چین کے ساتھ اسلام کے ابتدائی روابط

مکرم ڈاکٹر حافظ محمداسحق خلیل صاحب کا ایک مقالہ انگریزی رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ اپریل1992 ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کا ترجمہ مکرم محمد ادریس چودھری صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ جون و جولائی 2010ء میں شائع ہوا ہے۔

اسلام کی اوّل ترین صدیوں کا جو چینی ریکارڈ پایا جاتا ہے، اس میں اسلام کی آمد کا ذکر ملتا ہے۔ “Annals of Kawangtung” میں چین میں مسلمانوں کی آمد کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’T’angخاندان کے ابتدائی ایّام میں انّام کی سلطنت اور کمبوڈیااور مدینہ اور کئی دوسرے ممالک سے اجنبی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کینٹن (Canton) میں وارد ہوئی۔ یہ اجنبی لوگ عرش (بہ الفاظِ دیگر خدا) کی عبادت کیا کرتے تھے ان کے عبادت خانوں میں بتوں، مجسموں یا عکسی تصاویر کی ممانعت تھی۔ مدینہ کی سلطنت ہندوستان کے قرب و جوار میں ہے۔ اسی سلطنت سے ان اجنبیوں کے مذہب کا آغاز ہوا تھا۔ جو بدھ مت سے جداگانہ ہے وہ لحم الخنزیر نہیں کھاتے۔ شراب نوشی نہیں کرتے۔ غیر ذبیحہ جانور کے گوشت کوناپاک متصور کرتے ہیں‘‘۔
اس رپورٹ میں اس بات کو سراہا گیا ہے کہ وہ بڑے متموّل لوگ تھے اور اپنے درمیان انتخاب شدہ سربراہ کی تابعداری کرتے تھے۔
فارس کے ایک بادشاہ فیروز نے عربوں کے خلاف جنگ کے لئے چین سے مدد مانگی تھی۔ لیکن شہنشاہ چین کا جواب یہ تھا کہ فارس بہت دُوردراز ہے اس لئے مطلوبہ افواج نہیں بھجوائی جاسکتیں۔
651ء میں حضرت عثمان رضی اﷲعنہ سے ملاقات کے بعد چین کا ایک سفارت کار وطن واپس روانہ ہوا تو آپؓ نے اس کی معیت میں ایک عرب جرنیل بھی بھجوایا۔
703ء سے 715ء تک ولید حکمران تھا۔ ان ایام میں مسلمان جرنیل ہندوستان کی طرح سپین کو بھی روانہ ہورہے تھے۔ جبکہ خراسان کے مسلمان گورنر نے Oxus کو عبور کر کے بخارا، سمرقند، اور نواحی شہروں کو زیرِ نگیں کر لیا۔ بعد ازاں اُس نے سلطنتِ چین کی مشرقی سرحدوں تک اپنی فتوحات کو پہنچادیا جس کے نتیجہ میں چین اور اُمیّہ خلفاء کے درمیان بین الحکومتی تعلقات کا آغاز ہوا جو عباسی خلفاء کے زمانہ تک جاری رہے۔ عربوں اور چین کے مابین یہ تعلقات زیادہ تر تجارتی اور بین الحکومتی نوعیت کے تھے۔ قریباً 1257ء میں بغداد میں بنو عباس کی مسلم حکومت کو منگولوں نے تاخت و تاراج کرنا شروع کردیا تھا۔ اسی عرصہ میں اگر چین کے شہری کارندے وسط ایشیا میں آباد ہوچکے تھے تو عرب اور وسط ایشیا کے مسلمان چین میں آباد ہونے لگ گئے تھے۔ خواہ وہ تاجر، صناع، سپاہی یا پھر جنگی قیدی ہی کیوں نہ تھے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ منگولوںنے بغداد کی عباسی خلافت پر بڑی ہی بے رحمی سے حملے کئے تھے۔ لیکن بعد میں وہی مشرف بہ اسلام بھی ہوئے۔چین نے ان منگولی حکمرانوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کر رکھا تھا۔ ان برسر آوردہ مسلمانوں کو چین میں پُر امن ذرائع سے اشاعتِ اسلام میں نمایاں طورپر کامیابی نصیب ہوئی۔ اگرچہ ایک لحاظ سے اس میں اہلِ چین سے باہمی شادیوں کا بھی عمل دخل تھا۔ مشہور عرب سیاح اور مؤرّخ ابنِ بطوطہ نے چودھویں صدی عیسوی میں چین کے کئی ساحلی قصبوں اور شہروں کا دورہ کیا جہاں مسلمانوں نے اس کا دلی خیر مقدم کیا۔ اُس نے لکھا کہ وہاں مسلمانوں نے اپنی مساجد بنارکھی ہیں اور ان کو اہلِ چین عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
رفتہ رفتہ ازمنہ وسطیٰ کے اواخر تک مسلمانوں کی آبادی اہلِ چین کی مقامی کمیونٹی میں مدغم ہوگئی۔ اسی اثناء میں چین کے شہنشاہوں اور تیموری شہزادوں کے درمیان سفارتکاروں کا باہمی تبادلہ ہونا شروع ہوگیا۔ سرٹامس آرنلڈ نے اپنی کتاب “Preaching of Islam” میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے‘ جس سے مسلمان علماء اور عمائدین کی پُر جوش تبلیغی رُوح کی غمازی ہوتی ہے:
یہ1412ء کی بات ہے کہ وسط ایشیا کے بادشاہ شاہ رُخ بہادر کے سمر قند کے دربار میں اہلِ چین کی ایمبیسی کا قیام عمل میں آیا۔ تو اس نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے خطوط میں اہلِ چین کے نام قبول اسلام کی دعوت کو شامل کردیا۔ اس نے چینی سفراء کی واپسی پر ان کے ہمراہ اپنے ایلچی کے ہاتھ دو خطوط روانہ کئے جن میں سے ایک عربی اور دوسرا فارسی میں تھا۔ فارسی میں مرقوم خط میں یہ بھی درج تھا کہ: ’’کچھ عرصہ گزرا چنگیز خان نے مسلّح افواج تیار کر کے اپنے بعض جیالوں کو مختلف اطراف میں بادشاہوں اور ممالک کو روانہ کیا۔ جیسے جوجی خان (Juji Khan) کو Sary کی سرحد پر اور کریم (Qarim)کو دشتِ کف چک کی طرف ۔ اس کے نتیجہ میں بعض حکمران مسلمان ہوگئے اور حضرت محمد صلی اﷲعلیہ وسلم کی شریعت کے پیرو کار بن گئے۔ ان حکمرانوں میں ازبیک خان، چانی (Chani) خان اور عرس خان شامل تھے۔ جن دنوں میں ہلاکو خان خراسان،فرات اوراس کے نواحی ملکوں پر لمن الملک کی کوس بجا رہا تھا تو اس کے جانشین بننے والے بعض بیٹوں نے اپنے دلوں میں شریعت حضرت محمد صلی اﷲعلیہ وسلم کے نور کے لئے جگہ پائی اور مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ مثال کے طورپر راستباز بادشاہ غازان، اور اُل جے تو سلطان اور خوش نصیب بادشاہ ابوسعید بہادر جن کے بعد میرا معظم باپ تیمور گُر گن تخت کا جانشین بن گیا۔ اُس نے اپنے ماتحت تمام ممالک میں حضرت محمد صلی اﷲعلیہ وسلم کی شریعت کا نفاذ کیا۔ اور اس کے تمام تر عہدِ حکومت میں اسلامیان بدرجہ اتم خوشحالی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اب جبکہ خداتعالیٰ کی عنایت اور مہربانی سے خراسان، فرات، اور ماوراء النہر وغیرہ کی سلطنت میری تحویل میں ہے تو ساری کی ساری سلطنت میں انتظام و انصرام نبیِٔ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خالص شریعت سے سرانجام پارہا ہے۔ راستبازی واجب اور سیاہ کاری ممنوع ہے۔ لہٰذا چنگیز خان کی رسومات کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔‘‘
ان تاریخی خطوط کو ریکارڈ میں لانے کے بعد سر ٹامس آرنلڈ یوں رقمطراز ہیں: یہ بات انہونی ہے کہ ان خطوط نے اس بات کو بعد میں ضرب المثل بنا دیا کہ چین کے بادشاہوں میں سے ایک نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام اختیار کرلیا تھا۔ اس بات کا حوالہ ہمیں مسلمان تاجروں کے علاوہ سیّد علی اکبر سے بھی ملتا ہے جس نے پیکنگ میں پندرھویں صدی کے آخر ی اور سولہویں صدی کے ابتدائی حصہ کے کئی سال گزارے تھے۔ کان جان خو کے شہر میں تیس ہزار سے بڑھ کر مسلمان خاندانوں کی آبادی تھی۔ وہ ٹیکسوں سے مستثنیٰ تھے۔ وہ بادشاہ کی عنایات سے مسرور تھے جس نے انہیں عطیۃً زمینیں دے رکھی تھیں۔ وہ اپنے مذہب کی اتباع میں مکمل رواداری سے شاداں و فرحاں تھے۔ اہلِ چین ان کے مذہب کو بہ نظر استحسان دیکھتے تھے۔ مذہب میں تبدیلی اختیار کرنے کی کھلی اجازت تھی۔ دارالحکومت میں ہی چار جامع مساجد پائی جاتی تھیں۔ اور سلطنت کے صوبوں میں مزید نوّے مساجد موجود تھیں۔ ان تمام مساجد کی تعمیر کے اخراجات کا متحمل بادشاہ ہوا تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں