محترم محمد شہزادہ خان صاحب افغان

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍مئی 2009ء میں محترم محمد شہزادہ خان صاحب افغان کا ذکر خیر اُن کے بیٹے مکرم محمد شفیع خانصاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔
محترم محمد شہزادہ خان صاحب مرحوم افغانستان کے صوبہ ننگرہار قصبہ بڑوکلاں میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی تعلیم کا شوق تھا۔ چنانچہ اپنے ماموں زاد بھائی کے ساتھ حصول علم کے لئے صوبہ سرحد تشریف لائے۔ ماموں زاد بھائی نے انہیں کوہاٹ میں مولوی احمد گُل صاحب (جوکہ اس وقت تک غیر احمدی تھے) کی سپردگی میں دیا۔ مولوی صاحب آپ کو لے کر اپنے استاد حافظ حنیف اللہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھر جب یہ دونوں بزرگ مشرف بہ احمدیت ہوگئے تو اِس دوران شہزادہ خان صاحب نے بھی کئی خواب اور کشف دیکھے جن میں قادیان کا نقشہ واضح طور پر دیکھا چنانچہ 1910ء میں قادیان پہنچ کر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔ پھر وہیں رہ کر مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور زندگی وقف کرکے ساری عمر سلسلہ کی خدمت میں گزاردی۔ ابتداء میں مربی صوبہ سرحد مقرر ہوئے اور بعد میں مدرسہ احمدیہ جامعہ نصرت میں پڑھاتے رہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں 1962ء کے جلسہ سالانہ پر مجھے جلسہ گاہ جاتے ہوئے دس روپے کا ایک نوٹ ملا تو آپ جلسہ گاہ میں جانے کی بجائے مجھے ہمراہ لے کر پہلے دفتر گمشدہ اشیاء میں آئے، نوٹ جمع کروایا اور پھر جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے۔
آپ نظام کی بہت اطاعت کرتے۔ خلافت سے بہت محبت کرتے اور چندہ جات وقت پر ادا کرتے۔ بتایا کرتے تھے کہ تحریک جدید کا اجراء ہوا تو اُس وقت میں تنگدست تھا اور اس وجہ سے سخت غمگین ہوا۔ بیوی نے پریشانی کی وجہ پوچھی اور میرے بتانے پر اپنی چاندی کی لچھیاں دیں کہ انہیں بیچ کر تحریک جدید میں شامل ہو جاؤ۔ چنانچہ ہم دونوں شامل ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد ہی اللہ تعالیٰ نے مالی حالت مضبوط کردی اور میں نے دوبارہ لچھیاں بنوا دیں اور بیوی سے کہا دیکھو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا کیسے خیال رکھتا ہے۔ ثواب بھی مل گیا اور لچھیاں بھی واپس مل گئیں۔
مضمون نگار کہتے ہیں کہ جب مَیں جیکب آباد میں تھا تو آپ کے پوچھنے پر بتایا کہ وہاں صرف چند احمدی ہیں اور احمدیہ مسجد بھی نہیں ہے۔ کہنے لگے تم کوشش کرکے مسجد قائم کردو خواہ چھوٹی سی ہو۔ پھر نصیحت فرمائی کہ جہاں بھی تبدیل ہو کر جاؤ سب سے پہلے مقامی جماعت سے رابطہ قائم کرو اور اگر بالفرض وہاں جماعت نہ ہو تو کوشش کرکے جماعت بناؤ اور مرکز سے ہمیشہ تعلق قائم رکھو۔
جب مَیں ایک نئے محکمہ میں منتقل ہوا تو دفتر کا ایک کلرک کہنے لگا تم یہاں اپنے احمدی ہونے کا کسی کو مت بتانا ورنہ تم کو ملازمت سے نکال دیں گے۔ مَیں نے جواب دیا کہ اگر احمدیت کی وجہ سے نکالتے ہیں تو بیشک ابھی نکال دیں۔ چنانچہ میں نے اُسی وقت سب کو اپنے احمدی ہونے کا بتادیا۔ چند روز میری مخالفت ہوئی پھر ختم ہوگئی۔ یہ واقعہ جب مَیں نے آپ کو بتایا تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ہم نے احمدیت کو فخر کے ساتھ قبول کیا ہے اور ہمیں فخر کے ساتھ ہی بتانا چاہئے کہ ہم احمدی ہیں۔ پھر آپ نے بتایا کہ محترم ملک عمر علی صاحب مرحوم رئیس ملتان بھی سرکاری افسران کو اپنا تعارف فخر سے احمدیت کے حوالہ سے کراتے ہیں۔
آپ جب قادیان تشریف لے آئے تو پھر کبھی اپنے وطن کا خیال دل میں نہیں لائے۔ ہم کبھی پوچھتے کہ آپ کا دل وطن جانے کو نہیں چاہتا تو فرماتے کہ قادیان ہی ہمارا وطن ہے۔ ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ مرزا صاحب کا کوئی معجزہ بتائیں۔ آپ نے فرمایا: مَیں زندہ معجزہ ہوں۔ میں افغانستان کے ایک جاہل علاقہ کا باشندہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے احمدیت قبول کرنے کا موقع عطا فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے میں نے اپنا وطن ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا اور مسیح کے قدموں میں آکر بس گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اتنے فضل فرمائے کہ بیان سے باہر ہیں۔
پاکستان میں ہم احمد نگر میں آکر آباد ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد آپ کے ریٹائر ہونے پر کسی نے مشورہ دیا کہ یہاں نہ آپ کی زمین ہے نہ ہی کوئی جائیداد ہے، آپ فلاں جگہ چلے جائیں وہاں آپ کو ملازمت بھی مل جائے گی اور مکان بھی مل جائے گا۔ جواباً کہا کہ مَیں نے ساری عمر مرکز میں گزاری ہے اب آخری عمر میں مجھ سے نہیں ہوسکتا کہ میں مرکز کو چھوڑ کر چلا جاؤں۔
احکام خداوندی کا اس قدر خیال فرماتے کہ کوئی ذرا سی بات بھی خلاف شریعت نہ کرتے۔ ایک دفعہ میں نے اپنے دفتر میں بیٹھ کر آپ کو خط لکھ دیا تو سخت ناراض ہوئے اور مجھے لکھا کہ آپ سرکاری ملازم ہیں آپ کو حکومت کی طرف سے امین سمجھا گیا ہے۔ اس امانت کو مدنظر رکھتے ہوئے دفتر کی کوئی چیز، کاغذ یا سیاہی، اپنے مصرف میں لانا، یہ تقویٰ کے خلاف ہے۔
آپ مسجد احمدیہ احمد نگر میں وفات تک درس دیتے رہے۔ اپنے گھر ملتان میں بھی روزانہ اہل خانہ کو جمع کرکے درس دیا کرتے۔ اکثر وقت قرآن شریف کی تلاوت کرتے رہتے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کو کئی کئی بار پڑھتے۔ آپ تہجد گزار اور صاحب کشف بزرگ تھے۔ تحریک جدید کے اجراء سے لے کر وفات تک اپنا اور اہلیہ کی طرف سے چندہ ادا کرتے رہے، ہمیں بھی بچپن سے شامل کیا۔ آپ موصی بھی تھے۔
آپ نے 11؍اگست 1963ء کو وفات پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں