مکرم ڈاکٹر انعام الرحمٰن صاحب انور شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم انعام الرحمٰن انور صاحب ابن محترم مولوی عبدالرحمٰن انور صاحب 1937ء میں قادیان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم قادیان ہی میں حاصل کی۔ میٹرک ربوہ سے کیا۔ لاہور سے ہیلتھ ٹیکنیشن کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے سندھ جاکر میڈیکل پریکٹس شروع کی۔ نہایت مخلص، غریبوں کے ہمدرد اور جماعتی کاموں سے گہرا لگاؤ رکھنے والے انسان تھے۔ آپ سکھر، شکارپور اور جیکب آباد کے اضلاع کی مجالس انصاراللہ کے ناظم تھے۔ بوقتِ شہادت سکھر کے نزدیک گوٹھ عبدو کی سرکاری ڈسپنسری کے انچارج کے طور پر ملازمت کر رہے تھے۔
آپ کی بیگم مکرمہ امۃالحفیظ شوکت صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ جب لوگوں نے آپ کو حالات خراب ہونے اور اس کے نتیجہ میں درپیش خطرات سے آگاہ کیا تو آپ نے یہ کہہ کر علاقہ چھوڑنے سے انکار کردیا کہ پھر تو یہ علاقہ احمدیت سے خالی ہو جائے گا۔ آپ کے بہن بھائیوں اور عزیز و اقارب نے بھی سندھ چھوڑنے کا مشورہ دیا مگر اس وقت بھی حامی نہ بھری بلکہ کہنے لگے کہ شاید سندھ کی سرزمین میرا خون مانگتی ہے۔ اور پھر سینہ پر ہاتھ مار کر کہنے لگے کہ میں اس کے لیے تیار ہوں۔
15؍ مارچ1985ء کو مسجد احمدیہ سکھر میں نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد آپ اپنی اہلیہ کے ہمراہ بازار گئے کہ ایک دکان پر اچانک پیچھے سے دشمنوں نے بندوق اور چاقوؤں سے آپ پر حملہ کردیا جس سے آپ کا جسم خون میں لت پت ہوگیا۔ آپ نے اپنے خون میں انگلیاں ڈبو کر

لَآ اِلٰہَ اِلَّااللہ

لکھا اور وہیں تڑپتے تڑپتے جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر قریباً انچاس سال تھی۔آپ نے بیوہ کے علاوہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی یادگار چھوڑے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

مکرم ڈاکٹر انعام الرحمٰن صاحب انور شہید” ایک تبصرہ

  1. اسلام و علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    خاکسار شہید کا فرذند ہے ، شہید بہت ہی شفیق والد تھے اور تبلیغ کا بے انتہا شوق تھا ۔ خدمت انسانیت کا جذبہ بہت تھا ۔ اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے آمین یا رب العالمین

اپنا تبصرہ بھیجیں