محترم چودھری مختار احمد سنوری صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26؍جنوری 2000ء میں مکرمہ مبارکہ مختار سنوری صاحبہ اپنے شوہر محترم چودھری مختار احمد صاحب سنوری کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ آپ 10؍جنوری 1995ء کو مولائے حقیقی سے جاملے۔ آپ کو پہلے بنگال میں مختلف عہدوں پر اور پھر جھنگ میں 25 سال تک سیکرٹری امورعامہ کے طور پر خدمت کا موقع ملا۔ آپ کے دادا حضرت منشی ہاشم علی صاحبؓ سنور میں پٹواری تھے جن کا نام حضرت مسیح موعودؑ نے ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں بھی درج فرمایا ہے۔ آپ کے والد سنور میں پلیڈر تھے۔ آپ کی والدہ نے 1902ء میں احمدیت قبول کی اور وہ اپنے میکہ میں اکیلی احمدی تھیں۔ آپ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔
آپ بتایا کرتے تھے کہ شروع جوانی میں مَیں نمازوں میں باقاعدہ نہ تھا ۔ ایک روز دوستوں میں تبلیغ کر رہا تھا تو ایک غیرازجماعت کو جب جواب نہ سوجھا تو کہنے لگا کہ تم تبلیغ تو خوب کرتے ہو مگر نمازیں پوری نہیں پڑھتے۔ یہ سن کر مجھے بڑی غیرت آئی اور اُس وقت کے بعد مَیں نے کوئی نماز نہیں چھوڑی۔
آپ بہت دعاگو تھے اور آپ کے بے شمار سچے خوابوں کی مَیں خود گواہ ہوں۔ جب 75ء میں ہم بنگال سے پاکستان آئے تو ہماری مالی حالت بہت خراب تھی، ادھر بچے جوان ہورہے تھے۔ اپنی بچی شاکرہ کے رشتے کے بارے میں ہم دعائیں کر رہے تھے کہ ایک روز مختار صاحب نے مجھے اپنی خواب سنائی کہ شاکرہ سفید رنگ کا برقعہ پہلے ایئرپورٹ پر کھڑی ہے اور ساتھ ہی ایک افریقی لڑکا کھڑا ہے … گویا اسے کسی غیرملک کی طرف رخصت کر رہا ہوں۔ اس افریقی لڑکے کا چہرہ کبھی ٹی وی پر نظر آنے لگتا ہے اور پھر ٹی وی پر یہ منظر دیکھتا ہوں کہ لوگ اسے دیکھ کر تالیاں بجا رہے ہیں، کچھ لوگ اس سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ مَیں نے باقی کا خواب سننا بھی گوارا نہ کیا اور جلدی سے انہیں ٹوک دیا کہ آپ کیسی اُلٹی سیدھی خوابیں دیکھ رہے ہیں، مَیں تو کبھی بھی کسی افریقی کو اپنی چاند سی بیٹی نہیں دوں گی۔
اس بات کو مَیں بھول گئی کہ 1979ء میں میری پھوپھی محترمہ امۃالحفیظ سلام صاحبہ لندن سے آئیں تو محترم مولوی قمرالدین صاحب کے نواسے رفیق احمد حیات کا رشتہ میری بیٹی کے لئے لائیں۔ یہ بچہ افریقہ میں پیدا ہوا تھا اور اب لندن میں CA کررہا تھا۔ تصویر دیکھتے ہی مختار صاحب نے دل میں اسے قبول کرلیا لیکن مَیں اور بچے نہیں مان رہے تھے کہ اتنی دُور ہم بیٹی کی شادی اُن لوگوں میں کردیں جن سے ہم کبھی ملے بھی نہیں۔ ایک روز مختار صاحب مجھے کہنے لگے کہ ’’آج تم کبھی کچھ کبھی کچھ کہہ کر اس رشتہ سے انکار کر رہی ہو لیکن ایک وقت آئے گا کہ تم اس لڑکے پر فخر کرو گی۔ اِسے دنیا دیکھے گی، سنے گی اور اس کی وجہ سے لوگ ہماری بھی عزت کریں گے، بس مَیں نے فیصلہ کرلیا ہے، تم بھی دعا کرو‘‘۔
پھر ہم نے اپنی بیٹی کو اسی طرح سفید برقعہ میں دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔ لندن میں اس کی رخصتی محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے گھر سے عمل میں آئی جو میرے ماموں بھی ہیں ، چچا بھی اور پھوپھا بھی۔ پھر اس خواب کا ہر لفظ پورا ہوا۔ حالات ایسے ہوئے کہ حضور انور کو لندن جانا پڑا، ایم ٹی اے کا اجراء ہوا، اب رفیق حیات TV پر آتا ہے تو لوگ اسے دیکھتے اور سنتے ہیں۔ مختار صاحب جب رفیق کو TV پر دیکھتے تو اُن کی عجیب کیفیت ہوجایا کرتی تھی۔ ایمان کی مضبوطی اور اس کا لطف وہی جان سکتا ہے جس نے اپنے خواب کے پورا ہونے پر اپنے خدا کا چہرہ دیکھا ہو۔
(مکرم رفیق احمد حیات صاحب سابق چیئرمین مسلم ٹیلی وژن احمدیہ انٹرنیشنل ، اس وقت بحیثیت امیر جماعت احمدیہ برطانیہ خدمت کی توفیق پارہے ہیں)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں