مکرم ناصر احمد ظفر صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 6؍جنوری 2023ء)

مکرم ناصر احمد ظفر صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 22؍اگست 2014ء میں مکرم ناصر احمد ظفر صاحب کا ذکرخیر اُن کے بیٹے مکرم طارق بلوچ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

طارق بلوچ صاحب

مضمون نگار لکھتے ہیں کہ نومبر 1995ء میں ہماری والدہ کے اچانک انتقال کے بعد والد محترم ناصر احمد ظفر صاحب نے ہم سب بہن بھائیوں پر اپنی محبت اور شفقت کا سایہ دراز کیے رکھا۔ آپ کی پیدائش پر ہمارے دادا جان نے جو دعائیہ اعلان اخبار الفضل میں شائع کروایا تھا اُس میں نومولود کے نافع الناس ہونے کی دعا مانگی تھی۔ آپ کی زندگی گواہ ہے کہ یہ دعا یقیناً قبول ہوئی۔
بچپن سے میرا مشاہدہ ہے کہ ہمارے ہاں غرض مندوں کی آمد کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا اور والد محترم اپنے دائرہ کار میں ہر ایک کی مدد کرتے، امین کی سطح پر کھڑے ہوکر اُسے مشورہ بھی دیتے اور دیگر ذرائع سے مدد بھی کرواتے۔ بعض ملاقاتی دیہاتی ہوتے اور ناخواندہ ہوتے، وقت کی مناسبت کا بھی خیال نہ رکھتے، گرمیوں کی دوپہر ہو یا رات کا کوئی پہر، بِلاجھجک چلے آتے۔ لیکن مجھے ایک واقعہ بھی یاد نہیں کہ آپ کی پیشانی پر بَل آیا ہو اور نہ ہی ایسا جملہ منہ سے ادا کرتے کہ آنے والے کی دل شکنی کا احتمال ہو۔ یوں لگتا ہے کہ آپ کے پیش نظر ہمیشہ حضرت مسیح موعودؑ کا وہ الہام رہا جس کا ترجمہ ہے: ’’تُو خلق خدا سے منہ نہ موڑنا اور نہ اُنہیں دیکھ کر تھک جانا۔‘‘
مہمان نوازی آپ کی فطرتِ ثانیہ تھی۔ باحیا اس قدر کہ اگر کوئی خاتون ملنے آتی تو اکیلے اس کی بات نہ سنتے۔ کسی نہ کسی کو پاس بٹھالیتے اور اپنی نظریں نیچے جھکائے رکھتے۔ فراخ دلی ایسی کہ ایک بار نیا کوٹ پہن کر باہر نکلے تو بغیر کوٹ کے واپس آگئے۔ پوچھنے پر بتایا کہ ایک سرکاری اہلکار نے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ کر کہا کہ ہمیں بھی کوئی ایسا کوٹ لے دیں۔ تو وہ کوٹ اُسی وقت اُسے دے دیا۔
خداداد ذہانت سے معاملے کی تہ تک پہنچ جاتے اور جسے حق پر سمجھتے اُس کا ساتھ دیتے۔ لیکن اگر بتقاضائے بشریت آپ کو احساس ہوتا کہ کسی معاملے میں آپ سے تجزیے میں غلطی ہوئی ہے یا درست معلومات فراہم نہیں کی گئیں تو ایسی صورت میں خود کو پیچھے ہٹالیتے۔ حسن تحریر اور خوبیٔ تقریر کا ملکہ بھی تھا۔ اپنا مدّعا نہایت احسن رنگ میں بیان کرتے۔ لیکن اپنی کسی خوبی کو ذاتی فائدے یا جلب زر کا ذریعہ نہیں بنایا۔ جب صدرانجمن احمدیہ نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی منظوری سے آپ کو اپنے دفتر میں خدمت سپرد کی تو مشاہرہ بھی مقرر کیا گیا۔ آپ نے کم از کم دو بار لکھ کر دیا کہ آپ بغیر کسی معاوضے کے کام کرنا چاہتے ہیں۔ پہلی بار تو یہ درخواست یہ کہہ کر نامنظور کردی گئی کہ وہ تو پہلے ہی واجبی نوعیت کا ہے۔ جبکہ دوسری دفعہ آپ کی خواہش منظور کرلی گئی۔
ایک بار رات گئے کسی غریب عورت نے دروازہ کھٹکھٹایا کہ اُس کے بیٹے کو چنیوٹ پولیس نے پکڑ لیا ہے اور رہائی کے اتنے ہزار مانگ رہی ہے۔ وہ بےچاری گھروں میں کام کاج کرکے اپنا پیٹ پالتی تھی۔ آپ اُس کی بات سن کر کہنے لگے کہ میرے پاس صدقہ خیرات کی مد میں کچھ رقم ہے، اگر شکنجے میں آئی کسی غریب کی جان کو راحت ملتی ہے تو یہ رقم حاضر ہے۔ پھر اپنے بیٹے سے کہا کہ گاڑی نکالو۔ اس خاتون کو ساتھ لیا اور چنیوٹ جاکر معاملہ حل کروایا۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں لیکن ستائش کی تمنّا اور صلے کی پروا کے بغیر۔ میری والدہ شکوے کا انداز لیے ہوئے کہا کرتیں کہ لوگوں کے کام ہورہے ہیں مگر گھر کے رُکے ہوئے ہیں۔ یہ بات درست بھی تھی۔
ایک روز ایک مہمان آپ سے کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جتنی صلاحیتیں دی ہیں، اگر آپ احمدی نہ ہوتے تو بہت اوپر تک جاتے۔ آپ نے تبسم کرتے ہوئے انکسار سے جواب دیا کہ اگر مَیں احمدی نہ ہوتا تو عین ممکن ہے کہ اپنے خطّے کی اجتماعی پسماندگی اور جہالت کے زیراثر دامنِ کوہ میں کوئی ریوڑ ہانک رہا ہوتا۔
مجھے جرمنی آئے چوبیس برس ہوئے ہیں۔ آج تک دو بار آپ نے پیسوں کی ضرورت کا اشارۃً ذکر کیا۔ پہلی بار مَیں نے کہا کہ حکم کریں توجواب ملا’’بوقت ضرورت مطلع کروں گا۔‘‘ جب مَیں نے دوبارہ پوچھا تو فرمایا: ’’شکریہ اب ضرورت نہیں رہی۔‘‘ پھر دوسری دفعہ جب آپ نے کچھ پیسوں کا ذکر کیا تو مَیں نے اُسی وقت دوگنی رقم بھجوادی مبادا پھر نہ کہہ دیں کہ اب ضرورت نہیں رہی۔ بعد میں جب آپ کی علالت کا سن کر مَیں پاکستان گیا تو مجھے میری دوسری والدہ نے بتایا کہ انہوں نے آپ کو پیسوں کا تو کہہ دیامگر بعد میں مجھ سے ناراض ہوئے کہ آپ کی وجہ سے مجھے پیسے مانگنے پڑے۔ حالانکہ وہ رقم خالصتاً گھر کی کسی ضرورت کے لیے درکار تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں