1906ء میں وفات یافتہ چند صحابہؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍دسمبر 2006ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے 1906ء میں وفات پانے والے چند اصحاب احمدؑ کا ذکر ہے۔
حضرت حکیم فضل الہٰی حاحب لا ہوری
حضرت حکیم فضل الہٰی صاحبؓ لا ہور ی بڑے مخلص اور جانثار صحابی تھے۔ آپؓ نے 1892ء یا1893 ء میں بیعت کی توفیق پائی، مخالفین کے سامنے ہر وقت سینہ سپر رہتے تھے۔ آپؓ ’’انجمن فرقانیہ لاہور‘‘ کے صدر تھے ، مالی قربانی میں بھی پیش پیش رہا کرتے تھے۔ 313 صحابہ کی فہرست مندرجہ ’’انجام آتھم‘‘ میں آپ کا نام 210 نمبر پر درج ہے ۔ آپ ابتدائی موصیان میں سے تھے اور آپ کا وصیت نمبر 69 تھا۔ آپ نے 8 اپریل 1906 ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔
حضرت شیخ مسیح اللہ صاحب شاہجہانپوری
حضرت شیخ مسیح اللہ صاحب صوبہ اتر پردیش کے شہر شاہجہانپور سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کی بیعت کے سن کا علم نہیں تاہم ان دنوں آپ محکمہ انہار ملتان میں بحیثیت خانساماں ملاز م تھے۔ ستمبر 1895 ء میں حضورؑ نے حکومت کے نام ایک اشتہار شائع کیا جس کے آخر میں تقریباــ 700 افراد کے نام درج فرمائے۔ اس اشتہار میں آپؓ کا نام بھی قادیان کے احباب میں شامل ہے۔ یہ اشتہار کتاب ’’آریہ دھرم‘‘ میں درج ہے۔ اس طرح حضورؑ نے 24؍ فروری 1898ء کو دیئے گئے ایک اور اشتہار میں مخالفین کی طرف سے گورنمنٹ کو پہنچائی گئی خلاف واقعہ اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے اپنے خاندان اور سلسلہ کے حالات بیان فرمائے اور اشتہار میں اپنی جماعت کے 316 احباب کے اسماء درج فرمائے جس میں آپؓ کا نام بھی شامل ہے۔ یہ اشتہار ’’کتاب البریہ‘‘ میں شائع ہوا۔ حضور ؑنے ’’انجام آتھم‘‘ میں درج 313 صحابہؓ میں آپؓ کا نام 75 ویں نمبر پر لکھا ہے۔
حضرت شیخ مسیح اللہ صاحبؓ بھی ہجرت کرکے قادیان آگئے تھے اور یہاں مدرسہ تعلیم الا سلام کے بورڈنگ میں ملازم رہے۔ پھر ایک دکان کرلی۔ بطور خانساماں بھی خدمت کی توفیق پائی۔ 17 نو مبر 1901ء کو ایک انگریز سیاح ڈی ڈی ڈکسن قادیان تشریف لائے تو حضورؑ نے حضرت شیخ صاحبؓ کو ارشاد فرمایا کہ اُن کے حسب منشاء کھانا تیار کریں۔
اگرچہ حضرت شیخ صاحبؓ کی مالی حالت زیادہ مضبوط نہیں تھی مگر اس کے باوجود سلسلہ کی مالی امداد میں حصہ لیتے۔ 6 نومبر 1906ء کو آپؓ کی وفات ہوگئی۔ آپؓ کو بہشتی مقبرہ میں دفن کیا گیا۔
حضرت سید امیر علی شاہ صاحب ؓ
حضرت سید امیر علی شاہ صاحب ملہم ابن سید امام شاہ صاحب سیالکوٹی کے گاؤں سیدانوالی کے رہنے والے تھے۔ آپ صاحب رؤیا و کشف بزرگ تھے اور اسی ذریعہ سے حضورؑ کی صداقت پائی اور 20 فروری 1892ء کو سیالکوٹ میں بیعت کرلی جب حضورؑ وہاں قیام فرما تھے۔ آپؓ نے حضور کی صداقت کے متعلق بہت سے اشتہار بھی شائع کئے۔ ملفوظات میں حضور کی خدمت میں اپنے رئویا کشوف سنانے کا ذکر ملتا ہے۔ آپ نے 23 اکتوبر 1906ء کو اپنے گاؤں سیداں والی میں وفات پائی۔
(نوٹ:۔ سیالکوٹ ہی سے تعلق رکھنے والے ایک اَور صحابی حضرت سید امیر علی شاہ صاحبؓ تھے جو حضورؑ کے 313 صحابہ میں اور بارہ حواریوں میں بھی شامل ہیں۔ آپؓ حضرت خصیلت علی شاہ صاحب کے چھوٹے بھائی تھے۔ )
حضرت سید حبیب الرحمن صاحبؓ آف بریلی
حضرت سید عزیزالرحمن صاحبؓ نے بریلی میں سب سے پہلے 1897ء میں قبول احمدیت کی توفیق پائی۔ آپؓ کے والد حضرت سید حبیب الرحمن صاحب پہلے تو احمدیت کے سخت مخالف تھے اور قبول احمدیت کے جرم میں اپنے بیٹے کو عاق کردیا تھا۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ اگرچہ احمدیوں نے مجھے بہت تسلی اور مبارک باد بھی دی اور کہا کہ کوئی خوف کی بات نہیں مگر میرے دل میں گھبراہٹ تھی۔ میں حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضورؑ اس وقت ٹہلتے جاتے تھے اور ساتھ ہی لکھتے جاتے تھے۔ فرمایا بیٹھ جائو۔ میں ایک پلنگ پر سرہانے کی طرف بیٹھ گیا اور حضور پائینتی کی طرف آکر بیٹھ گئے۔ میں اٹھنے لگا تو فرمایا وہیں بیٹھے رہو۔ تب میں بیٹھ گیااور عرض کی کہ حضور میرے والد نے مجھے عاق کر دیا ہے اور حضور کو بھی سخت سست کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: وہ مجھے جو کچھ بھی کہتے ہیں مگر تم پر اُن کی تا بعداری فرض ہے۔ میں یہ سن کر بہت ڈرا اور اپنے والد صاحب سے جا کر صلح کرلی۔ اس کے بعد اپنے پوتے محمد عبداللہ کی پیدائش کی خوشی میں وہ کپورتھلہ آئے تو میں نے ان کے دائیں بائیں حضورؑ کی کتابیں رکھ دیں۔ ایک صبح فرمانے لگے کہ میں قادیان کو جاتا ہوں۔ میں نے کہا کہ مجھے تنخواہ مل جائے تو آپ جائیں۔ فرمانے لگے میری جیب میں ایک دونی ہے میں اس سے سفر کرلوں گا کیونکہ میں نے گناہ کیا ہے۔ چنانچہ آپ کپورتھلہ سے قادیان تک پیدل ہی آئے اور بیعت کر کے پیدل ہی گئے ۔ جب ان کا انتقال (مئی 1906ء میں) ہوا تو حضرت مسیح موعودؑ نے ان کا جنازہ غائب مسجد اقصیٰ میں پڑھایا۔
حضرت حافظ مولوی عظیم بخش صاحب پٹیالوی ؓ
آپ اصل میں مو ضع بنگہ ضلع ہوشیا رپور کے رہنے والے تھے لیکن پٹیالہ میں تعلیم پاکر وہیں مقیم ہوگئے تھے۔ آپ نابینا تھے لیکن اس کے باوجود نہایت ذی علم اور فارسی و عربی پر کافی دسترس رکھتے تھے۔ آپ نے 1891ء میں حضورؑ کی بیعت کی۔ بیعت کے بعد آپ کو بہت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نہایت استقامت سے ایمان پر قائم رہے۔ آپؓ نے حضورؑ کی تصدیق میں ایک خط اور اپنی ایک فارسی نظم بھیجی جو حضورؑ کی کتاب ’’نشان آسمانی‘‘ میں درج ہے۔
آپؓ جماعت احمدیہ کے دوسرے جلسہ منعقدہ دسمبر 1892 ء میں شامل ہوئے اور حضورؑ نے ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں شاملین جلسہ میں آپؓ کا نام بھی درج فرمایا۔ آپؓ نے 17 فروری1906 ء کو پٹیالہ میں وفات پائی۔
حضرت صاحب نور صاحبؓ افغان
آپؓ حضرت سید عبداللطیف صاحب شہیدؓ کے شاگرد وں میں سے تھے اور حضرت سید احمد نور صاحبؓ کابلی کے بھائی تھے۔ آپ 1902 ء میں اپنے اہل و عیال کے ہمراہ ہجرت کر کے قادیان آگئے اور یہاں 19 ؍اکتوبر 1906 ء کو وفات پائی۔ آپؓ کی وفات سے پہلے حضور کو الہام ہوئے: ’’ایک دم میں رخصت ہوا‘‘ اور ’’پیٹ پھٹ گیا‘‘۔ یہ آپؓ کے حق میں پورے ہوئے۔ آپؓ ایک غریب مزاج شخص تھے اور اکثر قرآن شریف کی تلاوت میں مصروف رہتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ ایسا اخلاص تھا کہ جان و مال سے آپؑ پر قربان تھے۔ آپ کی عمر چالیس سال کے قریب تھی۔ آپ کا وصیت نمبر 114 تھا۔ بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔
حضرت میاں الٰہی بخشی صاحبؓ مالیرکوٹلہ
حضرت میاں الٰہی بخشی صاحبؓ مالیر کوٹلہ کے رہنے والے تھے۔ فوج میں ملازم رہ چکے تھے اور حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ سے بطور اعانت ماہوار وظیفہ پاتے تھے۔ آخری عمر میں حج کی سعادت حاصل کی۔ واپسی پر قادیان آئے تو یہاں بیمار ہوگئے۔ حضورؑ از راہ شفقت آپؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ اگرچہ آپؓ مالیرکوٹلہ جانے کے خواہشمند تھے لیکن حضورؑ کے بوجہ بیماری سفر نہ کرنے کے ارشاد پر اپنا ارادہ ترک کردیا۔ حضورؑ نے آپؓ کے اصرار پر آپؓ کو ایک ڈولی میں سوار کراکے بھی بھجوانے کی تجویز کی تھی لیکن پھر معلوم ہوا کہ ایسا سخت بیمار جس کی زندگی کا اعتبار نہیں، وہ بموجب قانون ریل والوں کے ریل پر سوار نہیں ہو سکتا۔ اسلئے حضورؑ نے دو روپے آپؓ کو بھجوادیئے تاکہ اپنی ضروریات پر خرچ کرلیں۔
9؍ اپریل 1906ء کو بعمر 80 سال آپؓ کی وفات ہوئی۔ حضورؑ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والے آپ دوسرے شخص تھے۔
حضرت امتہ الحمید بیگم صاحبہؓ اہلیہ حضرت نواب محمد علی خانصاحب ؓ
آپ کا اصل نام محترمہ حمید النساء بیگم صاحبہ تھا آپ تقریباًـ 1886ء میں پیدا ہوئیں۔ آپؓ کی بڑی بہن محترمہ مہر النساء بیگم صاحبہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی اہلیہ تھیں۔ 1898 ء میں اُن کی وفات کے بعد آپؓ حضرت نواب صاحب کی زوجیت میں آئیں۔ حضرت نواب صاحبؓ کو آپ سے بہت محبت تھی اور فرماتے تھے کہ میرے ہر حکم کی بلا چون و چرا تعمیل کرتی تھیں اور میرے دینی عزائم اور ارادوں میں کبھی حارج نہیں ہوئیں۔ گو آپ کے بطن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی لیکن اپنی سوتیلی اولاد سے بہترین سلوک کرتی تھیں۔ 1901ء میں حضرت نواب صاحبؓ کے ہمراہ ہجرت کر کے قادیان آگئیں اور یہاں کی تنگی کی زندگی برداشت کرلی۔ ہجرت کے بعد صرف ایک بار 1905 ء میں آپ مالیرکوٹلہ گئیں۔ 27 نومبر 1906 ء کو قادیان میں وفات پائی۔ حضور نے جنازہ پڑھایا اور آپ بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔ آپ کا وصیت نمبر 138 تھا۔ آپ کی وفات کی اطلاع پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے رئویا کے ذریعہ حضور کو دیدی تھی جس کا ذکر ’’حقیقۃالوحی‘‘ میں موجود ہے۔