محترم چودھری برکت علی صاحب

ماہنامہ ’’مصباح‘‘ مارچ 2009ء میں محترم چوہدری برکت علی صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے آپ کی بیٹی رقمطراز ہیں کہ آپ سیالکوٹ کے ایک گاؤں ملپرکے زمیندار گھرانے اور کٹر سنّی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو کہ پیرپرستی میں حد سے بڑھا ہوا تھا۔ تقویٰ شعار، پنجوقتہ نماز ادا کرنے والے اور تہجد گزار تھے۔ آپ نے 1956ء میں ایک خواب میں حضرت مصلح موعودؓ کو دیکھا جو فرما رہے ہیں کہ امام مہدی آگیا ہے۔ چونکہ آپ حق کے متلاشی تھے۔ یہ رؤیا دیکھ کر آپ سیالکوٹ شہر کبوتراںوالی مسجد میں گئے اور بعد از تحقیق احمدیت قبول کرلی۔ خاندان والوں کو معلوم ہوا تو سب نے آپ کا بائیکاٹ کردیا۔ اپنے کنویں سے پانی بھرنے کی ممانعت کردی۔ چونکہ سارا خاندان ایک ہی گاؤں میں تھا اس لئے انہوں نے ہر اذیت آپ کو پہنچائی۔ مولویوں نے کئی بار آکر بحث کی اور جب آپ قرآن سے اُن کو جواب دیتے تو وہ یہ کہتے کہ مرزائیوں نے اپنے مطلب کی باتیں قرآن میں ڈال لی ہیں اس لئے ان کو ہر بات کا جواب قرآن سے مل جاتا ہے۔ آپ کو قتل کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔
آپ کی اہلیہ اگرچہ متقی، تہجدگزار اور غریب پرور تھیں لیکن پیرپرستی میں اتنی بڑھی ہوئی تھیں کہ اُن کے لئے اپنے خاوند کا قبول احمدیت کا صدمہ برداشت سے باہر ہوگیا۔ ایک بار ہماری ممانی نے گیارھویں شریف کا ختم کروایا لیکن ہمارے والد صاحب نے ہمیں اُن کے ہاں نہ جانے دیا۔ شام کو ممانی ایک بڑی پرات میں چاول بھر کر لائیں تو والد صاحب نے کہا کہ یہ چاول جس پر غیراللہ کا نام لیا گیا ہے ہمارا کتّا بھی نہیں کھائے گا۔ ممانی نے طیش میں آکر پرات میں سے کچھ چاول پالتو کتّے کے آگے ڈال دیئے۔ کتّا چاولوں کو سونگھ کر واپس چلا گیا۔ ممانی گالیاں دیتی ہوئی واپس چلی گئیں اور ہماری والدہ کے ذہن پر اس واقعہ کا شدید ذہنی اثر ہوا اور وہ قریباً ایک سال تک بیمار چارپائی پر پڑی رہیں۔ ہمارے والد صاحب کے لئے یہ ایک اَور صدمہ تھا۔ پھر ایک روز ہمارے ایک چچا نے آکر ہمارے والد صاحب کو پیٹا اور دھکے دے کر حویلی سے نکال دیا۔ جب والد صاحب کچھ آگے گئے تو چچا نے بلند آواز سے کہا کہ اب پولیس کو نہ لانا، مرزا کو لانا۔
والد صاحب ایک کھیت میں سجدے میں گر گئے اور دعا کرتے رہے۔پھر سارا دن شہر میں بے مقصد پھرتے رہے اور آدھی رات کو واپس آئے تو معلوم ہوا کہ آپ کے گھر سے نکلتے ہی چچا کا ایک جوان بیل اچانک گرکر مرگیا ہے۔ ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ چچا کی ایک خوبصورت قیمتی بھینس کے اچانک مرنے کی اطلاع بھی آگئی۔ تھوڑی دیر بعد چچا بھاگتا ہوا آیا اور آپ کے قدموں میں گر کر معافی مانگتے ہوئے کہنے لگا کہ بھائی! تُو سچا، تیرا مہدی سچا، مجھے معاف کردے۔
ایک دوسرا چچا جس نے والد صاحب کو مارنے کے علاوہ بیٹیوں کی بھی گالیاں دی تھیں۔ اُس وقت اُس کی ایک ہی بیٹی تھی۔ بعد میں اُس کے ہاں گیارہ بیٹیاں ہوئیں اور کوئی بیٹا نہ ہوا۔ اسی طرح ایک دوسرے چچا کے دو بیٹے تھے۔ وہ والد صاحب کو اور میرے بھائی کو لاٹھیاں مارکر کہتا تھا کہ اِن کا بیج ہی مار دو تاکہ آئندہ کوئی مرزائی نہ رہے، اُس کے دونوں بیٹے لاوارث مرے۔ میرے والد صاحب کے ہاں دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہوئیں۔ بڑا بیٹا عین جوانی میں فوت ہوگیا دوسرے بیٹے سے اللہ تعالیٰ نے تین پوتے عطا کئے ۔
جب میرے والد صاحب کو یہ اطلاع ملی کہ آپ کو قتل کرنے اور بیٹیوں کو زبردستی اپنے بیٹوں سے بیاہ دینے کا پروگرام آپ کے رشتہ داروں نے بنالیا ہے تو آپ خاموشی سے پہلے اپنی بیمار بیوی کو ربوہ لائے اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ (جو اُس وقت کالج کے پرنسپل تھے) کے گھر پر چھوڑ کر واپس گئے اور جون کے مہینے کی ایک رات خاموشی سے سارے بچے ایک بیل گاڑی میں ڈالے اور معمولی سامان لے کر نکل پڑے اور مسلسل پانچ دن رات کے سفر کے بعد ربوہ پہنچے اور پھر یہیں کے ہورہے۔ اگرچہ ہماری والدہ کی بہت خواہش تھی کہ واپس گاؤں چلے جائیں لیکن والد صاحب کہا کرتے کہ تم یہاں امن اور سکون سے بیٹھی ہو تمہیں کیا پتہ اُن لوگوں پر تو گولے گرنے ہیں۔ پھر واقعی 1965 ء کی جنگ میں ہمارا گاؤں گولہ باری کی زَد میں آیا اور سارے گاؤں کو دربدر ہوکر دوسرے علاقوں میں پناہ گزین ہونا پڑا۔
ہمارے والد صاحب نے اپنا سارا مال، مویشی، جائیداد اور اثر و رسوخ احمدیت پر قربان کردیا۔ پھر اپنا کنبہ پالنے کے لئے کبھی راج گیری کی، کبھی معمولی محنت مزدوری کی لیکن اُن کے ایمان میں ذرّہ بھی لغزش نہ آئی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کو بھی خدمت دین کی توفیق عطا فرمائی۔ مکرم وسیم احمد ظفر صاحب مربی سلسلہ آپ کے نواسے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں