مکرم چودھری عبدالستار صاحب کی قبول احمدیت کی داستان

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ جون 2003ء میں مکرم چودھری عبدالستار صاحب نے قبول احمدیت کی اپنی داستان بیان کی ہے۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد چودھری عبدالعزیز صاحب میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے وفات پاچکے تھے۔ مَیں پانچویں کا طالبعلم تھا کہ جمعہ کی ایک نماز کے بعد ہمارے خطیب اور باہر سے آنے والے ایک شخص کے درمیان بحث ہونے لگی۔ آنے والا بار بار قرآن سے حوالے دے رہا تھا اور خطیب اُسے دھمکیاں دیئے جارہا تھا۔ جب وہ اجنبی چلا گیا تو خطیب نے دوسروں کو بتایا کہ یہ مرزائی تھا اور مَیں نے اسے بھگادیا ہے۔ اگرچہ میری عمر چھوٹی تھی لیکن مَیں جان گیا کہ خطیب جھوٹا ہے لیکن مجھے علم نہیں تھا کہ مرزائی کسے کہتے ہیں۔
میٹرک کرنے اور سینٹری انسپکٹر کا کورس کرنے کے بعد 1957ء میں مَیں نے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (D.H.O) ساہیوال کو ملازمت کے لئے درخواست دی۔ D.H.O ڈاکٹر میجر عبدالحق صاحب نے میرے کاغذات تقرری کے لئے ڈسٹرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے پاس بھیجے اور ایک کلرک کو میرے ساتھ کیا۔ اُس کلرک نے بتایا کہ D.H.O مرزائی ہے اور اس نے پہلے بھی ایک مرزائی لڑکے کو رکھ لیا تھا لیکن چیئرمین کو پتہ چلا تو اُس نے منظوری نہیں دی۔ بہرحال میری تقرری دفتر میں ہوگئی۔ میرے دوسرے ہم منصب ہر ماہ دفتر آتے رہتے۔ ان میں ایک چودھری غلام قادر صاحب ’’حویلی لکّھا‘‘ سے آتے تھے۔ مجھ پر اُن کے حسن اخلاق کا بہت اثر تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ حویلی لکّھا میں ایک سینٹری انسپکٹر کی ضرورت ہے ۔ مَیں نے وہاں درخواست دی اور ملازمت مل گئی۔ میری شادی ہوچکی تھی۔ حویلی لکّھا آنے پر مَیں نے بلدیہ کے ایک سکول کے چوبارہ میں رہائش رکھی ۔ اتفاق سے چودھری صاحب بھی اسی گلی میں رہتے تھے۔ یہاں آکر پتہ چلا کہ وہ احمدی تھے اور جماعت کے سیکرٹری مال بھی تھے اور جمعہ بھی اُن کے مکان پر ہوتا تھا لیکن انہوں نے مجھ سے کبھی احمدیت کی بات نہیں کی تھی۔ ایک روز اُن کے گھر ایک کتاب پر نظر پڑی جس کا نام تھا ’’مذہب کے نام پر خون‘‘۔ یہ کتاب مَیں نے اُن کی اجازت سے لے لی اور جب پڑھی تو چند دن بعد جاکر اُن سے اصرار کیا کہ میرا بیعت فارم پُر کرلیں۔ دسمبر 1964ء میں میری بیعت منظور ہوگئی۔
قبول احمدیت کے بعد علاقہ میں میرے دوست پیچھے ہٹنے لگے۔ 1966ء میں مَیں جماعت کا سیکرٹری مال بن گیا۔ میرے گھر والے بھی 1969ء میں احمدی ہوگئے۔ 1974ء میں فسادات کے دوسرے ہی روز مَیں اپنے دفتر میں تھا جب ایک مجمع توڑ پھوڑ کرتا، نعرے لگاتا مجھ پر حملہ آور ہوا۔ میرے کپڑے پھاڑ دیئے اور سر اور جسم پر کئی زخم لگاکر ادھ مؤا کرکے وہ چلے گئے۔ پھر مَیں انتظامیہ کے مجبور کرنے پر مختلف مقامات پر رہتا رہا۔ میرے اہل و عیال ایک عزیز کے پاس چیچہ وطنی چلے گئے۔ آخر میرے دوست چودھری غلام قادر صاحب مجھے اوکاڑہ کے امیر ضلع کے پاس لے آئے جہاں میرا قیام مسجد میں تھا اور مربی صاحب میرے پڑوسی تھے۔ سب بہت شفقت کا سلوک کرتے رہے۔ 7؍ستمبر 1974ء کے فیصلہ کے بعد خاکسار نے واپس حویلی لکّھا جاکر ڈیوٹی شروع کردی۔
اوکاڑہ میں مسجد میں رہنے کی وجہ سے مَیں پانچوں نمازوں کا عادی ہوگیا تھا۔ حویلی لکھا میں ایک روز عشاء کی نماز پڑھنے سے قبل کچھ دیر آرام کی غرض سے جب لیٹا تو کچھ دیر بعد سونے جاگنے کی سی کیفیت میں یوں آواز آئی: ’’یہ مومنوں کی جماعت ہے‘‘۔ یہ آواز اتنی شیریں تھی کہ مَیں آج تک اس کا مزہ لے رہا ہوں۔ یہ واقعہ نماز کی ادائیگی کے بارہ میں میری زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوا۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ سرکاری مذہبی تقریبات کے انعقاد میں بلدیہ میں میرا اہم کردار ہوتا تھا۔ ایک عید میلادالنبیﷺ کے موقعہ پر مَیں نے بینر لگوایا: ’’پاک محمدؐ مصطفی سب نبیوں کا سردار‘‘ ۔ جس نے دیکھا اُس نے تعریف کی۔ چیئرمین صاحب آئے تو وہ بھی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔ ایک صاحب جو دو تین بار ربوہ گئے تھے وہ آئے تو چیئرمین صاحب کو کہنے لگے کہ چودھری صاحب آپ کو مروادیں گے کیونکہ یہ تو ان کے مرزا صاحب کی تحریر ہے۔ اس پر چیئرمین صاحب نے مجھے دفتر میں بلاکر کہا کہ ایسے بینر نہ لگوایا کریں۔ مَیں نے کہا اگر آپ کو پسند نہیں آیا تو ابھی اُتروا دیتا ہوں۔ لیکن بینر اتنا پسند آیا تھا کہ کہنے لگے: ابھی لگا رہنے دیں، آئندہ نہ لگائیں۔ یہ بات کہنا اُن کی سیاسی مجبوری تھی۔
جب بھی کوئی نیا افسر آتا ہے تو مخالف اُس کو میرے بارہ میں بھڑکاتے ہیں لیکن مَیں خود جاکر اُس کو بتاتا ہوں کہ مَیں احمدی ہوں۔ میرے دلیرانہ اظہار سے وہ متأثر ہوجاتا ہے۔ دسمبر 1999ء میں حویلی لکھا کی احمدیہ مسجد کی تعمیر کے وقت ہنگامے ہوئے تو جن چھ افراد پر مقدمہ قائم ہوا، اُن میں مَیں بھی شامل ہوں۔ اسیر راہ مولیٰ رہنے کا شرف بھی ملا۔ جیل میں ایک مولوی نما ملازم میری جامہ تلاشی لے رہا تھا۔ پوچھا کیسے جیل میں آئے۔ مَیں نے بتایا تو کہا کہ تم مرزائی ہو۔ مَیں نے کہا: مَیں احمدی ہوں۔ بولا: احمدی تو ہم ہیں، تم مرزائی ہو۔ کچھ دیر تکرار ہوئی تو مَیں نے کہا کہ اگر تم احمدی ہو تو جیل کے دوسرے ملازموں کے سامنے کہہ دو کہ تم احمدی ہو۔ اس پر فوراً کہا: اُدھر جاکر لائن میں بیٹھ جاؤ۔ 20؍ستمبر 2002ء کو جیل سے رہائی ہوئی۔
1974ء کے بعد میری اہلیہ احمدیت سے دُور ہونے لگیں۔ بچوں کی شادیاں اپنی مرضی سے غیراحمدیوں میں کیں۔ اس وجہ سے مجھے ابتلاء درپیش ہے۔ مَیں خود موصی ہوں اور اپنے انجام بالخیر کے لئے دعاؤں کا خواستگار۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں