مکرم ناصر احمد ظفر صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 6؍جنوری 2023ء)

مکرم ناصر احمد ظفر صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 9؍اکتوبر 2015ء میں مکرم ناصر احمد ظفر صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے مکرم محمد ابراہیم خان صاحب (کارکن دفتر صدرعمومی ربوہ) رقمطراز ہیں کہ خاکسار کی آپ کے ساتھ پہلی ملاقات جس تعلق میں بدلی وہ آخرعمر تک قائم رہا۔ اس تعلق میں احترام کا پہلو سب سے نمایاں تھا۔

محمد ابراہیم خان صاحب

باوجود مجھ سے عمر میں بڑے اور سلسلے کی خدمت میں بہت آگے ہونے کے ہمیشہ بڑے احترام کا سلوک کرتے جس کی وجہ واقفین زندگی کے لیے اُن کے دل میں موجود احترام تھا۔ جب بھی اُن کے دفتر میں ملنے گیا تو باوجود تکلیف کے اُٹھ کر ملتے۔ اگر مَیں کہتا کہ میرے لیے نہ اُٹھیں تو جواب دیتے کہ مَیں مجبور ہوں مجھے تو میرے بزرگوں نے یہی سکھایا ہے۔ کبھی کسی عہدیدار کے بارے میں نامناسب کمنٹس نہیں دیے جس سے اُن کی تضحیک ہوتی ہو۔ حتّٰی کہ مددگار کا نام بھی بڑی عزت اور احترام سے لیتے۔ آپ کی شخصیت ایسی جاذب تھی کہ پاس سے اُٹھنے کو دل نہ کرتا۔ خوبیاں ایسی تھیں کہ کسی قسم کی بناوٹ کا شائبہ تک نہ تھا۔
آپ جہاں بھی مقیم رہے وہاں کے اثرورسوخ والوں سے بہت اچھے تعلقات قائم کیے۔ رؤسا اکثر آپ کو ملنے آتے۔ اپنی خاندانی شادیوں میں بھی آپ کو مدعو کرتے لیکن آپ ہمیشہ نظام جماعت کی اجازت سے اُن تقریبات میں شامل ہوتے۔ چند ایک بار خاکسار کو بھی جماعتی نمائندگی میں آپ کے ساتھ بھیجا گیا اور جو مناظر مَیں نے آپ کی عزت و احترام کے وہاں دیکھے، دل حمد سے بھرگیا۔ کئی غیرازجماعت زمیندار اپنے خاندانی جھگڑوں کے لیے آپ کو ثالث مانتے مگر آپ نے کبھی کوئی کیس جماعت سے اجازت کے بغیر نہ لیا۔ دورانِ سماعت فریقین کا رویہ تلخ ہوجاتا تو اُن کو ٹھنڈا کرنا آپ کا کمال تھا۔ فریقین ہمیشہ آپ کے فیصلے کو قبول کرتے اور کسی کو بھی گلہ نہ رہتا۔
ربوہ میں کوئی سنگین معاملہ ہوجاتا تو صدر صاحب عمومی کی اجازت سے فریقین تک پہنچتے اور انہیں اعتماد میں لیتے۔ فریقین میں سے کوئی تلخ لہجہ میں بات کرتا تو بھی آپ صبر سے اُس کی باتوں کو سنتے۔ کسی فریق کی بات دوسرے فریق کے سامنے نہ کرتے۔ ہمیشہ رازداری کو مدّنظر رکھتے۔
ربوہ میں مخالفین احمدیت کی طرف سے بھی بارہا اشتعال کا اندیشہ پیدا ہوتا تو بڑی ہی دانشمندی سے کنٹرول کرتے اور نظام جماعت کو فوری طور پر تحریری رپورٹ بھجواتے۔
مختلف سرکاری کاموں کی سرانجام دہی کے علاوہ پولیس سے بھی آپ کا ہر سطح پر رابطہ تھا۔ بعض اوقات اُن کے بےجا مطالبات کو ذاتی جیب سے بھی پورا کردیتے۔ آپ کو بڑی اہم خدمات کی توفیق ملتی رہی لیکن ہمیشہ عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ ہی دیکھنےمیں آیا۔ غریب اور امیر سے یکساں سلوک کرتے۔ خواہ کتنا ہی ضروری کام کررہے ہوں لیکن نماز مسجد میں جاکر ہی ادا کرتے۔ گھٹنوں میں تکلیف کی وجہ سے کرسی پر بیٹھتے تھے اور ازراہ تفنّن کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زندگی میں بھی کرسی دی ہے اگلے جہان میں بھی امید ہے کہ عزت کے ساتھ کرسی ملے گی۔
مزاح میں بھی کبھی کسی کی دلآزاری نہ کی۔ الفاظ کی ادائیگی میں ہمیشہ محتاط رہے۔مظلوم کی عزت کا بھی خیال رکھا اور قصوروار کی عزت نفس کو بھی مجروح نہ ہونے دیا۔ بارہا نماز فجر کے بعد دفتر آئے تو رات دس بجے تک کام میں مصروف ہوتے۔ تھکاوٹ کا کبھی اظہار نہ کیا۔ صاف ستھرا بغیر سِلوٹ کے لباس پہنتے۔ مہمان نوازی کا وصف بہت نمایاں تھا۔ دفتری طور پر انتظام نہ ہوسکتا تو فوراً اپنی جیب سے بازار سے کچھ منگوالیتے اور کبھی کوئی مطالبہ نہ کیا۔
ایک دفعہ کسی گاؤں میں بس سٹاپ پر چند نوجوانوں نے ربوہ کی لیڈی ٹیچرز کے قریب سانپ چھوڑ دیا جس سے یہ ٹیچرز خوفزدہ ہوگئیں۔ آپ کو علم ہوا تو اُسی دن اُس گاؤں میں پہنچے، سرکردہ لوگوں سے ملے، اُن کے ذریعے اُن نوجوانوں کا سراغ لگایا اور اُنہیں سمجھایا اور اگلے دن ان ٹیچرز سے معافی منگوائی گئی۔ اس طرح ان احمدی ٹیچرز کو خدا کے فضل سے تحفّظ کا احساس پیدا ہوا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں