مکرم محمد افضل کھوکھر صاحب شہید اور مکرم محمد اشرف کھوکھر صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ دسمبر 2011ء میں مکرم طٰہٰ محمود صاحب کے قلم سے درج ذیل شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم محمد افضل کھوکھر شہید کی اہلیہ سعیدہ افضل صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ شہادت سے چند روز پہلے افضل شہید عشاء کی نماز پڑھ کر گھر واپس آئے تو میں بستر میں بیٹھی رو رہی تھی۔ پوچھا کہ کیوں رو رہی ہو۔ میں نے کہا یہ کتاب‘‘روشن ستارے’’پڑھ رہی تھی اور میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں بھی آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہوتی اور میرا نام کسی نہ کسی رنگ میں ایسے روشن ستاروں میں شمار ہو جاتا۔ اس پر افضل کہنے لگے یہ آخَرِین کا زمانہ ہے، اللہ کے حضور قربانیاں پیش کرو تو تم بھی اوّلین سے مل سکتی ہواور پہلوں میں شمار ہو سکتی ہو۔ مجھے کیا خبر تھی کہ کتنی جلدی اللہ تعالیٰ میری آرزو کو پورا کرے گا اور کتنی دردناک قربانیوں میں سے مجھے گزرنا پڑے گا۔
31؍مئی 1974ء کی رات احمدیوں کے خلاف فسادات کا جوش تھا۔ ساری رات جاگ کر دعائیں کرتے گزر گئی۔ ہم جیسے بھی بَن پڑا اپنا دفاع کرتے رہے۔ مجھے وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ میرے شوہر اور بیٹے کے ساتھ یہ میری آخری رات ہے۔ یکم جون کو جلوس نے حملہ کردیا تو عورتوں کو افضل شہید نے ہمسایوں کے گھر بھیج دیا اور خود باپ بیٹا گھر پر ٹھہر گئے۔ کیونکہ اس وقت ہدایت یہی تھی کہ کوئی مرد اپنا گھر نہیں چھوڑے گا لیکن عورتوں اور بچوں کو بچانے کی خاطر ان کو بے شک محفوظ جگہوں میں پہنچا دیا جائے۔ سارا دن شور بپا رہا اور حملہ ہوتا رہا۔ توڑ پھوڑ کی آوازیں آتی رہیں۔ مگر ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ باپ بیٹے پر کیا گزری اور ظالموں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ رات ہمیں ایک اَور گھر منتقل کردیا گیا۔ وہاں میں اپنے خاوند افضل صاحب اور بیٹے اشرف کا انتظار کرتی رہی۔ رات گیارہ بجے بتایا گیا کہ دونوں باپ بیٹا شہید ہوگئے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انہیں بڑے دردناک طریقے سے مارا گیا تھا۔ چُھرے مارے گئے۔ انتڑیاں باہر نکل آئیں۔ پھر اینٹوں سے سر کُوٹے گئے۔ اس طرح پہلے بیٹے کو باپ کے سامنے مارا گیا۔ جب اس نوجوان بیٹے کو اس طرح کچل کچل کر مار دیا گیا تو پھر باپ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اب بھی ایمان لے آؤ اور مرزا غلام احمد قادیانی کو گندی گالیاں دو۔ موقع کے ایک گواہ کے بیان کے مطابق افضل نے جواب دیا کہ تم مجھے اپنے بیٹے سے ایمان میں کمتر سمجھتے ہو جس نے میرے سامنے اس بہادری سے جان دی ہے۔ جب آخری وقت سسکتے ہوئے وہ پانی مانگ رہا تھا تو اس کے منہ میں ریت ڈالی گئی اور باپ نے یہ نظارہ بھی دیکھا۔ اُس نے کہا جو چاہو کرلو، اس سے بدتر سلوک مجھ سے کرو مگر اپنے ایمان سے متزلزل نہیں ہوں گا۔ اس پر ان کو اسی طرح نہایت ہی دردناک عذاب دے کر شہید کیا گیا۔ اور پھر دونوں کی نعشیں تیسری منزل سے گھر کے نیچے پھینک دی گئیں اور سارا دن کسی کو اجازت نہیں تھی کہ وہ ان کی نعش کو اٹھا سکے۔
مکرم محمد افضل کھوکھر شہید نے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں