مکرم پروفیسر چودھری صادق علی صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 4فروری 2022ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍اگست 2013ء میں مکرمہ الف۔حفیظ صاحبہ نے اپنے شوہر مکرم پروفیسر چودھری صادق علی صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم چودھری صادق علی صاحب ایک گاؤں پرجیاں ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ آپ پیدائشی احمدی تھے اور اپنے بھائی اور دو بہنوں سے چھوٹے تھے۔ آپ کے والد چودھری رحمت علی صاحب بہت نیک اور دعا گو بزرگ تھے۔ نماز اول وقت میں ادا کرتے اور اگلی نماز کے انتظار میں مسجد میں ہی تشریف رکھتے۔ انہوں نے اپنے ایک احمدی دوست کے توسط سے 1933ء میں قادیان جا کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ کی والدہ بھی بہت نیک خاتون تھیں گو آپ نے اپنے خاوند سے بہت بعد میں بیعت کی لیکن جماعت سے بہت اخلاص اور وفا کا تعلق رکھتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دونوں ہی بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد آپ کا خاندان گوکھووال ضلع فیصل آباد میں رہائش پذیر ہوا۔ چنانچہ پروفیسر صاحب نے ابتدائی تعلیم بھی فیصل آباد میں حاصل کی۔ چھ سات کوس کا فاصلہ روزانہ پیدل چل کر دوسرے گاؤں سکول جایا کرتے تھے۔ شدید سردی اور گرمی سے بچاؤ کے لیے مناسب لباس اور حتیٰ کہ جوتے بھی مہیا نہ تھے لیکن ایک شوق اور لگن تھی کہ تعلیم حاصل کرنی ہے۔ میٹرک کرنے کے بعد ٹی آئی کالج ربوہ میں داخل ہوئے اور B.Sc کی۔
وسائل محدود ہونے کی وجہ سے دو اڑھائی سال مختلف ملازمتیں کرکے اتنی رقم حاصل کرلی کہ مزید تعلیم حاصل کرسکیں۔ پھر پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور M.Sc کی ڈگری حاصل کی۔ ٹی آئی کالج ربوہ کے شعبہ باٹنی میں پروفیسر کی اسامی خالی تھی۔ درخواست دینے پر آپ منتخب ہوگئے اور 2002ء میں اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی ادارے سے منسلک رہے۔
تعلیم الاسلام کالج ربوہ کو جب قومی تحویل میں لیا گیا تو طالبعلموں کے ساتھ ساتھ احمدی اساتذہ کو بھی بہت مشکل اور نامساعد حالات سے گزرنا پڑا۔ احمدی اساتذہ کو ٹرانسفر کر دیا گیا۔ غیراحمدی پرنسپل اور اساتذہ احمدی اساتذہ کو ذہنی طور پر پریشان کرتے اور ان کی عزت نفس کو مجروح کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ چنانچہ چودھری صاحب کا ٹرانسفر بھی تحصیل ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک ایسے گاؤں میں کر دیا گیا جہاں کے تعلیمی ادارے میں کوئی سائنسی مضمون پڑھایا ہی نہیں جاتا تھا۔ وہاں کے پرنسپل صاحب نے ربوہ کے چند مُلّاؤں کی شہ پر آپ کی شدید مخالفت کی۔ آپ نے پرنسپل سے دشمنی کے اس یک طرفہ سلسلہ کو بند کرنے کو کہا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ معاملہ ختم نبوت والوں کو دے دیا ہے۔ اس پر آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکی خدمت میں حالات لکھے تو حضورؒ نے جواباً فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔ اگر انہوں نے یہ معاملہ ختم نبوت والوں کو دے دیا ہے۔ تو ہم اپنا معاملہ خداتعالیٰ کے سپرد کر دیتے ہیں۔ …
خلیفۃ المسیح کے مبارک منہ سے نکلی ہوئی بات یوں پوری ہوئی کہ چند دن بعد ہی نہ صرف چودھری صاحب باعزت طور پر بحال ہوگئے بلکہ پرنسپل کی ٹرانسفر کہیں اَور ہوگئی۔
امتحانی پرچوں کی جانچ پڑتال کے دن تو آپ کے لیے بہت آزمائش اور پریشانی کے ہوتے۔ بڑے بڑے زمیندار اور آفیسرز سفارشات لے کر آتے۔ ساتھ میں اچھی خاصی رقوم کی بطور رشوت پیشکش بھی ہوتی کہ ان کے بچوں کے اتنے نمبرز لگا دیں کہ میڈیکل میں داخلہ ہو جائے۔ آپ نہ تو ناجائز سفارش مانتے اور نہ ہی رشوت لیتے۔ تو یہ لوگ ٹرانسفر کرانے، نوکری ختم کروانے حتیٰ کہ جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیتے۔ لیکن آپ نہ تو کبھی کسی کے دباؤ میں آئے اور نہ ہی ان دھمکیوں کی پرواہ کی۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے بہت استغفار کرتے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے۔ کوشش کرکے رات دن ایک کرکے پیپر چیک کرتے اور جلد سے جلد متعلقہ ادارے کو واپس بھیج دیتے۔
آپ نماز باقاعدگی سے ادا کرتے فجر کی نماز کے بعد تلاوت قرآن کریم معمول تھا۔ بچوں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ بہت سادگی اور انکساری سے زندگی بسر کی۔ ایمانداری اور سچائی آپ کے نمایاں اوصاف تھے۔ آپ کو سچے خواب آتے۔ خوابوں کی تعبیر بھی بہت اچھی کرتے تھے۔ آپ کی بتائی ہوئی تعبیر اکثر صحیح ثابت ہوتی۔ پیدائش کے وقت آپ کا نام نذیر احمد رکھا گیا تھا۔ بعد میں نام تبدیل کرنے کا خیال آیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ملاقات کے دوران آپ کے والد نے حضورؓ کو بتایا کہ میرے اس بیٹے کو سچے خواب آتے ہیں۔ اس پر حضورؓ نے صادق علی نام تجویز فرمایا۔
ناصر آباد ربوہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا گھر بنانے کی توفیق دی۔یہاں پر سیکرٹری مال اور سیکرٹری وقف جدید کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؓ کے دَور میں گلشن احمد نرسری کے انچارج مقرر ہوئے۔ تزئین کمیٹی ربوہ کے بھی کچھ عرصہ ممبر رہے۔ خدام الاحمدیہ مرکزیہ اور وقف جدید میں بھی خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ 1989ء سے 2007ء تک ایک لمبا عرصہ دارالقضاء ربوہ میں بطور مرکزی قاضی کے خدمات انجام دیں۔ آپ صائب الرائے تھے۔ بہت دعا کے بعد انشراح صدر سے فیصلہ تحریر کرتے۔ ایک دفعہ آپ کا تحریر کردہ فیصلہ ایک احمدی جج کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے پوچھا کہ قاضی صاحب نے Law کہاں سے پڑھا ہے؟ بتایا گیا کہ وہ ایک ریٹائرڈ سائنس ٹیچر ہیں تو بہت حیران ہوئے اور کہا کہ یہ ایک بہترین فیصلہ ہے جس میں کسی قسم کا کوئی جھول نہیں ہے۔
2007ء میں آپ اپنے بچوں کے پاس آسٹریلیا شفٹ ہوئے تو حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی منظوری سے آسٹریلیا میں قضاء بورڈ کا قیام عمل میں آیا اور آپ کو پہلا صدر قضاء بورڈ مقرر کیا گیا ۔ باوجود شدید بیماری کے وفات تک یہ سلسلہ ٔ خدمت بفضل خدا جاری رہا۔
آپ ایک لمبا عرصہ بطور ناظم گوشت جلسہ سالانہ ربوہ بھی رہے۔ یہ ڈیوٹی بہت محنت اور جانفشانی سے احسن طور پر ادا کی۔ جلسے سے دو ماہ قبل ربوہ کے مضافات کے زمینداروں سے اچھے جانوروں اور چارے کی خریداری، جانوروں کی رہائش، پرورش، خوراک اور صفائی کا انتظام، گوشت کی کٹائی کے لیے قصابوں کا انتظام اور مختلف لنگرخانوں میں ضرورت کے مطابق گوشت پہنچانا، آپ کے فرائض میں شامل تھا۔ جلسے سے دو ماہ قبل ڈیوٹی شروع ہوجاتی۔ اپنی ٹیم کے ساتھ شدید سردیوں میں نماز فجر کی ادائیگی کے بعد نکل جاتے اور بہت رات گئے واپسی ہوتی۔ روانگی سے پہلے بہت لمبی دعا کرواتے۔ جانوروں کو ربوہ لاتے ہوئے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ ایک دفعہ کسی دُور کی منڈی سے واپس آرہے تھے کہ ٹرک کا کوئی کمزور حصہ ٹوٹ گیا اور ایک جانور کی پوری ٹانگ اس میں پھنس گئی۔ ٹانگ باہر نکالنے کی بہت کوشش کی گئی۔ ٹیم تو پریشان تھی ہی بےچارہ بے زبان جانور بھی بہت تکلیف میں تھا۔ سب کی رائے تھی کہ جانور کو ذبح کرلیا جائے۔ اس پر آپ نے علیحدہ جا کر بہت گریہ و زاری سے دو نفل اداکیے۔ پھر واپس آئے ہی تھے کہ جانور نے پورا زور لگا کر اپنی ٹانگ باہر کھینچ لی۔ سب نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ آپ کبھی گوارا نہیں کرتے تھے کہ جماعت کا ادنیٰ سا بھی نقصان ہو۔ آپ کی وفات پر سب نے ہی آپ کی ایمانداری اور انتھک محنت کا ذکر کیا۔
بچوں کو اخلاقی نصائح کرتے اور خلافت سے وابستہ رہنے کی دعا کرنے کے لیے بھی کہتے۔ مالی قربانی کی بھی اکثر تاکید کرتے۔ آسٹریلیا آکر اپنے بچوں کو وصیت کرنے کی طرف یوں توجہ دلائی کہ کوئی دباؤ نہیں ڈالا، بس بتایا کہ مَیں نے اور تمہاری امی نے شادی کے فوراً بعد وصیت کرلی تھی۔ جائیداد، مال اور زیور کا حصہ ادا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ پہلے سے کہیں بڑھ کر ہمارے پاس سب کچھ موجود ہے۔ سب بچوں نے فوری طور پر اپنے باپ کی اس نصیحت پر عمل کیا۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کے منہ سے نکلی ہوئی باتوں کی لاج رکھتا ہے۔ ابھی بچوں نے وصیت کے فارم بھر کر بھجوائے ہی تھے کہ بظاہر انہونی سی بات تھی لیکن گورنمنٹ آف آسٹریلیا کی کسی پالیسی کے نتیجے میں بچوں کو بیس ہزار ڈالر کی وہ رقم واپس مل گئی جو انہوں نے مجھے یہاں بلوانے کے سلسلے میں ادا کی تھی۔
ہمیشہ نصیحت کرتے کہ کوئی دینی خدمت سپرد ہو تو کبھی انکار نہیں کرنا۔ اللہ تعالیٰ خود ہی اس کی توفیق دے دیتا ہے۔ محلہ ناصر آباد میں مجھے لمبا عرصہ بطور صدرلجنہ اماء اللہ اور بعد میں اصلاحی کمیٹی کے ممبر کے طورپر خدمت بجالانے کی توفیق ملی۔ شروع میں مجھے بہت گھبراہٹ تھی۔ دو چھوٹے بچے کم عمر تھے، کام کا بھی تجربہ نہیں تھا۔ بعض اوقات لجنہ کا کام اتنا بڑھ جاتا کہ گھریلو کاموں میں مجھ سے کوتاہی ہو جاتی۔ ان کے ذاتی کام بھی نظر انداز ہو جاتے کھانے میں دیر سویر ہو جاتی۔ آپ نے میری ہمت بندھائی اور میرے ساتھ بہت تعاون کیا۔ آپ کو شور شرابہ بالکل پسند نہیں تھا ،کھانے میں تاخیر بھی پسند نہ تھی۔اب یہ حال تھا کہ سال کے اکثر اوقات میں ہمارے گھر پر عملاً لجنہ اور ناصرات کا قبضہ ہوتا تھا۔ لیکن آپ نے اپنے آپ کو مکمل بدل ڈالا۔ میرے والد صاحب کی وفات ہوئی تو آپ نے میری والدہ اور بہن بھائیوں کا بہت خیال رکھا۔ رشتوں اور شادیوں کے سلسلہ میں بہت مدد کی۔
ہماری شادی شدہ زندگی کا عرصہ تقریباً تینتالیس سال پر محیط ہے۔ ہمارے درمیان کبھی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا۔ اختلاف رائے ہو جاتا تھا بعض اوقات معمولی رنجش بھی ہو جاتی لیکن جلد صلح ہو جاتی۔ بعض رشتہ داروں کے رویہ سے مَیں رنجیدہ ہوتی تو بہت دلجوئی کرتے اور صبر کی تلقین کرتے۔ مَیں ان سے ایک سال پہلے آسٹریلیا بچوں کے پاس آگئی تھی۔ بعد مَیں جب یہ آئے تو ایک دن بیٹے سے کہا کہ میں تمہاری امی اور بیوی کے آپس کے سلوک سے بہت خوش ہوا ہوں ورنہ پاکستان میں متفکر ہو جاتا تھا کہ کہیں روایتی ساس بہو والا معاملہ نہ ہو۔
اپنے عزیزوں اور دیگر مستحق افراد کی مختلف مواقع پر مالی مدد کرتے۔ عید کے موقعہ پر تحفہ تحائف اور عیدی دیتے۔ آسٹریلیا آنے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ اپنی پنشن کی رقم ایک عزیز کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا دیتے۔ عید کے موقع پر یا جب کسی کی مالی مدد مقصود ہوتی تو رازداری سے ادا کرنے کی تاکید کرتے۔ اپنے والد مرحوم کے دوستوں کا بہت احترام کرتے اور انہیں گھر لاکر خاطر تواضع کرتے۔
آپ 2010ء سے پھیپھڑوں کے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ بیماری بہت تکلیف دہ تھی لیکن آپ نے بڑے حوصلہ اور صبر سے بیماری کا مقابلہ کیا اور ناشکری کا کوئی کلمہ منہ سے نہیں نکالا اور ہمیشہ خاتمہ بالخیر کی دعا کرتے۔ 10 مارچ 2013ء کی رات وفات پاگئے اور مسجد بیت الہدیٰ آسٹریلیا میں واقع قطعہ موصیان میں تدفین عمل میں آئی۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ آپ نے پسماندگان میں میرے علاوہ تین بیٹیاں اور تین بیٹے چھوڑے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں