محترم منشی علم الدین صاحب شہید کوٹلی

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 30؍ ستمبر 2022ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍اکتوبر2013ء میں شامل ایک مختصر مضمون میں مکرم عطاءالاسلام صاحب نے اپنے دادا محترم منشی علم الدین صاحب عرائض نویس کا ذکرخیر کیا ہے۔ شہید مرحوم کا تذکرہ قبل ازیں ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 20؍دسمبر 1996ء اور 24؍جنوری 2020ء کے الفضل ڈائجسٹ میں بھی کیا جاچکا ہے۔ مذکورہ مضامین بھی اس ویب سائٹ میں شامل ہیں.
محترم منشی علم الدین صاحب کے والد کا نام پیر بخش تھا جو اہل حدیث فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ منشی صاحب کی پیدائش کا معین علم نہیں ہے مگر غالب گمان ہے کہ آپ 1890ء کی دہائی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دو بھائی اَور تھے جن میں سے مکرم کرم دین صاحب نے حضرت چودھری محبوب عالم صاحبؓ کی تبلیغ سے پہلے بیعت کی سعادت حاصل کی تھی، اُس کے بعد مکرم الف دین صاحب احمدی ہوئے اور آخر میں محترم منشی علم الدین شہید نے 1934ء میں بیعت کی سعادت حاصل کی۔
محترم منشی صاحب 1959ء میں نظام وصیت میں شامل ہوئے۔ جلسہ سالانہ ربوہ میں بہت التزام سے شامل ہوتے لیکن آخری عمر میں جب صحت کی کمزوری کے باعث نہ جاسکتے تو جلسہ پر جانے والوں کو بہت محبت سے روانہ کرتے۔ آپ ایک فرشتہ سیرت انسان تھے۔ کبھی کسی کو تکلیف نہ دیتے اور اگر کسی کو تکلیف میں دیکھتے تو سخت تکلیف محسوس کرتے۔ نمازوں کے بہت پابند اور تہجدگزار تھے۔ ایک بار اپنے بیٹے کو تحریر کیا کہ معلوم ہوا ہے کہ تم نمازوں میں سستی کررہے ہو، یہ بات میرے لیے ناقابل برداشت ہےکہ میری اولاد بےنماز ہو۔
نرم طبع ہونے کی وجہ سے آپ عموماً بچوں کو سزا دینے سے اعراض کیا کرتے تھے۔ اگر بہت ضروری ہوجاتا تو باریک سی چھڑی سے ہلکا ہلکا مارتے اور ساتھ ساتھ استغفراللہ کہتے جاتے۔ اس سزا کے بعد دودھ جلیبیاں بھی ملا کرتی تھیں۔
واقفین زندگی کی بہت عزت کرتے۔ پیشے کے اعتبار سے عرائض نویس تھے۔ ضلع کچہری کوٹلی (کشمیر) میں بیٹھتے تھے۔ بہت اصول پسند اور صاف گو انسان تھے اس لیے کسی غیراخلاقی (رشوت ستانی وغیرہ کے) معاملات سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی کوئی شخص آپ سے کوئی غلط تحریر لکھواسکتا تھا۔ اگر کوئی غریب آجاتا تو اُس کا کام مفت کردیتے بلکہ اس کے علاوہ بھی جو بن پڑتا وہ بھی مدد کرتے۔ دعوت الی اللہ کا بھی انوکھا انداز تھا۔ اگر کوئی پڑھالکھا شخص آجاتا تو اُس کو کام کے عوض کوئی جماعتی کتاب یا رسالہ پڑھ کر سنانے کو کہتے۔
محترم منشی صاحب کی عادت تھی کہ صبح جلدی کچہری پہنچ جاتے اور کام مکمل کرکے جلد واپس تشریف لے آتے۔ 17؍اگست 1979ء کی صبح نو بجے جب آپ گھر سے نکلے تو گلی میں ہی بدبخت قاتل استرا لیے کھڑا تھا۔ اُس نے آپ پر پے در پے وار کیے اور گردن پر بہت گہرا زخم لگایا۔ آپ گھر کے سامنے ہی گر گئے اور خون بہت زیادہ بہ جانے کی وجہ سے موقع پر شہید ہوگئے۔ آپ کو قتل کرنے کے بعد قاتل (جو خود ایک وکیل تھا) مرزائی کو مارنے کے نعرے لگاتا ہوا فرار ہوگیا۔ چونکہ اُس نے منصوبہ بندی پہلے سے کی ہوئی تھی اس لیے عدالت میں اُس نے خود کو پاگل ظاہر کرکے بری کروالیا۔ لیکن خداتعالیٰ نے اُس کو واقعی پاگل کردیا۔ پھر وہ منشی صاحب کے رشتہ داروں کی دکانوں کے آگے گھنٹوں ہاتھ باندھ کر کھڑا رہتا اور معافی مانگتا۔ اُس کی حالت دیکھ کر اُس کے والد نے اُس سے لاتعلقی کا اظہار کردیا اور بالآخراُس نے زہر کھاکر خودکُشی کرلی۔
اللہ تعالیٰ نے محترم منشی علم الدین صاحب کو چار بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ اس کے علاوہ کچھ اولاد کم سنی میں بھی فوت ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں