مکرم چودھری منظور احمد صاحب شہید اورمکرم چودھری محمود احمد صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ دسمبر 2011ء میں مکرم طٰہٰ محمود صاحب کے قلم سے درج ذیل شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم چودھری منظور احمد صاحب کی بیوہ محترمہ صفیہ صدیقہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ 1974ء میں جب حالات خراب ہوئے تو پولیس ان کے بیٹے مقصود احمد کو ایک مولوی کے کہنے پر دکان سے گرفتار کرکے لے گئی۔ اگلے دن جلوس نے گھروں پر حملہ کردیا۔ عورتوں کو ایک احمدی گھر پر جو بظاہر محفوظ تھا پہنچا دیا گیا۔ پھر پتہ لگا کہ گھروں کو جلوس نے آگ لگادی ہے اور وہاں پر موجود تمام افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ حالانکہ اس وقت تک وہ شہید کیے جا چکے تھے۔ لیکن شام کو جب ایک ٹرک چھ شہیدوں کو لے کر راہوالی پہنچا تو اس وقت پسماندگان کو پتہ چلا کہ اُن کے پیارے شہید ہو چکے ہیں۔ جلوس کے خطرے سے جو پیچھے لگا ہوا تھا ٹرک ان لاشوں کو لے کر چلا گیا اور پسماندگان ان کے چہرے بھی نہ دیکھ سکے۔
جلوس کے ساتھ جو پولیس تھی اس کے ایک سپاہی نے بتایا کہ یکم جون کو سول لائن میں ایک گھر کی چھت پر جو معرکہ گزرا وہ دیکھ کر مجھے معلوم ہوا کہ صحابہ کیسے جان نثار کیا کرتے تھے۔ اُس نے کہا کہ میں اس لڑکے کو کبھی بھلا نہیں سکوں گا جس کی عمر بمشکل سترہ اٹھارہ برس ہوگی۔ سفید رنگ اور لمبا قد تھا۔ اس کے ہاتھوں میں ایک بندوق تھی۔ جلوس میں شامل لوگوں کی ایک بڑی تعداد پولیس سمیت اس کے مکان کی چھت پر چڑھ گئی۔ ہمارے ایک ساتھی نے جاتے ہی اس کے ہاتھ پر ڈنڈا مارا اور بندوق چھین لی۔ جلوس اس لڑکے پر تشدد کر رہا تھا۔ جلوس میں سے کسی نے کہا ’’مسلمان ہو جاؤ اور کلمہ پڑھو‘‘۔ اس نے کلمہ پڑھا اور کہا میں سچا احمدی مسلمان ہوں۔ جلوس میں سے کسی نے کہا کہ مرزا کو گالیاں دو۔ اس لڑکے نے اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا یہ کام میں نہیں کر سکتا، یہ کام میں کبھی نہیں کروں گا اور ان کی ایک نہ سنی۔ اس نے کہا تم مجھے اُس کو گالیاں دینے کے بارہ میں کہہ رہے ہو جو اِس جان سے بھی زیادہ پیارا ہے اور ساتھ ہی اس نے مسیح موعود زندہ باد اور احمدیت زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ نعرہ لگانے کی دیر تھی کہ جلوس نے اس لڑکے کو چھت سے نیچے پھینک دیا اور اس پر اینٹوں اور پتھروں کی بارش شروع کردی۔ چھت پر بنے ہوئے پردوں کی جالیاں توڑ کر اس پر پھینکیں۔ یہ وہ واقعہ ہے جواس دن اس پولیس والے نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں