ہستی باری تعالیٰ کے متعلق میری ذاتی شہادت

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 23؍اپریل 2021ء)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کے رؤیا اور قبولیتِ دعا کے حوالے سے رقم فرمودہ ایک طویل مضمون کا کچھ حصہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍مارچ 2013ء میں ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔ قبل ازیں اسی مضمون سے کچھ واقعات 2؍اپریل 1999ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں شائع ہوچکے ہیں۔ مضمون کے بقیہ حصے میں بیان فرمودہ چند ایمان افروز واقعات ذیل میں ہدیۂ قارئین ہے۔
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ یاد رکھنا چاہیے کہ غیب یعنی آئندہ کا پتہ کسی انسان کو نہیں ہے۔نہ آج تک کوئی ایسا علم ایجاد ہواہے جو غیب تک رہبری کر سکے۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ اس عالم میں ’’اتفاق‘‘ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ ہر چیز اور ہر واقعہ اور ہرحادثہ کسی باعث یا علم یا عمل کا نتیجہ ہوتا ہے اور مسلسل واقعات کی زنجیر کی ایک کڑی ہوتا ہے اور کسی بات کی بابت یہ کہہ دینا کہ یونہی یا خود بخود یا اتفاقاً ہوگئی، بالکل غلط ہے۔ اسی طرح غیر معمولی یا فوری قبولیت کسی دعا کی یقیناً کسی قادر اور سمیع و بصیر ہستی کے وجود پر ایک پختہ دلیل ہے۔ اس حوالے سے چند مثالیں بیان کرتا ہوں:
٭…عبدالرحمان مصری صاحب کے مرتد ہونے سے آٹھ ماہ قبل مجھے معلوم ہوا کہ ’’اتنے … (یہاں ایک خاص عدد ہے) منافق کھلم کھلا نکل جائیں گے۔

فَسَوۡفَ یَاتِی اللّٰہ …۔

پیغامی اور احرار اور نئے مرتد یہ تینوں لیڈر ہوں گے۔ مسجد شہید گنج کی خدمت کے لئے احمدی والنٹیئر اور ہم حاضر ہیں۔‘‘ چنانچہ ایک سال پورا نہ ہونے پایا تھا کہ نئے مرتد اور ان کا دوسرے مخالفین کے ساتھ مل جانا میں نے بچشم خوددیکھ لیا۔
٭…حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں مَیں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ چودھویں کا چاند آسمان پر ہے اور وہ میرے دیکھتے دیکھتے پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا۔ ایک ٹکڑا بہت بڑا اور ایک چھوٹا سا اور دونوں ٹکڑے پھر الگ ہو کر ایک دوسرے سے دُور ہو گئے۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے کہ جب کسی کو وہم بھی نہ تھا کہ حضر ت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی خلافت کے وقت یہ جماعت یکدم اس طرح دو حصے ہوجائے گی اور بدرجس سے حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت مراد ہے۔دوٹکڑے ہو کر ایک بڑا حصہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ساتھ ہو گا اور ایک قلیل حصہ الگ اور دُور ہو جائے گا۔ مگر آخر کا ر میں نے اپنی آنکھوں سے اس بات کو بھی پورا ہوتے دیکھ لیا۔
٭… 20؍نومبر1936ء کو مَیں نے خطبہ جمعہ کے دوران یکایک کشفی طور پر دیکھا کہ مسجد کے صحن میں ایک جنازہ رکھا ہوا ہے۔ میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ سید انعام اللہ شاہ صاحب کا جنازہ تھا۔پھر وہ نظارہ جاتا رہا۔ ایک ماہ بعد جلسہ سالانہ کے ایام میں 25؍دسمبر والے جمعہ کو بعد نماز جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حسب معمول چند آدمیوں کے جنازے پڑھائے۔ جب جنازہ پڑھ کر مَیں باہر نکلا تو ایک صندوق دیکھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ سید انعام اللہ صاحب کا جنازہ ہے۔ مجھے اس سے پہلے قطعاً کوئی علم یا خواب و خیال بھی نہ تھاکہ ان کی نعش حیدر آباد دکن سے، جہاں وہ دفن تھے، کبھی قادیان لائی جاسکتی ہے اور یہ کہ جمعہ کے دن مسجد میں ان کا جنازہ ہو گا۔

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں