پیشگوئی دربارہ محمدی بیگم صاحبہ

مخالفین خوب شور مچاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی دربارہ محمدی بیگم صاحبہ پوری نہیں ہوئی حالانکہ اپنی جزئیات کے لحاظ سے پوری ہونے والی یہ پیشگوئی ایک حیرت انگیز اور ایمان افروز نشان ہے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27 اگست 2010ء میں مکرم محمد اعظم اکسیر صاحب کے قلم سے ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں محمدی بیگم صاحبہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی کا ایمان افروز تذکرہ کیا گیا ہے۔
حضور علیہ السلام کے حقیقی چچا مرزا غلام محی الدین صاحب کی نواسی محمدی بیگم صاحبہ کی ولادت 1871ء میں ہوئی۔ ان کی والدہ کا نام عمر النساء تھا جن کی شادی مرزا احمد بیگ صاحب ہوشیارپوری کے ساتھ ہوئی تھی جن کے والد مرزا گاماں بیگ صاحب پٹی ضلع قصور سے نقل مکانی کر کے ایمہ ضلع ہوشیار پور میں آباد ہو گئے تھے ۔ حضورؑ کے برادرِ اکبر حضرت مرزا غلام قادر صاحب کی اہلیہ حرمت بی بی صاحبہ (المعروف ’تائی ‘) محمدی بیگم صاحبہ کی خالہ تھیں۔
محمدی بیگم صاحبہ کا نکاح اُن کے والد نے اپنے ایک عزیز جناب مرزا سلطان محمد بیگ صاحب کے ساتھ 7؍اپریل 1892ء کو کر دیا۔ آپ کے ہاں پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ محترم مرزا سلطان محمد صاحب 1949ء میں اور محترمہ محمدی بیگم صا حبہ نے بعمر 95سال 1966ء میں وفات پائی۔ دونوں لاہور کے مشہور قبرستان میانی صاحب میں آسودۂ خاک ہیں۔
پیشگوئی دربارہ محمدی بیگم صاحبہ کے اصل مخاطب اُن کے والد مرزا احمد بیگ تھے جن کو ایک دنیاوی ضرورت حضور کے پاس کھینچ لائی ۔ اس ضرورت کے سلسلہ میں دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو ان کی بیٹی محمدی بیگم صاحبہ کا رشتہ مانگنے کی ہدایت جاری فرمائی ۔ چنانچہ حضور فرماتے ہیں: ’’ہمیں اس رشتہ کی درخواست کی کچھ ضرورت نہیں تھی۔ سب ضرورتوں کو خدا نے پورا کر دیا تھا۔ اولاد بھی عطا کی اور ان میں سے وہ لڑکا بھی جو دین کا چراغ ہو گا بلکہ ایک اور لڑکا ہونے کا قریب مدّت تک وعدہ دیا جس کا نام محمود احمد ہو گا اور اپنے کاموں میں اولوا لعزم نکلے گا۔ پس یہ رشتہ جس کی درخواست کی گئی ہے محض بطور نشان کے ہے تا خدا تعالیٰ اس کنبہ کے منکرین کو اعجوبۂ قدرت دکھلاوے۔ اگر وہ قبول کرلیں تو برکت اور رحمت کے نشان ان پر نازل کرے اور ان بلائوں کو دفع کر دیوے جو نزدیک چلی آتی ہیں لیکن اگر وہ ردّ کر یں تو ان پر قہری نشان نازل کر کے ان کو متنبہ کرے‘‘۔
جس خط میں حضور نے حصول رشتہ کی تحریک فرمائی تھی اس کے متعلق تحریر فرمایا کہ : ’’وہ خط محض ربّانی اشارہ سے لکھا گیا تھا‘‘۔
’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں مرزا احمد بیگ کے متعلق ایک الہام یوں درج ہے کہ اگر آ پ یہ رشتہ نہیں دیتے اور کہیں اَور کر دیں تو نکاح کے بعد تین سال کے اندر ہلاکت کو پہنچو گے ۔ اسی طرح جس سے نکاح کردو گے وہ اڑھائی سال کے اندر فوت ہو جائے گا اور یُوں محمدی بیگم صاحبہ بیوہ ہو کر میرے عقد میں آئیں گی۔
اس وعیدی انتباہ میں واضح طور پر یہ اشارہ تھا کہ جو خدا خوفی سے توبہ کرے وہ بچ کر مثبت رنگ میں اللہ کی رحمت و برکت کا وارث ہو گا ۔ چنانچہ بیٹی کا نکاح دوسری جگہ کر دینے کے صرف 176دن بعد 30ستمبر 1892ء کو مرزا احمد بیگ انتقال کر کے پیشگوئی کے پورا ہونے پر مہرِ تصدیق ثبت کرگئے۔ محمدی بیگم صاحبہ کے بڑے فرزند محترم مرزا محمد اسحاق بیگ صاحب لکھتے ہیں کہ : ’’اس پیشگوئی کے مطابق میرے نانا جان مرزا احمد بیگ صاحب ہلاک ہو گئے اور باقی خاندان ڈر کر اصلاح کی طرف متوجہ ہو گیا جس کا نا قابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ اکثرنے احمدیت قبول کرلی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت غفور و رحیم کے ماتحت قہر کو رحم میں بدل دیا‘‘۔
محترم جناب مرزا سلطان محمد بیگ صاحب نے ہمیشہ سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کیا بلکہ مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب جیسے مخالف لیڈروں کی طرف سے لاکھوں روپے کے لالچ اور دھمکیوں کو ہمیشہ ٹھکرا دیا ۔آپ حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق کہا کرتے تھے کہ : ’’جو عقیدت مجھ کو اُن سے ہے وہ آپ میں سے کئی احمدیوں کو بھی نہیں ہے‘‘۔
محترم مرزا محمد اسحق بیگ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہمارے والدین حضرت مسیح موعودؑ کا ہمیشہ نہایت پاک ذکر کیا کرتے تھے۔ مجھ پر جب بعض خوابوں کے ذریعہ احمدیت کی سچائی روشن ہو گئی تو والدین کی باقاعدہ اجازت سے قادیان جا کر بیعت کی بلکہ اجازت کے ساتھ والد صاحب نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ بیعت کے بعد ’’کوئی لغزش نہیں آنی چاہئے‘‘۔ اور جب بیعت کر کے آئے تو دونوں نے خوشی کا اظہار کیا۔
ایک دفعہ ایک احمدی عزیز محترم مرزا احمد بیگ صاحب نے محترمہ محمدی بیگم صاحبہ سے کہا کہ ’’بہن جی تُسیں احمدی ہو جائو!‘‘ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’’احمد بیگ توں اکلا احمدی نہیں۔ میں وی احمدی آں۔ میں وی احمدی آں۔ میں وی احمدی آں‘‘۔ اور یہ ’’ایمانی کیفیت ‘‘کوئی نئی بات نہیں تھی ۔ دونوں میاں بیوی کی طرف سے کبھی کوئی مخالفانہ حرکت نہیں ہوئی۔
جنگ عظیم اوّل میں جناب مرزا سلطان محمد بیگ صاحب سرکاری ڈیوٹی پر فرانس میں تعینات تھے۔ محترمہ محمدی بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ : ’’فرانس میں ان کو (مرزا سلطان محمد صاحب کو) گولی لگنے کی اطلاع مجھے ملی تو میں سخت پریشان ہوئی اور میرا دل گھبرا گیا ۔ اسی تشویش میں مجھے رات کے وقت مرزا صاحب رؤیا میں نظر آئے۔ ہاتھ میں دودھ کا پیالہ ہے اور مجھ سے کہتے ہیں کہ لے محمدی بیگم یہ دودھ پی لے اور تیرے سر کی چادر سلامت ہے تو فکر نہ کر ۔ اس سے مجھے اپنے خاوند کی خیریت کے متعلق اطمینان ہو گیا ‘‘۔
محترم مرزا محمد اسحق بیگ صاحب نے بتایا کہ میں نے والدِ محترم سے پوچھا کہ آپ قادیان بھی گئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے ملے بھی تو اتنے اچھے خیالات رکھنے کے باوجود بیعت کیوں نہیں کی؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم قادیان گئے۔ میرا اور تمہاری والدہ کا کھانا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور آپا مریم یعنی حضرت سیّدہ مریم بیگم صاحبہ کے گھرمیں تھا۔ میں متوقع تھا کہ کھانے کے بعد مجھے حضورؓ دعوت احمدیت دیں گے مگر ایسا نہیں ہوااس لئے عمومی ملاقات اور کھانے وغیرہ کے بعد ہم واپس آگئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

پیشگوئی دربارہ محمدی بیگم صاحبہ” ایک تبصرہ

Leave a Reply to خرم نصیر رانا Cancel reply