تھے کہ وہ باقاعدگی سے ہرماہ ساری تنخواہ بھیجتے اور حضورؓ واپس لَوٹا دیتے اور یہ سلسلہ کچھ سال چلتا رہا۔
خالہ مودی بیان کیا کرتی تھیں کہ ربوہ کے ابتدائی ایام میں قریبی دیہاتی عورتیں انڈے لالاکر بیچا کرتی تھیں لیکن اتنی توفیق بھی نہ تھی کہ زیادہ انڈے خریدکر مہمانوں کے لیے رکھے جاسکتے۔ البتہ انڈے کا پاؤڈر ملا کرتا تھا جس کو گھول کر خاگینہ جیسا بنالیتے تھے۔ اِنہی دنوں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ مع بیگم صاحبہ (یعنی بہن اور بہنوئی) آئے تو باجی جان (منصورہ بیگم صاحبہ) نے کہا کہ مَیں صبح ناشتے پرتلا ہوا انڈا کھاؤں گی۔ اب شرم کے مارے نہ بتاسکیں کہ انڈے نہیں ہیں لیکن انڈوں کے پاؤڈر کا خاگینہ بنادیا۔ باجی جان حیران ہیں کہ خاگینہ بنادیا اور انڈا تل کرنہ دیا۔ آپ اگر پاؤڈر کا ذکر کرتی ہیں تو باجی جان کی نفیس طبیعت کراہت کرتی ہے اور اصل حقیقت مہمان کے سامنے بتانے کی ہمت نہیں ہے۔ کہتی تھیں کہ برسوں بعد جاکر ایک دفعہ باجی جان کو حقیقت بتائی کہ اصل ماجرا کیا تھا۔
حضرت بڑی امی (حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ) ہجرت کے بعد لاہور میں رہائش پذیر تھیں۔ جب بھی ربوہ آنا ہوتا تو خالہ کے گھر ٹھہرا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ خالہ نے بڑی امی کے سامنے بطور ایندھن جلائی جانے والی لکڑی کے مہنگے ہوجانے کی کوئی بات کی تو بڑی امی نے فوراً ٹوکا کہ مہمان کے سامنے ایسی بات نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو بوجھ محسوس کرے۔ حالانکہ بڑی امی تو ماں تھیں اور ماں بھی ایسے احساس والی کہ بیٹی کے گھر آتے ہی بطور تحفہ اچھی خاصی رقم دے دیا کرتیں تاکہ اخراجات میں تنگی نہ ہو اور چونکہ اُن کی وجہ سے مہمان داری بھی بڑھ جاتی نیز اس لیے بھی کہ بیٹی کو دقت نہ ہولیکن بیٹی کی معمولی سی غلطی پر بھی ایسے مؤثر انداز میں نصیحت کی کہ آپ کو یہ بات ہمیشہ یاد رہی ۔
ربوہ کے کچے گھروں میں میرے میاں کی پیدائش ہوئی اور قریباً ڈیڑھ سال کے بعد قصر خلافت کے پاس اُن پکے گھروں میں آگئے جو ابا حضورؓ (حضرت مصلح موعودؓ) نے اپنے بیوی بچوں کوبطور تحفہ دیے تھے۔ اس وقت یہ سادہ سے کمروں کے گھر تھے جن کے سامنے برآمدے تھے۔ یہاں میرے دیور مظفر کی پیدائش ہوئی اور خالہ بتاتی تھیں کہ جب بچے کی پیدائش گھر میں ہوئی تو شدید بارش ہورہی تھی اور چھت سے پانی کیچڑ کی طرح ٹپک ٹپک کے میرے سر اور ماتھے پر قطرہ قطرہ گرتا جاتا تھا۔ بچے کی پیدائش کی خبر سن کر اباحضورؓ خود چل کر اذان دینے تشریف لائے تھے جبکہ سڑکیں پانی سے بھری ہوئی تھیں اور حضورؓ شلوار کے پائینچے اٹھاکر چلے آتے تھے۔
قوّت برداشت اور صبر کی طاقت، دونوں میاں بیوی میں ہی بہت تھی۔ بہت سے واقعات میں نے دیکھے۔ جب خالہ منصورہ (آپ کی بڑی بہن) کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے آپا طاہرہ صدیقہ سے شادی کی تو بارات میں ساتھ جانے کے لیے خالہ کو ارشاد فرمایا۔ خالہ بہت ہمت و حوصلہ سے پوری تیار ہوکر گئیں اور مَیں دیکھ رہی تھی کہ کس طرح اپنی آنکھوں کو پونچھتی جاتی تھیں لیکن انتہائی وقار کے ساتھ شرکت کی تیاری بھی کررہی تھیں۔
آپ مہمان کا بےحد خوش اخلاقی سے ہمیشہ استقبال کرتیں اور فوراً خاطرمدارات کی فکر شروع کردیتیں۔ اپنے گھر کے ماحول کو بےحد سادہ اور کھلا رکھا تھا تاکہ خاندان کے بچے بِلاتکلّف آکر بیٹھ سکیں۔ جیسے کسی بڑے کا ایسا گھر ہو جس میں دُورو نزدیک کے سب رشتہ دار بے تکلفی سے آسکتے ہوں۔ خاندان کے گھروں کی بچیوں کو اجازت تھی کہ وہ ہمارے گھر سے گزر کر اپنے سکول جائیں (سکول ہمارے گھر کے بالکل سامنے تھا) بچیوں کو یہ Shortcut بےحد پسند تھا ، کیونکہ راستے میں کھانے کومزیدار چیزیں بھی ملتی تھیں۔ پراٹھے، چٹنی اور آلو کی ترکاری روزانہ صبح خاص طورپر پکوا کر ہاٹ پلیٹ (hot plate) پر رکھی جاتی تھیں تاکہ لڑکیاں کچھ کھاسکیں۔ اور تو اور خالہ کی فیاضی کے چرچے اس قدر عام تھے کہ خاندان کی بعض بچیاں شرارت میں کبھی کبھار امرود بیچنے والی مائی کو خالہ کے گھر بھیج دیتیں کہ جاؤ وہاں جاکر بیچ آؤ اور بعد میں خود اپنی ملازمہ کو بھیج کر منگواتیں کہ خالہ آج امرود کھانے کو بہت دل چاہ رہا ہے اگر ہیں تو بھیج دیں۔
میری ساس اور سسر کے گھر کا نام ’’بیت الاحسان‘‘ تھا۔ دونوں ہی دوسروں کے لیے سراپا احسان تھے۔ دونوں اللہ ملائی جوڑی، وسیع الحوصلہ، کریم الاخلاق اور طویل الایادی تھے جن کا دسترخوان کسی کے لیے ممنوع نہ تھا۔ کیا اپنے کیا پرائے حتی کہ گھریلو ملازمین ،پر انے خدمتگار اور کچھ ریٹائرڈ ملازمین ، بوڑھے بھی۔ سبھی نے اُن کے دسترخوان سے فیض پایا۔ کچھ یوں بھی تھا کہ مالیرکوٹلہ میں ابامیاں (حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ) کے خدمت گار اور کھِلائی (یعنی بچوں کو پالنے اور دودھ پلانے والیاں) کے خاندان نسلاً بعد نسلٍ ساتھ حویلی میں رہتے چلے آرہے تھے اور جب ابا میاں نے قادیان دائمی ہجرت اختیار کی تو اُن میں سے بعض خاندان بھی وہ ساتھ لے آئے جو قادیان کی کوٹھی ’’دارالسلام‘‘ میں ساتھ ہی رہے۔ چنانچہ ہجرت کے موقع پر وہ بھی اُن کی بیگم یعنی حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے ساتھ ہی پاکستان آگئے۔ پہلے لاہور میں اُن کے ساتھ رہے اور پھر ربوہ آگئے۔ اِس خاندان کی کچھ خواتین خالہ کے زیر کفالت بھی تھیں اور ایک خاتون ’’شاری‘‘ نام کی تھیں۔ گو انہوں نے خالہ کی خدمت بھی بہت کی تھی لیکن خالہ ماموں نے بھی مدد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جب ڈھائی تین سال (یا زیادہ عرصہ) اُن کے شوہر کے پاس ملازمت نہ تھی تو چھ سات بچے سب کے کھانے پینے و دیگر ضروریات کا خیال رکھا۔ اِسی طرح ایک پرانے مالی کی بیوی جن کو ’بابن‘ کہتے تھے۔ ان کو بھی کئی سال اپنے گھر رکھا علیحدہ سے کمرہ بناکر دیا ہوا تھا۔ خالہ سردارالنساء بیگم صاحبہ ایک بزرگ خاتون تھیں۔ جب کچے گھروں سے قصر خلافت کے ساتھ والے موجودہ گھروں میں شفٹ ہوئے تو کچھ عرصہ بعد خالہ سردارالنساء صاحبہ بھی آگئیں اور ساتھ رہنے لگیں۔ اِس بزرگ خاتون کا خاندان حضرت مسیح موعودؑ اور خاص طورپر حضرت مصلح موعودؓ کے بچوں سے تعارف اس طرح سے ہواتھا کہ جس سال یعنی 1918ء میں ماموں منور کی پیدائش ہوئی تھی اور ماموں ابھی چند ماہ کے تھے اور حضرت مصلح موعودؓ کا بمبئی میں کچھ عرصہ قیام تھا۔ حضورؓ اورحضرت اُمّ ناصر صاحبہؓ اِن دنوں بہت بیمار تھے کہ حضورؓ نے کچھ احباب سے فرمایا کہ اگر کوئی خاتون بچہ کو سنبھالنے کے واسطے چند دنوں کے لیے آجائیں تاکہ والدہ کو سہولت ہوجائے تو ایک صاحب کی دو بیویاں تھیں۔ اپنی ایک بیگم لے آئے کہ یہ حضورؓ کے بچہ کو سنبھال لیں گی اور وہ خالہ سردارالنساء تھیں اوراُن کو یہ ننھا منور اتنا پسند آیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر حضورؓ کے ساتھ ہی قادیان آگئیں۔ بعدازاں انہوں نے خاندان کے بہت سے بچوں کو پالا پوسا اور سب کے ساتھ ہی رہیں۔ البتہ ان کی زندگی کے آخری سال اس گھر میں اپنے شاہ جہاں (ماموں منور کا نام رکھا ہوا تھا) اور منورہ بیگم (خالہ کا نام تھا) کے پاس ہی گزرے۔ بےحد صاف ستھری اور نفیس طبیعت کی خاتون تھیں۔ موصیہ بھی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ آمین۔
خالہ کی شفقت میں بہت اثر ہے یعنی جس نے ان کا نمک کھایا اس نے بھی خوب حق ادا کیا۔ جو بچے گھر میں رکھ کر پڑھائے لکھائے یا جن سے خدمت بھی لی ان کی تربیت اور ان کے لیے خصوصی احساس کے ساتھ اِس قدر دعائیں کی ہیں کہ آج ان میں سے اکثریت کے اوپر ان کی تربیت اور دعا کا اثر نظرآتا ہے۔ وہ سب کے سب اب تک اِن دونوں کو اس قدر یاد کرتے ہیں اور محبت و تشکرکے ان جذبات کے ساتھ ہمیں ملتے ہیں کہ بیان سے باہر ہے۔ اُن میں سے ایک ہیں ہمارے بھائی عظیم۔ میری شادی سے کچھ سال قبل کی بات ہے کہ جب کشمیر سے چھوٹی سی عمر کا یہ لڑکا تلاشِ معاش میں نکلا۔ جو کبھی چند ماہ ربوہ آکر رہ جاتا اور کبھی واپس چلا جاتا۔ چند سال یہ سلسلہ چلتا رہا پھر خالہ نے سمجھا بجھا کر اورکھانا پکانا وغیرہ سِکھا کر آہستہ آہستہ اپنے گھر کا ان کو ایک فرد ہی بنا ڈالا۔ بڑھاپے تک ان دونوں کی ہمہ وقت خدمت پر مامور رہے۔ گھر کے تمام کام سنبھالنے شروع کردیے اور خاص طورپر خالہ مودی کی زندگی کی آخری بیماری جو تقریباً تین سال پر محیط تھی اس میں بےلوث خدمت کی۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء
خالہ حضرت مسیح موعودؑ کے اس ارشاد کی تصویر تھیں کہ ’’حسن واحسان سے لوگوں کے دل جیتو۔‘‘
حافظہ بلا کا تھا۔ خوب واقعات سناتیں۔ ایک خوبی یہ بھی نمایاں تھی کہ کبھی کسی فوت شدہ کا خصوصاً یا کسی کابھی ذکر بُرے رنگ میں نہ کرتیں۔ ہمیشہ اچھے پہلو یاد رکھتی تھیں اورحسِ مزاح بھی خوب تیز اور پُرلطف تھی جس کا اثر طبیعت کو فرحت و تازگی عطا کرتا تھا۔
جب 1984ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے ہجرت فرمائی تو کراچی کے سفر میں پیش آنے والے واقعات ایک گھریلو مجلس میں کسی کو بیان کرتے سنا تو سخت ناراض ہوئیں کہ کوئی بات باہر نکل جائے۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ بہت محتاط طبیعت تھیں خصوصاً جماعتی معاملات میں۔

مرزا غلام قادر شہید

جب قادر شہید کی شہادت کی خبر آئی تو فوری طورپر سب پر ہی غم کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ ہم قادر کے والدین کے گھر جمع ہوئے تو وہاں خالہ نے مجھے اپنے پاس بلایا اور بےحد روتے ہوئے بمشکل کہا کہ ’’خاندان کے سب بچوں کو جاکر کہہ دو کہ وہ اپنی زندگیاں وقف کردیں۔‘‘ مجھے احساس ہوتا ہے کہ ان میں کس قدر مومنانہ فراست تھی کہ اگر قادر کو دین کے نام پر شہید کیا گیا ہے تو سب بچے اس راہ میں حاضر ہیں۔
مجھے میری امی کی وفات پر باربار سینہ سے لگا کر کہتی جاتی تھیں: ’’میں تمہاری ماں ہوں۔ میں تمہاری ماں ہوں۔‘‘ اتنا پیار کرنے والی ہستی تو شادی کے پہلے دن سے ہی میری ماں تھیں۔ میرا دل تو اصل میں اپنے مالک حقیقی کا شکر گزار ہے جس نے مجھے ایک نہیں دو مائیں اور ایک نہیں دوباپ دیے تھے۔ اب اُن میں سے کوئی بھی نہیں۔ …صرف ان کی یادیں یا پھر مَیں اور میرے آنسو۔ …اور یادوں کا ایک لشکر۔ … دعا کا قطرہ قطرہ بن کر میرے وجود میں دوڑنے لگتا ہے۔ وہ نظارہ یا د آرہا ہے جب اسی کمرے میں ایک چوکے پر بیٹھی میری امی (سیدہ بشریٰ بیگم) کا خاص مصباح نمبرمیں لکھا ہوا میرا مضمون پڑھ رہی تھیں اور آنکھوں سے اشک بہ رہے تھے۔ اس وقت تصوّر بھی نہ تھا کہ آج ان پر بھی کچھ لکھ رہی ہوں گی اور اشکوں کا ایک سیلاب ہوگا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں