نبی کریمﷺ بحیثیت دوست

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن سیرۃالنبیﷺ نمبر 6؍اکتوبر 2022ء)

وفا ایک قیمتی جوہر ہے۔رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ جو خدا کے بندوں کے احسانات کی قدر دانی نہیں کرتاوہ خدا کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔حقیقت یہ ہے وہ لوگ جو اپنے مولیٰ کے ساتھ وفا کے بے نظیر نمونے قائم کر کے دکھاتے ہیں انسانوں کے ساتھ تعلق اور دوستی میں ان سے بڑھ کر کوئی باوفا نہیں دیکھاگیا۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍فروری 2013ء میں بحیثیت دوست آنحضورﷺ کی سیرت طیبہ پر مکرم حافظ مظفر احمد صاحب کا ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے۔
٭…آنحضورﷺ کے ابتدائی زمانہ کے ساتھی حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ ایک دفعہ حضرت عمرؓ کی تکرار ہوگئی۔نبی کریمؐ کو پتہ چلا تو حضرت عمرؓ سے اظہار ناراضگی کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ میرے ساتھی کو میرے لئے چھوڑو گے یا نہیں؟
٭…حضرت ابوبکرؓ، بلالؓ، زید بن حارثہ ؓجومکی دَورِ ابتلاء کے ساتھی تھے، مکہ کی عظیم الشان فتح کے وقت ان ساتھیوں کو رسول کریمؐ نے فراموش نہیں کیا۔اس روزآپؐ کی شاہی سواری کے دائیں ابوبکرؓ تھے تو بائیں بلالؓ اور زیدؓ اگر چہ فوت ہو چکے تھے مگر ان کے بیٹے اسامہؓ کو آپؐ نے اپنی سواری کے پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔اس طرح وفاؤں کے جلومیں یہ قافلہ مکے میں داخل ہوا۔
٭…غزوہ ٔاحزاب کے موقع پر خندق کی کھدائی ہورہی تھی اور نبی کریمؐ اپنے انصاراور مہاجرین دوستوں کے ساتھ مل کر یہ دعائیہ نغمے پڑھ رہے تھے:

اللّٰھم لا خیرا لا خیرالاخرہ
فاغفر الانصار والمھاجرہ

اے اللہ! اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے۔ پس تُو انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔
٭… رسول کریمؐ کے دل میں اپنے خدام کی خدمات کا خاص احترام ہوتا تھا۔ چنانچہ اپنی زندگی کی شاندار فتح غزوۂ خیبر سے واپس آتے ہوئے جب اُحد مقام پر پہنچے تو اُحد کے شہید آپؐ کو یاد آئے جن کے خون سے یہ وادی لالہ رنگ ہوئی تھی۔ فرمایا: اُحد کو ہم سے محبت ہے اور ہمیں اُحد سے۔مراد اہل احد سے تھی۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ شہدائے اُحد کی شہادت کے آٹھ سال بعد(یعنی اپنی وفات کے سال) رسول کریم ؐنے احد کے شہیدوں پر جاکر دعا کی۔ ایسے لگتا تھا جیسے آپ زندوں کے ساتھ مُردوں کو بھی الوداع کہہ رہے ہیں۔
٭… فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمﷺ صحن کعبہ میں تشریف فرما تھے کہ حضرت ابوبکرؓ اپنے بوڑھے باپ ابوقحافہ کو ہمراہ لیے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم ﷺکا اپنے صحابہ سے حسن سلوک اور کمال عجزو انکسار ملا حظہ ہو، فرمایا: اپنے بزرگ اور بوڑھے باپ کو آپ گھر میں ہی رہنے دیتے اور مجھے موقع دیتے کہ مَیں خود ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔
حضرت ابوبکرؓ اس شفقت پر وارے جاتے ہیں۔ کمال ادب سے عرض کیا: یارسول اللہ! ان کا زیادہ حق بنتا تھا کہ چل کر حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوں بجائے اس کے کہ حضور ؐ بنفس نفیس تشریف لے جاتے۔ نبی کریم ﷺنے اپنے سامنے بٹھا کر ابو قحافہ کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا:اب اسلام قبول کر لیجئے ۔ ابوقحافہ کا دل تورسول اللہ کی محبت بھر ی باتوں سے پہلے ہی جیتا جاچکا تھا۔اُن کو انکارکا یا را کہاں تھا۔ انہوں نے فوراً سر تسلیم خم کیا۔ حضور ﷺ پھر ان سے دل لگی کی باتیں کرنے لگے۔ ان کے بالوں میں سفیدی دیکھی تو فرمایا کہ خضاب وغیرہ لگا کر ان کے بالوں کا رنگ تو بدلو۔
٭… جب مکہ کی عظیم الشان فتح سے خدا کا رسولؐ اور مومنین خوش ہورہے تھے عین اس وقت ایک عجیب جذباتی نظارہ دیکھنے میں آیا۔ہوا یوں کہ کچھ عشاق رسولؐ ‘انصارِ مدینہ’ کے دلوں میں یہ وسوسے جنم لے رہے تھےکہ اُن کے آقا ﷺمکہ کی فتح کے بعد کہیں اپنے اس وطن مالوف میں ہی مستقل قیام نہ فرمالیں۔ یہ وساوس قلب و دماغ سے نکل کر زبانوں پر آنے لگے کہ نبی کریم ﷺنے اہل مکہ سے جس محبت و رأفت کا سلوک فرمایا ہے اس سے وطن کے ساتھ آپؐ کی محبت بھی ظاہر ہے۔ اگر یہ محبت غالب آگئی اور آپؐ یہیںرہ گئے تو ہمارا کیا ٹھکانہ ہوگا۔کہتے ہیں عشق است ہزار بد گمانی۔دراصل یہ وسوسے انصارِ مدینہ کے عشق صادق کے آئینہ دار تھے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺکو بذریعہ وحی انصار کی ان قلبی کیفیات سے اطلاع فرمائی۔ آپؐ نے انصار مدینہ کا ایک الگ اجتماع کوہ صفا پر طلب فرمایا اور ان سے مخاطب ہوئے کہ کیا تم لوگ یہ باتیں کررہے ہو کہ محمدؐ پر اپنے وطن اور قبیلے کی محبت غالب آگئی ہے؟ انصار نے سچ سچ اپنے خدشات بلاکم و کاست عرض کردیے۔تب خدا کے رسولؐ نے اطمینان دلاتے ہوئے بڑے جلال سے فرمایا کہ اگر مَیں ایسا کروں تو دنیا مجھے کیا نام دے گی؟ مجھے بتائو تو سہی کہ بھلا دنیا مجھے کسی اچھے نام سے یاد کرے گی؟ اور میرا نام تو محمدؐ ہے یعنی ہمیشہ کے لیے تعریف کیا گیا۔ تم مجھے کبھی بے وفا نہیں پائوگے۔بے شک مَیں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔وہ وطن جو مَیں نے خدا کی خاطر چھوڑا تھا اب مَیں لَوٹ کر کبھی اس میں واپس نہیں آسکتا ہوں۔اب مَیں تمہارا جیون مرن کا ساتھی بن چکا ہوں۔میرے مکہ میں رہ جانے کا کیا سوال، اب تو سوائے موت کے مجھے کوئی اَور چیز تم جیسے وفاداروں اور پیاروں سے جدا نہیں کرسکتی۔
انصار مدینہ جو جذبات عشق سے مغلوب ہو کر ان وساوس میں مبتلا ہوئے تھے سخت نادم اور افسردہ ہوئے کہ ہم نے ناحق اپنے آقا کا دل دکھایا۔ پھر کیا تھا وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ روتے روتے ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ خدا کی قسم ! ہم نے جو یہ بات کی تو محض خدا اور اس کے رسولؐ کے ساتھ پیار کی وجہ سے کی تھی کہ اس سے جدائی ہمیں گوارا نہیں۔آنحضرتﷺنے اپنے ان وفادار ساتھیوں کو دلاسا دیا اور فرمایا: اللہ اور رسول تمہارے اس عذر کو قبول کرتے ہیں اور تمہیں مخلص اور سچا قرار دیتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں