مکرم محمد رفیع جنجوعہ صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 23؍اپریل 2021ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍مارچ 2013ء میں مکرمہ ف۔ز صاحبہ نے قبولیتِ دعا کی روشنی میں اپنے والدمحترم محمدرفیع جنجوعہ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
مکرم محمد رفیع جنجوعہ صاحب ستمبر 2011ء میں بعمر 87 سال وفات پاگئے۔ آپ بسلسلہ ملازمت مختلف مقامات پر متعین رہے اور ریٹائرڈ ہونے پر سرگودھا میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ وفات سے چند سال قبل سانس کی تکلیف ہونے پر ربوہ منتقل ہوگئے تھے۔ جہاں بھی قیام کیا، ہر جگہ خدمتِ دین کو مقدّم رکھا اور مطالعہ کتب سے بہت استفادہ کیا۔ خلیفہ وقت سے تعلق اور دعاؤں کا پھل ساری عمر کھایا اور مذکورہ تینوں باتوں کی نصیحت اپنی اولاد کو ہمیشہ کرتے رہے۔ آپ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل تھے۔
آپ 1942ء میں اُس وقت فوج میں بھرتی ہوگئے جب جنگ عظیم جاری تھی۔ اسی دوران جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کے لیے آپ نے تین چار دن کی رخصت مانگی لیکن صرف ایک دن کی رخصت ملی۔ اسی کو غنیمت سمجھ کر آپ لاہور سے قادیان پہنچے اور پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو درخواست کی کہ آپ کی ملاقات حضرت مصلح موعودؓ سے کروادی جائے کیونکہ آپ نے اُسی روز واپس جانا ہے۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے جواب دیا کہ حضور کی مصروفیت کی وجہ سے انفرادی ملاقات ممکن نہیں ہے۔ چونکہ آپ کو صرف ایک دن کی رخصت ملی تھی اس لیے بہت صدمہ ہوا۔ آپ خاموشی سے دفتر کے ایک کونے میں ہی قریباً نصف گھنٹہ دعا میں مصروف رہے کہ جنگ کے دن ہیں، خدا جانے آئندہ خلیفہ وقت سے ملاقات بھی نصیب ہوتی ہے یا نہیں۔ پھر دوبارہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے پاس گئے اور اپنی درخواست دہرائی۔ وہی جواب ملا۔ آپ ابھی وہیں خاموش کھڑے تھے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فون پر پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے فرمایا کہ اگر کوئی ملاقاتی ہے تو اسے اوپر میرے پاس بھیج دو۔ یہ ایک معجزہ ہی تھا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ مَیں فوجی وردی میں ملبوس تھا۔ اپنی دعا کی قبولیت دیکھ کر حضورؓ کے سامنے پہنچا تو دو زانو ہوکر حضورؓ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اتنا رویا کہ میرے آنسوؤں سے حضورؓ کے ہاتھ بھی گیلے ہوگئے۔ بصد مشکل یہ کہہ سکا کہ حضور! میری سلامتی کے لیے دعا کریں۔ چار پانچ منٹ تک روتا رہا، نہ حضورؓ نے اپنا ہاتھ الگ کیا اور نہ ہی مَیں نے چھوڑا۔ آخر خود ہی احساس ہوا کہ میرے آنسوؤں سے حضور کے دست مبارک بھیگ گئے ہیں، ایسا نہ ہو کہ حضور خود ہی ہاتھ کھینچ لیں، مَیں نے ہاتھ الگ کرلیے۔
آپ بیان کیا کرتے تھے کہ خلیفہ وقت کی دعاؤں کی قبولیت کو مَیں نے ایسے دیکھا ہے کہ خط لکھنے کے بعد اگر پوسٹ نہیں بھی ہوسکا تو حضور کی دعائیں پہنچنا شروع ہوگئیں۔ چنانچہ ایک بار جب آپ اپنی فیملی کے ساتھ شہر سے دُور ایک فوجی کیمپ میں مقیم تھے تو آپ کی ایک بیٹی نے رونا شروع کردیا۔ سوائے دعا کے کوئی چارہ نہ تھا۔ آپ نے خلیفہ وقت کی خدمت میں بھی خط لکھا اور جیب میں رکھ لیا کہ صبح بچی کو شہر ڈاکٹر کے پاس لے جائیں گے تو خط بھی پوسٹ کردیں گے۔ جب صبح ڈاکٹر کو دکھایا تو اُس نے بتایا کہ بچی کیسے بچ گئی، اسے تو ڈبل نمونیہ ہے۔ آپ نے خط جیب سے نکالا اور ڈاکٹر کو دکھاکر کہا کہ اس خط نے دعاؤں کو جذب کیا ہے۔
جب آپ محکمہ TDA میں بطور مکینک ملازم تھے تو آپ کے Tool Box سے آہستہ آہستہ اوزار غائب ہونا شروع ہوگئے۔ یہ احساس ہونے پر آپ کو شدید صدمہ ہوا۔ عصر کی نماز کا وقت تھا جب آپ نے خوب رو رو کر دعا کی کہ خدایا! میری تو کسی سے کوئی دشمنی نہیں، اگر تُو نے میرے سامان کی حفاظت نہ کی تو اس نقصان کی رقم تو مَیں ساری زندگی نہیں اتار سکوں گا۔ دعا کے پانچویں روز ایک مکینک آپ کے پاس آیا جو بظاہر دوستی کا دَم بھرتا تھا لیکن اندر سے احمدی ہونے کی وجہ سے شدید دشمن تھا۔ اُس نے آپ کو سارے اوزار واپس کیے اور کہا کہ مجھے معاف کردو، چار پانچ دن سے مَیں سو نہیں سکا، کبھی سانپ کبھی شیر اور چیتے کھانے کو دوڑتے ہیں۔ پھر اُس نے درخواست کی کہ یہ بات کسی کو نہ بتانا ورنہ میری عزت خاک میں مل جائے گی۔ یہ بھی ایک معجزہ تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں