نائیجیریا میں آغاز احمدیت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍دسمبر 2004ء میں نائیجیریا میں احمدیت کے آغاز سے متعلق ایک مضمون بقلم مکرم عبدالستار خان صاحب شامل اشاعت ہے۔

نائیجیریا کا قومی پرچم

نائیجیریا میں احمدی مبلغین کی آمد سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے بعض سعید روحوں کو رؤیا وکشوف کے ذریعہ حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کی اطلاع دیدی تھی جن میں دارالحکومت لیگوس کی ایک مسجد کے امام الفا ایانمو مرحوم نے رؤیا میں مسیح موعود اور مہدی معہود کو دیکھا جنہوں نے فرمایا کہ اگرچہ میں ذاتی طور پر تمہارے ملک میں نہیں آؤں گا لیکن میرا ایک بڑا پیرو آئے گا اور وہ اس ملک کے لوگوں کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرے گا۔ …اور جو کوئی اس کی آواز پر ہاتھ میں اپنے قرآن لئے ہوئے لبیک کہے گا وہ پھلے گااور پھولے گا اور کامیاب ہوگا اور جو کوئی اس کی آواز پر کان نہ دھرے گا وہ تباہ ہوجائے گا۔
1916-17ء میں لیگوس کے چند یوروبا مسلم طلباء قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے انگلستان پہنچے تو انہیں احمدیہ مشن لندن اور رسالہ ریویو آف ریلیجنز کا علم ہوا۔ بعد ازاں ان کا قادیان سے بھی رابطہ ہوگیا۔ دوران تعلیم انہوں نے احمدیہ لٹریچر لیگوس بھجوایا اور تعلیم سے فراغت کے بعد قادیان سے باقاعدہ رابطہ رکھا۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے ارشاد پر جب حضرت مولانا عبد الرحیم نیّر صاحبؓ غانا سے بذریعہ جہاز 18؍اپریل 1921ء کو نائیجیریا کے صدر مقام لیگوس پہنچے تو وہاں ان دنوں قریباً 35ہزار مسلمان تھے اور 20ہزار عیسائی۔ مگرعلم، دولت اور تجارت اور سرکاری عہدے سب عیسائیوں کے ہاتھ میں تھے۔ اور جہاں عیسائیوں کے چالیس مدارس تھے وہاں مسلمانوں کا صرف ایک(محمڈن سکول) تھا۔ حضرت مولانا نیّر نے لیگوس کی مختلف مساجد میں لیکچر دئیے اور پھر پبلک لیکچروں کا سلسلہ شروع کیا جس سے سعید روحیں احمدیت کی طرف آنے لگیں۔ جب آپؓ کو امام ’’الفاایانمو‘‘ کی خواب کا علم ہوا تو اپنی خوش بختی کا تصور کر کے آپ کی آنکھوں میں آنسو گئے۔ اس خواب کی تائید کرتے ہوئے دس ہزار افراد نے بیک وقت بیعت کر نے کی سعادت حاصل کی۔
حضرت مولانا نیّر صاحبؓ نے پرنس الیکو سلطان لیگوس کو بھی ان کے محل میں جاکر احمدیت کا پیغام پہنچایا اور چار ماہ تک دیوانہ وار تبلیغی فرض ادا کرکے اگست 1921ء میں واپس سالٹ پانڈ (غانا) تشریف لے گئے۔ پھر دوبارہ 15دسمبر1921ء کو لیگوس پہنچے اور پھر ملک کے دوسرے حصوں میں بھی تبلیغ شروع کی۔ نیز لیگوس میں 11ستمبر 1922ء کو مدرسہ تعلیم الاسلام جاری کیا۔ شدید محنت کرنے کی وجہ سے آپؓ قریباً چار ماہ تک بیمار رہے اور گورنمنٹ ہسپتال میں داخل کئے گئے۔ پھر آپ ڈاکٹری ہدایت کے تحت تبدیلی آب و ہوا کے لئے 21 جنوری 1923ء لندن بھجوادئیے گئے۔ آپؓ کے بعد مالی مشکلات کی وجہ سے سالہاسال تک کوئی مرکزی مربی نائیجیریا نہیں بھجوایا جاسکا۔ آخر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ارشاد پر الحاج حکیم فضل الرحمان صاحبؓ نے ستمبر 1929ء کے قریب غانا سے واپسی سے پہلے نائیجیریا کا دورہ کیا۔ پھر حکیم صاحب فروری 1933ء میں قادیان سے روانہ ہو کرلندن، سیرالیون اور غانا میں قیام کرتے ہوئے جولائی 1934ء میں نائیجیریا پہنچے۔ لیکن وہاں پہنچتے ہی ایک خطرناک اندرونی کشمکش سے دوچار ہوگئے جوبعض لوگوں نے خود ساختہ قانون کی بناء پر پیدا کر دی تھی۔ معاملہ آخر عدالت تک پہنچا۔ 20 مارچ 1937ء کو اگرچہ آپؓ کے حق میں فیصلہ ہوگیا لیکن اس کے باوجود 1939ء تک حالات مخدوش رہے۔
1940ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ارشاد پر جماعت کی تشکیل نو کی گئی جس کے بعد مکرم حکیم صاحب نے جماعت نائیجیریا کی طرف پوری توجہ دی اور مسلسل جدوجہد سے مشن کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کر دیا۔ تعلیم الاسلام سکول کے لئے سرکاری گرانٹ منظور کرائی، نئی جماعتیں قائم کیں، لیگوس میں نہایت خوبصورت مسجد اور مشن ہاؤس تعمیر کیا، آنحضرتﷺ کی سیرت طیبہ ’’دی لائف آف محمد‘‘ کے نام سے تصنیف کی جو مغربی افریقہ کے تمام سکولوں کے نصاب میں شامل ہے۔
جنوری 1945ء میں مکرم مولوی نور محمد صاحب نسیم سیفی نائیجیریا بھجوائے گئے جنہوں نے 1947ء میں مشن کا چارج لیا۔ اور (چند ماہ کے وقفہ کے ساتھ) قریباً انیس سال تک وہاں اہم دینی خدمات کی توفیق پائی۔ آپ ہی نے The Truth کے نام سے نائیجیریا مشن کا پہلا ہفت روزہ اخبار جاری کیا جو نائیجیریا میں مسلمانوں کا واحد اخبار ہے۔ آپ نے چھوٹے پمفلٹس بھی کثرت سے شائع کئے۔ نیز الیاس برنی کی کتاب ’’قادیانی موومنٹ‘‘ کا جواب Our Movement کے نام سے لکھا جو ہالینڈ سے شائع ہوا۔ 60-1959-ء میں ہؤسا قبیلہ کے لوگ سینکڑوں کی تعداد میں حلقہ بگوش احمدیت میں شامل ہوئے۔ آپ 1964ء میں ربوہ واپس تشریف لائے۔

مکرم نسیم سیفی صاحب

نومبر1961ء میں مکرم کرنل محمد یوسف شاہ صاحب مرحوم کے ذریعہ نائیجیریا میں پہلی ڈسپنسری کا قیام عمل آیا۔ 1962ء میں مکرم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب سیرالیون میں میڈیکل مشنری کے طور پر تشریف لے گئے تھے لیکن آب وہوا موافق نہ آنے کی وجہ سے نائیجیریا بھجوادیئے گئے۔ انہوں نے کانو میں احمدیہ کلینک کے نام سے ادارہ کھولا۔ محترم سیفی صاحب کے بعد محترم مولانا شیخ نصیرالدین احمد صاحب امیر مقرر ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں