مدینۃ الاولیاء ملتان کی تاریخ و اہمیت

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 10؍اپریل 2023ء)
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 4؍دسمبر 2014ء میں مکرم عطاء النور صاحب کے قلم سے جنوبی ایشیا کے قدیم ترین شہروں میں شامل شہر ملتان کی تاریخی حیثیت اور اہمیت سے متعلق ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
مؤرخ البیرونی نے اپنے سفرنامہ میں اسے 2؍لاکھ 16ہزار 430 برس پرانا بتایا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ اس کا قدیم نام کشپ پورہ تھا۔ یہ شہر بار بار اجڑتا رہا اور ہنس پورہ، بھاگپور، سب پور، مولستھان پور، پرپلاپور، مولتارن وغیرہ ناموں سے آباد ہوتا رہا۔ بعض کے نزدیک اس شہر کا نام یہاں کے ایک قدیمی قبیلہ مل (Mul) کے نام پر پڑا جو ملستھان نامی ایک بت کی پوجا کرتے تھے۔ ہندوؤں کی تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی متبرک کتاب رگ وید بھی اسی علاقہ میں بیٹھ کر لکھی گئی تھی اور یہ بھی کہ یہ شہر ان کی دیوی اور دیوتاؤں کا مسکن رہا ہے۔
شاہنامہ فردوسی میں لکھا ہے کہ ملتان شہر 6 سو سال قبل مسیح میں ایک صوبہ تھا۔ ملتان کی مستند تاریخ سکندر اعظم کے حملے سے ملتی ہے جو 350 قبل مسیح میں ہوا۔ بعض مؤرخین ملتان کو ہڑپہ اور موہنجودڑو کے زمانے کا ہم عصر خیال کرتے ہیں جس کی تصدیق قلعہ کہنہ کی کھدائی سے برآمد اشیاء سے ہوتی ہے۔
ملتان کو اصل شہرت اسلامی عہد حکومت میں حاصل ہوئی جب محمد بن قاسم نے اسے 712ء میں فتح کیا۔ یہاں تقریباً دس ہزار عرب آباد کیے اور ایک جامع مسجد تعمیر کرائی۔ تیسری صدی ہجری تک ملتان اور اس کے مضافات میں مدارس اور مساجد کا جال پھیل گیا اور یہ شہر علم و ادب کا گہوارہ بن گیا۔ چوتھی صدی ہجری میں اسے محمود غزنوی نے فتح کیا۔ اسی کے زمانے میں مشہور مؤرخ و مفکر البیرونی یہاں آیا اور پانچ سال سے زیادہ عرصے تک ملتان میں رہا۔ اس کی تصنیف ’’کتاب الہند‘‘ میں اس زمانے کے ملتان کی علمی و ثقافتی زندگی کا تذکرہ تفصیل سے ملتا ہے۔
ملتان شہر کو یہ فخر حاصل ہے کہ اہل تصوف کے تین روحانی سلسلے یہیں سے برصغیر میں پھیلے۔ سہروردی سلسلہ حضرت بہاء الدین زکریا ملتان سے، چشتیہ سلسلہ بابا فرید گنج شکر سے اور قادری سلسلہ حضرت مخدوم رشیدحقانی سے چلا۔ نیز اس شہر کو تین بڑے حکمرانوں کا مولد ہونے کا شرف بھی حاصل ہے یعنی محمد تغلق، بہلول لودھی اور احمد شاہ ابدالی۔
ملتان میں بہت سے اکابر اولیائے کرام کے مزارات ہیں جس کی وجہ سے اسے مدینۃالاولیاء کہا جاتا ہے۔ ان اولیائے کرام میں حضرت بہاء الدین زکریا اور حضرت شمس تبریزی بھی شامل ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کو بھی ایک مقدمے کے سلسلہ میں ملتان جانے کا موقعہ ملا۔ آپؑ اس حوالے سے فرماتے ہیں: مُردوں سے مدد مانگنے کا خدا نے کہیں ذکر نہیں کیا بلکہ زندوں ہی کا ذکر فرمایا … مُردوں کی قبریں کہاں کم ہیں۔ کیا ملتان میں تھوڑی قبریں ہیں۔ گرد و گرما گدا و گورستان اس کی نسبت مشہور ہے۔ میں بھی ایک بار ملتان گیا۔ جہاں کسی قبر پر جاؤ مجاور کپڑے اتارنے کو گرد ہو جاتے ہیں۔ (ملفوظات جلداوّل جدید ایڈیشن صفحہ476)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ بھی ایک مقدمے کی شہادت کے لیے جولائی 1910ء میں ملتان تشریف لے گئے تھے۔ معززین ملتان نے مدرسہ اسلامیہ کے جس ہال میں حضرت مسیح موعودؑ کی تقریر کروائی تھی، اسی ہال میں آپؓ سے بھی تقریر کروائی گئی اور بعدازاں سینکڑوں افراد نے جسمانی معالجات سے بھی فائدہ اٹھایا۔ (حیات نور صفحہ456تا457)
حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت نیاز بیگ صاحب کو اس امر کے سلسلے میں ملتان تحقیق کے لیے بھیجا تھا کہ حضرت باوانانک نے ملتان میں کوئی چلّہ کیا ہے یا نہیں؟ چنانچہ 30 ستمبر 1895ء کو ان کا خط مع نقشہ موقع کے حضرت صاحب کو موصول ہوا جس کا ذکر آپؑ نے اپنی کتاب ’’ست بچن‘‘ میں کیا ہے۔ خط کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت باوا نانکؒ نے حج سے واپسی پر روضہ مبارک حضرت شاہ شمس تبریزؒ پر چالیس روز تک چِلّہ کیا تھا۔ روضہ کے جانب جنوب میں وہ مکان ہے جو چِلّہ نانک کہلاتا ہے۔ یہ مکان محراب دار دروازے کی شکل پر بنا ہوا ہے جس پر یااللہ کا لفظ لکھا ہوا ہے اور ساتھ اس کے ایک پنجہ بنا ہوا ہے۔ اس جگہ کے ہندو مسلمان اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ یہ لفظ یااللہ باوا صاحب نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا اور پنجہ کی شکل بھی اپنے ہاتھ سے بنائی تھی۔ چنانچہ ہندو اور سکھ لوگ اس جگہ کو متبرک سمجھ کر زیارت کرنے کو آتے رہتے ہیں۔ روضہ کے گردا گرد ایک مکان مسقف بنا ہوا ہے جس کو یہاں کے لوگ غلام گردش کہتے ہیں۔ جہاں باوا نانک صاحب کی جائے نشست ہے جو مسقف ہے۔
(ماخوذ از ست بچن۔روحانی خزائن جلد10صفحہ184 تا187)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں