مکرم نیاز علی صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9 جون 2010ء میں مکرم لئیق احمد ناصر صاحب نے اپنے ماموں مکرم نیاز علی صاحب کا تفصیلی ذکر خیر کیا ہے جنہیں 1947ء میں حفاظت مرکز قادیان کے دوران شہید کردیا گیا تھا۔
چھ فٹ قد کا ایک باریش سجیلانوجوان، اپنے آقا کی آوازپرلبیک کہتا ہوا گھر سے نکلا اور چند ماہ میں ہی زندگی کے مقصد کو پاگیا۔ یہ مکرم چوہدری نیاز علی صاحب تھے۔ جن کے دادا حضرت چوہدری حسن محمد صاحبؓ اورنانا حضرت چوہدری غلام محمد صاحبؓ دونوں بھائی تھے اور دونوں نے کھاریاںضلع گجرات سے پیدل قادیان جاکر مسیح دوراں کی زیارت کاشرف حاصل کیا تھا۔ کھاریاں کے اوّلین احمدی حضرت حافظ مولوی فضل دین صاحبؓ ان دونوں کے کزن تھے جو پہلے جامع مسجد کھاریاں کے خطیب تھے اور بعد میں مدرسہ احمدیہ قادیان میں استاد رہے۔ اُن کا نام 313 صحابہ کی فہرست مطبوعہ ’’انجام آتھم‘‘ میں حضرت مسیح موعودؑ نے دوسرے نمبرپردرج فرمایاہے۔
مکرم نیاز علی صاحب کے والد حضرت حافظ چوہدری غلام محی الدین صاحبؓ (پیدائش 1895ء، وفات 30؍اکتوبر 1976ء، مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) اور والدہ مکرمہ فضل بیگم صاحبہ (پیدائش 1904ء، وفات 5 فروری 1983ء، مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) دونوں ہی پیدائشی اورمخلص احمدی تھے۔
حضرت حافظ چوہدری غلام محی الدین صاحبؓ بتایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ مقدمہ کرم دین کے سلسلے میں جب جہلم تشریف لائے تو کھاریاں سٹیشن پر آپؑ کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے لوگوں کا جم غفیر جمع تھا۔ چھوٹا ہونے کی وجہ سے والد نے مجھے کندھوں پر اٹھاکر زیارت کروائی۔ اس نظارہ کی کیفیت بیان سے باہر ہے۔ ایسانورانی چہرہ مَیں نے کبھی نہیں دیکھا۔ ایک خواب سا لگتا تھا۔ پھرہم ٹرین کے پیچھے پیچھے پیاسوں کی طرح بے تابانہ جہلم تک پیدل گئے۔
حضرت حافظ چوہدری غلام محی الدین صاحبؓ کو قرآن کریم سے بے پناہ محبت تھی۔ ہروقت حمائل شریف اپنے پاس رکھتے۔ کھیتوںمیں کام کے دوران بھی وقت ملتا تو وضوکرکے تلاوت شروع کردیتے۔ آپؓ نے اپنے ذاتی شوق سے خودہی قرآن کریم حفظ کیا تھا اور پنجابی ترجمہ بھی اسی روانی سے یاد تھا۔ قرآن کریم ناظرہ وترجمہ کئی افراد کو پڑھایا۔ لمباعرصہ رمضان میں قادیان کے مختلف محلہ جات میں نمازتراویح بھی پڑھاتے رہے۔ خلافت سے بے پناہ محبت تھی۔ خلافت کی ہرتحریک پر فوراً لبیک کہتے۔ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل تھے۔ آپؓ نہایت شفیق، ملنسار، ہمدرد، فرشتہ سیرت نیک انسان تھے۔ غیراز جماعت بھی کہا کرتے تھے کہ اگر انسانوں میں فرشتہ دیکھناہے توان کودیکھ لو۔
مکرم چوہدری نیازعلی صاحب چار بھائیوں میں دوسرے نمبرپرتھے۔ آپ سے چھوٹی دو بہنیں بھی تھیں۔
آپ 1924ء میں پیدا ہوئے۔ طبعاً نہایت نیک اور شریف انسان تھے۔ طبیعت میں دین کی طرف بے پناہ رغبت موجود تھی چنانچہ شروع سے ہی داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ پنجوقتہ نمازی تھے۔ کبھی کسی جھگڑے یا آوارگی میں شریک نہ ہوتے۔ خوش مزاج، صحتمند اور بہت بہادر تھے۔ آپ کے بڑے بھائی تعلیم مکمل کرکے نیوی میں ملازم ہوگئے اور آپ مڈل کرکے اپنے والد کے ساتھ کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹانے لگے۔ پھر جنگ عظیم دوم کے دوران حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے فوج میں چلے گئے۔
مکرم نیاز علی صاحب کی آواز بہت اچھی تھی۔ اپنی جماعت میں ہونے والے اجلاسات میں تلاوت کرتے یا نظم پڑھتے تھے۔ فوج میں گئے تو وہاں بھی شوق سے اذان دیا کرتے۔ ایک دن فجرکی اذان دی تو ایک عیسائی افسر اپنے بستر سے اٹھ کرمسجد چلا آیا اورکہا کہ نیاز علی کی آوازمیں ایسی کشش ہے کہ میں بے اختیاریہاں چلا آیا۔ پھر اُس نے آرڈر دے دیا کہ آئندہ سے یہی پانچوں وقت اذان دیا کرے۔
ایک بار مکرم نیازعلی صاحب گاؤں آئے تو خطبہ جمعہ میں حفاظت مرکز کے لئے نوجوانوں کو قادیان جانے کی تحریک سے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کا پیغام سنا۔ اس پر آپ فوج کی ملازمت ترک کرکے قادیان چلے گئے۔ قادیان سے ایک دو بار کسی ذریعہ سے آپ کی خیریت کی اطلاع آئی۔ ایک بار اپنی چھوٹی بہن کے لئے دس چھوٹی چھوٹی کتابیں بھی بھجوائیں۔ اس کے بعد کوئی رابطہ نہ رہا۔
قادیان میں آپ کے ایک ساتھی مکرم میاں غلام محمد صاحب کشمیری بیان کرتے ہیں کہ نیاز علی صاحب نہایت مستعدی سے ڈیوٹی کی ذمہ داری ادا کرتے۔ وہ ہمارے گروپ کے انچارج تھے جس کی ڈیوٹی زیادہ تر حضرت مصلح موعودؓ کی کوٹھی پر ہوتی تھی۔ ہم کئی دفعہ گھبرا جاتے مگرآپ نہایت بہادری کامظاہرہ کرتے اور ہمارابھی حوصلہ بڑھاتے۔ نہایت دلیری سے ہرطرف چکر لگاکر حالات کاجائزہ لیتے۔ ہم نے اکثر سکھوں کویہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ یہ جو لمبا سا لڑکا بڑی بے خوفی سے شیروں کی طرح پھرتا ہے ہم اس کو نہیں چھوڑیں گے۔ ایک دفعہ ایک سکھ پولیس انسپکٹر غالباً دجار سنگھ نام تھا، اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ گھوڑے پر سوار آیا اور حضورؓ کی کوٹھی کی تلاشی کا کہنے لگا۔ ہم پولیس کی وردی اور اُس کی جسامت کی وجہ سے دَب گئے تھے لیکن نیاز علی صاحب جو کچھ دُورتھے فوراً آئے، اُس کے گھوڑے کو لگام سے پکڑ کر واپس موڑ دیا اور کہا کہ جب تک میں زندہ ہوں تمہیں اندر نہ جانے دوں گا۔ دھمکیاں تو اس نے بہت دیں مگر اندر جانے کی ہمت نہ کی اور غصّہ میں اول فول بکتا واپس چلاگیا۔
مکرم چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی لکھتے ہیں: ’’… ہمارا بھائی نیاز علی بھی تھا۔ کاش! زمانہ اپنے اوقات سے3؍اکتوبر 1947ء کادن خارج کر دیتاکہ قادیان کی بستی پرکرب وبلا کا یہی دن تھا۔ قادیان کے بیرون پرحملہ ہو چکا تھا اور عورتوں کو ان محلوں سے نکال کرمحفوظ مقامات پر پہنچانے کاکام ہورہا تھا۔ ہمارے چند نوجوان ظلم کی اس بھڑکتی ہوئی آگ میں کود کر اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت بچانے کے لئے کوشش کررہے تھے۔ مرحوم نیاز علی محلہ دارالرحمت میںاسی کام پر مامور تھا۔ وہ مسجد دارالرحمت والے چوک میں تھا، بس اس کے ساتھی اتنا ہی بتاسکے تھے۔ اس کے بعد کیا ہواوہ کہاں گیا۔ کہیں سے گولی چلنے کی آوازآئی تھی۔ بس یہیں یہ روایت ختم ہو جاتی ہے۔ مرحوم کی نعش باوجود تلاش کے نہیں مل سکی تھی۔ … بائیس سال کی عمرمیں شہید ہوا‘‘۔
مرحوم کے گھروالوں کو پندرہ روز بعد کسی مسافر کے ذریعہ معلوم ہواکہ نیازعلی شہید ہوگیا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ پھر ایک رشتہ دار صوبیدار صداقت احمد صاحب (آف کھاریاں) قادیان سے واپس آئے تو شہید مرحوم کی کچھ چیزیں لے کر آئے۔
آپ کی شہادت پر آپ کے والدین نے صبر کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ غیراحمدی عورتیں آپ کی والدہ کے صبر کو دیکھ کر حیرانی کا اظہار کرتیں۔ اور یہ سن کر حیرت میں ڈوب جاتیں کہ ایک بیٹے کی شہادت پر آپ نے ایک چھوٹے بیٹے مکرم فضل علی صاحب کو قادیان کے لئے روانہ کردیا۔ وہ دو دن میں لالہ موسیٰ اور گجرات سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے مگر حالات کی ناسازی کی وجہ سے جماعت نے بارڈر کراس نہ کروایا اور دو ہفتے کے بعد واپس گھر آنا پڑا۔
مکرم نیاز علی صاحب کے ایک چھوٹے بھائی بھی فوج میں گئے جو ڈیوٹی کے دوران بیمار ہوکر وفات پاگئے اور اس طرح شہادت کا درجہ حاصل کیا۔
مکرم سکندر خانصاحب درویش (آف کھاریاں) بھی نیاز علی صاحب کے رشتہ دار تھے۔ وہ زندگی بھر قادیان میں ہی خدمت بجالاتے رہے اور وفات کے بعد بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے۔ اُن کا بیان ہے کہ دارالرحمت والے واقعہ کے بعد جب سب درویش اکٹھے ہوئے تو پتہ چلاکہ ہم میں سے ایک کم ہے۔ تب مجھے ہوش آیا کہ نیاز علی تو نہیں ہے۔ کسی نے کہا کہ وہ تو آخری دم تک وہیں ڈٹا رہا تھا۔ کسی نے کہا کہ اس نے کہا تھا تم نکلو میں تمہارے پیچھے ہوں۔ کسی نے کہا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ جب تک تم سب لوگ باحفاظت نکل نہ جاؤ میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا۔ کسی نے کہا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ تم نکلو میں اِنہیں روکتا ہوں۔ کسی نے کہا کہ ہم نے گولی چلنے کی آواز سنی تھی۔ کسی نے کہا کہ گولی نیاز علی کو لگی تھی۔ مختصر یہ کہ ہمارا بھائی ہم میں نہیں تھا۔ ہم سب ہی غمگین تھے۔ وہ تھا ہی ایسا کہ کوئی غمگین ہوئے بِنارہ ہی نہیں سکتا تھا۔
کھاریاں کے درویش منش بزرگ صوفی نُور داد صاحب نے بتایا کہ دارالرحمت کے واقعہ کے بعد چوک میں مَیں نے نیاز علی کی نعش دیکھی تھی مگر ہم چھپے ہوئے تھے۔ فوج، پولیس اور سکھ وہاں موجود تھے۔ مجبورتھے، اس لئے چاہتے ہوئے بھی نعش نہ اٹھا سکے۔
مکرم خواجہ غلام نبی صاحب کی یہ عینی شہادت ’’تاریخ احمدیت‘‘ میں شامل ہے کہ انچارج صاحب کو اطلاع پہنچی کہ ایک مکان میں ابھی تک بہت سی عورتیں اور بچے محصور ہیں اُن کوبحفاظت نکالنے کاانتظام کیا جائے۔ اس پر وہاں موجود سارے نوجوان جن کی تعداد پندرہ بیس سے زیادہ نہ تھی، ملٹری اورپولیس کی گولیوں اور سکھوں کی چار چار فٹ لمبی کرپانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے محض لاٹھیاں لے کر دوڑ پڑے اور تھوڑی ہی دیر میں دوسو کے قریب عورتوں اور بچوں کو بحفاظت نکال لائے۔ ان عورتوں اور بچوں سے بھی کسی قسم کی گھبراہٹ اور بے صبری کا اظہار نہ ہوتا تھا۔ جب ہمارے مجاہد ان کو اپنی حفاظت میں بورڈنگ کی طرف لارہے تھے توموضع بٹراں سے قادیان آنے والے راستے کے قریب بہت سے مسلح سکھوں نے حملہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ دیکھ کرہمارے نوجوان جن کے پاس صرف لاٹھیاں تھیں، ان کے مقابلہ میں ڈٹ گئے۔ خداتعالیٰ نے ان کی خاص مدداورنصرت فرمائی۔ جب تک ملٹری اور پولیس وہاں پہنچی کئی ایک سکھوں کو انہوں نے مار گرایا اور باقی دُم دباکربھاگ گئے اور پیچھے مڑکربھی نہ دیکھا۔ ہمارے نوجوانوں میں کسی کو خراش تک نہیں آئی بحالیکہ ان کے پاس صرف لاٹھیاں تھیں اور سکھوں کے پاس کرپانیں اوروہ سمجھتے تھے کہ پولیس اور ملٹری ان کی پشت پناہ ہے۔ خواتین اور بچوں کو نرغے سے نکالنے کے لئے جو مجاہدین اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر مردانہ وار آگے بڑھے تھے اگرچہ وہ اپنے مقصد میں خداتعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہوئے لیکن ان میں ایک مجاہد جو نہایت سجیلا جوان تھا اور رضاکارانہ قادیان کی حفاظت کا فرض ادا کرنے کے لئے کھاریاں ضلع گجرات سے آیا ہوا تھا۔ نیاز علی نام تھا، نہ معلوم اپنے ساتھیوں سے کس طرح علیحدہ ہوگیا۔ بعد میں معلوم ہواکہ ملٹری نے نہایت سفاکی سے اس کو گولی کا نشانہ بنا دیا اور پھرستم بالائے ستم یہ کہ اس کی لاش بھی نہ اٹھانے دی۔ خداتعالیٰ کی بیشمار برکات اور انعامات نازل ہوں ہمارے اُن شہیدوں پر جنہوں نے اس ظلم وستم کے دَور میں مختلف اوقات اور مختلف مقامات میں مومنانہ شجاعت اور بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے جام شہادت پیا۔ ہماری آئندہ نسلیں ان کی ذات پر فخر کریں گی اور ان کے کارنامے یاد کر کے اپنی محبت اور اخلاص کے پھول ان پر نچھاور کریں گی‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے شہداء سے متعلق خطبات کے اپنے سلسلہ میں خطبہ جمعہ فرمودہ 14 مئی 1999ء میں مکرم نیاز علی صاحب کا ذکر بھی فرمایا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں