نگرپارکر اور تھرپارکر

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 11مارچ 2022ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍جولائی 2013ء میں مکرم احمد ریاض ڈوگر صاحب جہلمی کے قلم سے تھرپارکر اور نگرپارکر کا مختصر تعارف شائع ہوا ہے۔
تھر ایک صحرائی علاقہ ہے جہاں پر تاحد نگاہ ریت کے ٹیلے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ علاقہ زیرزمین معدنیات (کوئلہ، فاسفورس، گرینائٹ، تانبا، سنگ مرمر اور سفید چائنا مٹی) سے بھرپور ہے اگرچہ ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔ انہی معدنیات کی وجہ سے زیرزمین پانی بھی نمکین ہے جو ڈیڑھ سو فٹ گہرا کھودنے سے نکلنا شروع ہوتا ہے۔ لوگ انتہائی غریب اور تعلیم سے محروم ہیں۔ گو کہ اکثریت ہندوؤں کی ہے مگر ہر قومیت اور فرقے کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ مور یہاں کثرت سے پایا جاتا ہے اور گھروں میں مرغیوں کی طرح گھومتا ہے۔ مور چونکہ ہندوؤں کے نزدیک ایک مقدّس پرندہ ہے اس لیے اس کے شکار پر پابندی ہے۔ بارڈر ایریا کے ساتھ ساتھ نیل گائے، ہرن اور دیگر جانور بھی پائے جاتے ہیں۔


ضلع تھرپارکر کا ایک شہر نگرپارکرہے جو کہ پہاڑی علاقہ ہے۔ یہاں شہد کی چھوٹی مکھی تو پائی جاتی ہے لیکن بڑی مکھی نہیں ہوتی۔ یہاں سے دس کلومیٹر دُور ایک تاریخی شہر ویراواہ واقع ہے جس کے ساتھ میٹھے پانی کی ایک بہت بڑی جھیل ہے۔ سردیوں میں یہاں کا درجہ حرارت قریباً 30 ڈگری سنٹی گریڈ ہوتا ہے تو ٹھنڈے علاقوں خاص طور پر رشیا سے بہت سارے پرندے اس جھیل پر اکٹھے ہوجاتے ہیں اور ایک دلفریب نظارہ پیش کرتے ہیں۔
تھرپارکر کے مرکزی شہر مِٹھی اور دیگر علاقوں میں ہندوؤں کے بہت سے پرانے مندر موجود ہیں جو سنگ مرمر سے بنے ہوئے ہیں اور اُن کے اندر مورتیاں کھود کر بنائی گئی ہیں اور کشیدہ کاری بھی کی گئی ہے۔ مِٹھی سے نگرپارکر کے درمیان ایک علاقہ گوڑی مندر کہلاتا ہے۔ یہاں سے نگرپارکر کے پہاڑی سلسلے کارونجھر پہاڑ کے درمیان تک ایک سرنگ بنائی گئی ہے جس کی لمبائی اندازاً بیس کلومیٹر ہے۔
نگرپارکر سے پانچ کلومیٹر دُور محمدبن قاسمؒ کے دَور کی بنی ہوئی سنگ مرمر کی ایک مسجد بھی ہے جو آثارقدیمہ کی نشانی بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ عمرکوٹ کا قلعہ بہت مشہور اور قابلِ دید ہے۔ مِٹھی سے چھاچھرو کے راستے میں بھی ایک تاریخی مسجد اور درسگاہ ہے۔
تھرپارکرکے بعد بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول ہے جہاں رن کچھ واقع ہے۔ رن کچھ کڑوے پانی کا وہ ذخیرہ ہے جس میں کوئی جاندار چیز نہیں رہ سکتی ۔ اس پانی سے فصل بھی نہیں ہوسکتی۔ جھیل کے گرد نمک کشید کرنے والی فیکٹریاں لگائی گئی ہیں۔ یہ نمک اندرونِ ملک فروخت کیا جاتا ہے۔
تھر کے لوگ اپنی گزربسر کے لیے بارشوں پر انحصار کرتے ہیں جو جولائی سے ستمبر تک ہوتی ہیں۔ اس دوران ریت پر گوارا، باجرہ اور تربوز کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔ اگر بارش نہ ہو تو قحط سالی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ سینکڑوں بھیڑبکریاں اور گائیں پال رکھی ہیں جن کا دودھ بیچ کر اور جانوروں کی فروخت سے ضروریاتِ زندگی پوری ہوتی ہیں۔ پالتو جانوروں میں اونٹ اور گدھے بھی شامل ہیں۔
نگرپارکر میں تھر کی نسبت فصلوں کی کاشت قدرے بہتر ہے۔ یہاں لوگوں نے کنویں بنائے ہوئے ہیں جن کی گہرائی ساٹھ ستّر فٹ تک ہوتی ہے۔ یہ پہاڑی علاقہ ہے اور بارشوں کا میٹھا پانی یہاں زیرزمین محفوظ رہتا ہے۔ موسم بھی سارا سال قریباً ایک سا رہتا ہے۔ نگرپارکر کے گردونواح میں کئی چھوٹے ڈیم بھی دکھائی دیتے ہیں جو بارشوں کے موسم میں پہاڑوں سے آنے والے پانی سے بھر جاتے ہیں۔ پھر اضافی پانی ویراواہ جھیل میں اکٹھا ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگ اپنی زمینوں کے اندر بند باندھ کر بھی پانی کو اپنی فصلوں کے لیے محفوظ کرتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں