1910ء میں وفات پانے والے بعض صحابہؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18 دسمبر 2010ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اُن صحابہؓ میں سے چند ایک کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کی وفات 1910ء میں ہوئی۔
حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیروی ؓ
یکے از 313 صحابہ حضرت حاجی حکیم مولوی فضل دین صاحب ولد مکرم کرم الدین صاحب بھیرہ کے رہنے والے تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بچپن کے ساتھیوں میں سے تھے۔ بعثت سے پہلے ہی حضورؑ سے وابستگی تھی۔ حضورؑ کے دعویٰ بیعت کے ساتھ ہی حضور کی غلامی میں آگئے اور اخلاص و وفا میں بہت ترقی کی جس کا ذکر حضرت اقدسؑ نے اپنی بعض کتب میں فرمایا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’از انجملہ اخویم حکیم فضلدین بھیروی ہیں۔ حکیم صاحب ممدوح جس قدر مجھ سے محبت اور اخلاص اور حسن ارادت اور اندرونی تعلق رکھتے ہیں میں اُس کے بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ وہ میرے سچے خیر خواہ اور دلی ہمدرد اور حقیقت شناس مرد ہیں۔ بعد اس کے جو خدا تعالیٰ نے اس اشتہار کے لکھنے کے لئے مجھے توجہ دی اور اپنے الہامات خاصہ سے اُمیدیں دلائیں میں نے کئی لوگوں سے اس اشتہار کے لکھنے کا تذکرہ کیا کوئی مجھ سے متفق الرائے نہیں ہوا۔ لیکن میرے یہ عزیز بھائی بغیر اس کے کہ مَیں ان سے ذکر کرتا خود مجھے اس اشتہار کے لکھنے کے لئے محرّک ہوئے اور اُس کے اخراجات کے واسطے اپنی طرف سے سو روپیہ دیا۔ میں اُن کی فراست ایمانی سے متعجب ہوںکہ اُن کے ارادے کو خداتعالیٰ کے ارادے سے توارد ہوگیا۔ وہ ہمیشہ در پردہ خدمت کرتے رہتے ہیںاور کئی سو روپیہ پوشیدہ طور پر محض اِبْتِغَآء لِمَرْضَاتِ اللہ اس راہ میں دے چکے ہیں۔ خداتعالیٰ انہیں جزائے خیر بخشے‘‘۔
اسی طرح حضور نے اپنی کتاب ’’ازالۂ اوہام‘‘ میں آپ کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’حبّی فی اللہ حکیم فضل دین صاحب بھیروی۔ حکیم صاحب اخویم مولوی حکیم نورالدین کے دوستوں میں سے ان کے رنگ اخلاق سے رنگین اور بہت با اخلاص آدمی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ان کو اللہ اور رسول سے سچی محبت ہے اور اسی وجہ سے وہ اس عاجز کو خادم دین دیکھ کر حبّ لِلّٰہ کی شرط بجا لارہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں دین کی حقانیت کے پھیلانے میں اسی عشق کا وافر حصہ ملا ہے جو تقسیم ازلی سے میرے پیارے بھائی حکیم نورالدین صاحب کو دیا گیا ہے۔ وہ اس سلسلہ کے دینی اخراجات بنظر غور دیکھ کر ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ چندہ کی صورت پر کوئی ان کا احسن انتظام ہوجائے چنانچہ رسالہ ’فتح اسلام‘ جس میں معارف دینیہ کی پنج شاخوں کا بیان ہے انہیں کی تحریک اور مشورہ سے لکھا گیا تھا۔ ان کی فراست نہایت صحیح ہے۔ وہ بات کی تہہ تک پہنچتے ہیں اور ان کا خیال ظنون فاسدہ سے مصفّٰی اور مزکّٰی ہے۔رسالہ ’ازالہ اوہام‘ کے طبع کے ایام میں دو سو روپیہ ان کی طرف سے پہنچا اور ان کے گھر کے آدمی بھی ان کے اس اخلاص سے متأثر ہیں اور وہ بھی اپنے کئی زیورات اس راہ میں محض للہ خرچ کرچکے ہیں۔ حکیم صاحب موصوف نے باوجود ان سب خدمات کے جو ان کی طرف سے ہوتی رہتی ہیں خاص طور پنج روپے ماہواری اس سلسلہ کی تائید میں دینا مقرر کیا‘‘۔
حضرت اقدس کی غلامی میں آنے کے بعد آپ قادیان چلے آئے اور یہیں دُھونی رما کے بیٹھ گئے اور پھر ساری زندگی اس در پر بیٹھے رہے۔ ایک دن آپؓ نے حضورؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ مَیں یہاں نکمّا بیٹھا کیا کرتا ہوں، حکم ہو تو بھیرہ چلا جاؤں، وہاں درس قرآن کریم ہی کروں گا۔ یہاں مجھے بڑی شرم آتی ہے کہ میں حضور کے کسی کام نہیں آتا اور شاید بیکار بیٹھنے میں کوئی معصیت نہ ہو۔ حضورؑ نے فرمایا: ’’آپ کا یہاں بیٹھنا ہی جہاد ہے اور یہ بیکاری ہی بڑا کام ہے‘‘۔
ابتدائی زمانۂ مسیحیت میں ایک دفعہ حضرت حکیم صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ سے عرض کیا کہ حضور مجھے قرآن پڑھایا کریں۔ آپؑ نے فرمایا: اچھا۔ وہ چاشت کے قریب مسجد مبارک میں آجاتے اور حضرت صاحب ان کو قرآن مجید کا ترجمہ تھوڑا سا پڑھا دیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ چند روز ہی جاری رہا۔
جو لوگ حضرت اقدس کے ساتھ مباہلہ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ان میں ایک نام غلام دستگیر قصوری کا بھی ہے۔ حضور علیہ السلام نے حضرت حکیم صاحب کو ان کی طرف بطور سفیر روانہ فرمایا تھا۔
ابتدا میں حضرت مسیح موعودؑ براہ راست خود پریس کی نگرانی اور انتظام فرماتے تھے لیکن جب حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیروی ہجرت کر کے قادیان تشریف لے آئے تو حضورؑ نے پریس کا انتظام حکیم صاحب کے سپرد کردیا۔ آپؓ کے لئے کام نیا تھا مگر آپؓ کی تاجرانہ فراست اور تجربہ کاری نے جلد اس کام کے مالی پہلوؤں کو سمجھ لیا۔
آپؓ بہت ہی متحمل مزاج اور سیر چشم واقعہ ہوئے تھے مگر پریس کے چند پرانے ملازمین کے لئے چشم پوشی کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو نہایت افسوس کے ساتھ حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کی۔ حضورؑ نے نہایت توجہ سے ساری روداد سن کر فرمایا: ’’حکیم صاحب! با ہمیں مردمان بباید ساخت۔ دوسرے بھی تو آدمی ہی ہوں گے۔ اگر یہ کسی اعلیٰ درجہ کے کام کے اہل ہوتے تو یہ کام ہی کیوں کرتے۔ یہ کئی برسوں سے میرے پاس کام کرتے آئے ہیں۔ آخر کام ہوتا ہی آیا ہے۔ یہ پرانے لوگ ہیں آپ چشم پوشی سے کام لیا کریں‘‘۔ حضورؑ کے ارشاد سے سننے والوں کے ایمان میں بھی ترقی ہوئی اور حکیم صاحب کو جو سبق حاصل ہوا اُس نے مدۃالعمر انہیں شکایت کرنے سے باز رکھا ۔
حضرت حکیم صاحبؓ نے تین شادیاں کیں۔ آپ کی پہلی دو بیویاں بے اولاد تھیں لہٰذا حضورؑ نے خود آپؓ کے تیسرے رشتہ کی تجویز فرمائی اور اس سلسلہ میں حضرت میاں شادی خانصاحبؓ سیالکوٹی (یکے از 313 صحابہ۔ وفات 19مارچ 1928ء( کو تحریر فرمایا: ’’محبی اخویم حکیم فضل دین صاحب باوجود دو شادیوں کے اب تک بے اولاد ہیں … آپ کو معلوم ہے کہ کس قدر وہ شریف اور صالح ہیں اور متقی، حافظ قرآن اور علم دین میں خوب ماہر ہیں اور واقعی مولوی ہیں۔ علاوہ ان تمام امورکے دنیوی جمعیت رکھتے ہیں، صاحب املاک و جائداد ہیں‘‘۔
حضرت سردار عبدالرحمن صاحب سابق مہر سنگھ بیان کرتے ہیں کہ طاعون کے ایام میں ایک روز حکیم صاحب کو بخار ہوگیا۔ میں نے حضور علیہ السلام کو اطلاع دی کہ حکیم فضل دین صاحب بہت گھبرا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے طاعون ہوگئی ہے۔ حضورؑ نے فرمایا کہ: ’’ہمارے گھر میں تو اب بالکل جگہ نہیں ہے۔ چھوٹے سے گھر میں کئی خاندان گزر کر رہے ہیں، آپ ان کو کہیں کہ مسجد مبارک بھی ہمارے دار ہی میں شامل ہے، اس میں آکر ڈیرہ لگالیں‘‘۔ میں اُسی وقت حکیم صاحب کا بستر وغیرہ خود اٹھا کر مسجد مبارک میں لے آیا۔ وہ آکر لیٹ رہے۔ قریباً عشاء کے وقت وہ سوگئے۔ صبح کو بخار کا نام و نشان نہ رہا اور حکیم صاحب تندرست ہوگئے۔ یہ حضورؑ کے احیاء موتیٰ کی ایک اور مثال ہے۔
حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی عیادت کے لیے 1888ء میں حضورعلیہ السلام جموں تشریف لے گئے تھے۔ اس بیماری کی اطلاع حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حضرت حکیم صاحبؓ نے ہی دی تھی۔
حضرت حکیم فضل دین صاحبؓ بھیروی حضورؑ کے کتب خانہ کے مہتمم اور سپرنٹنڈنٹ مدرسہ احمدیہ بھی رہے۔ اس کے علاوہ لنگر خانہ حضرت مسیح موعودؑ کا کام آپ کے سپرد تھا۔ آپ نے 8؍اپریل 1910ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ ابتدائی موصیان میں سے تھے۔ وصیت نمبر 42تھا۔
…………………………
حضرت سید احمد علی شاہ صاحبؓ
ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں ’’مالومہے‘‘ کے تین بھائیوں حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحب، حضرت سید امیر علی شاہ صاحب اور حضرت سید احمد علی شاہ صاحب کو حضرت مسیح موعودؑکے کبار صحابہؓ میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہے۔ تینوں بھائیوں کے نام حضورؑ نے ’انجام آتھم‘ میں 313 صحابہ کی فہرست میں درج فرمائے ہیں۔
رجسٹر بیعت اولیٰ کے مطابق حضرت سید احمد علی شاہ صاحب ولد سید ہدایت علی شاہ صاحب نے 20فروری 1892ء کو بیعت کی توفیق پائی۔
7مارچ 1907ء کو حضور کو الہام ہوا: پچیس دن یا یہ کہ پچیس دن تک ۔ جس سے تفہیم ہوئی کہ آئندہ پچیس دنوں تک جو 31مارچ تک بنتے ہیں کوئی نیا واقعہ ظاہر ہونے والا ہے۔ چنانچہ 31 مارچ 1907ء کو آسمان سے ایک شہاب ثاقب قریباً 3بجے دوپہر ٹوٹا جو ملک میں ہر جگہ دیکھا گیا۔ حضور نے اپنی الہامی پیشگوئی کا ذکر اپنی کتاب ’حقیقۃ الوحی‘ میں کرتے ہوئے پچاس سے زائد گواہیاں بھی درج فرمائی ہیں جو بذریعہ خطوط حضور اقدسؑ کو موصول ہوئیں ، اس میں پہلی درج گواہی حضرت شاہ صاحبؓ ہی کی ہے۔
آپ کی وفات کی اطلاع اخبار ’الحکم‘ 7 فروری 1910ء میں شائع ہوئی ہے۔
…………………………
حضرت میاں قطب الدین خان صاحبؓ
یکے از 313 صحابہ حضرت میاں قطب الدین خاں صاحب مس گر امرتسر ولد میاں شیر محمد خاں صاحب قوم افغان امرتسر کے ابتدائی چند احمدیوں میں سے تھے۔ آپ نے 1891ء میں احمدیت قبول کی۔ رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کی بیعت کا اندراج 172 نمبر پر موجود ہے۔
حضرت اقدسؑ کی کتاب ’نزول المسیح‘ میں آپؓ کا نام حضورؑ کے بعض نشانات کے گواہ کے طور پر درج ہے۔ ’کتاب البریہ‘ میں بھی مقدمہ پادری ہنری مارٹن کلارک کے ضمن میں عبدالحمید نامی شخص کے بیان میں جو حضورؑ کے مرید قطب الدین کا ذکر ہے، وہ آپ ہی ہیں۔ نیز حضورؑ نے اپنی کتاب ’انجام آتھم‘ میں بیان کردہ اپنے 313 صحابہ میں آپؓ کا نام انیسویں نمبر پر درج فرمایا ہے۔
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی لنگرخانہ قادیان کی ابتدائی تاریخ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضورؑ کے زمانہ میں جب دیگیں خریدنے کی ضرورت پیش آئی تو یہ مستری قطب الدین صاحب امرتسری مس گر کے ذریعہ خریدی جاتی تھیں۔
آپؓ نے اپریل 1910ء میں وفات پائی۔
آپ کے ایک بیٹے محترم محمد ابراہیم خان صاحب مس گر نے 22فروری 1931ء کو بعمر 52سال وفات پائی، وہ موصی (وصیت نمبر 3101) تھے۔ اسی طرح ایک پوتے مکرم بابو نور احمد خان صاحب کی وفات کا ذکر اخبار الفضل 22جنوری 1957ء صفحہ 6پر موجودہے۔
…………………………
حضرت مولوی محمد صادق صاحبؓ
حضرت مولوی محمدصادق صاحب ولد مولوی محمد عبداللہ صاحب موضع سرگال ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے مولوی فاضل اور منشی فاضل کا امتحان پاس کیا اور1890ء میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ (جو اُن دنوں ریاست جموں و کشمیرکے شاہی طبیب تھے) کی سفارش سے ریاست جموں کے ہائی سکول میں فارسی کے مدرّس مقرر ہوئے۔ حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ بھی ان دنوں اسی سکول میں مدرس تھے۔ جموں میں ہی حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ’فتح اسلام‘ پہنچی جو آپ نے اور حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ نے مل کر پڑھی جس کے بعد حضرت مفتی صاحبؓ نے 31؍ جنوری 1891ء کو قادیان جاکر بیعت کرلی۔ اگلے سال حضرت مفتی صاحب کے ہمراہ حضرت مولوی محمدصادق صاحبؓ اور حضرت خان بہادرغلام محمدخان صاحبؓ گلگتی (وفات 26؍ جون1956ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) نے بھی قادیان آکر 20؍جنوری 1892ء کو بیعت کرنے کی سعادت پائی۔ آپؓ کی بیعت کا اندراج رجسٹر بیعت اولیٰ میں درج ہے۔
ابھی آپؓ بیعت کے بعد قادیان میں ہی قیام پذیر تھے کہ حضرت مسیح موعودؑنے جنوری 1892ء ہی میں لاہور کا سفرا ختیارفرمایا۔ چنانچہ آپؓ کو بھی حضور علیہ السلام کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا۔ لاہور ایک دو دن ٹھہر کر آپؓ جمّوں چلے گئے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑکی بعض تحریرات میں آپ کا ذکر بھی محفوظ ہے۔ گورنمنٹ کے نام اپنے دو اشتہاروں میں حضورنے اپنی جماعت کے اسماء بطورنمونہ پیش کئے ہیں۔ آپ کا نام ’’آریہ دھرم‘‘ و’’کتاب البریہ‘‘ دونوں کی اسماء کی فہرستوں میں درج ہے۔ جون1897ء میں ملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جوبلی منائی گئی۔ اس سلسلے میں قادیان میں بھی ایک جلسہ ڈائمنڈ جوبلی 20 تا 22 جون 1897ء منعقد ہوا جس کی کارروائی ’’جلسہ احباب‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ شاملین جلسہ میں آپ کا نام بھی 39ویں نمبر پر درج ہے۔
کتاب’سراج منیر‘ میں حضور نے ’فہرست آمدنی چندہ برائے طیاری مہمان خانہ و چاہ وغیرہ‘ عنوان کے تحت چندہ دینے والوں کے نام لکھے ہیں۔ حضرت مولوی محمدصادق صاحبؓ کا نام 41ویں نمبر پر درج ہے۔
آپ حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ ایک ہی سکول میں مدرس تھے۔ اخبارالحکم کی اشاعت کو وسیع کرنے کی تحریک ہوئی تو حضرت مفتی صاحبؓ نے آپؓ کے نام اخبار لگوادیا۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب جموں میں ملازمت کے دور کی ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ جب کتاب ’ازالۂ اوہام‘ شائع ہوئی تو اس میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے مریدین کے نام بھی لکھے تھے اور اس میں میرا نام بھی نمبر 66 پر تھا۔ تب حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے جو ہمیں ہر رنگ میں ترقی کرنے کی تحریص دلایا کرتے تھے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ مفتی صاحب! آپ کا نام تو نمبر 66 پر ہے۔ کیا اتنے نمبرپر بھی کوئی پاس ہوسکتا ہے؟ تب مولوی محمدصادق صاحبؓ نے عرض کی کہ فیل ہونے والوں کے تو نام نہیں شائع ہوئے صرف پاس ہونے والوں کے نام شائع ہوا کرتے ہیں۔ اس پر حضرت مولوی صاحبؓ تبسم کرکے خاموش ہورہے۔
مارچ 1910ء میں حضرت مولوی محمد صادق صاحبؓ نے جموں میں وفات پائی۔ آپ کی وفات پرحضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ نے لکھا: ’’ہمارے ایک پرانے دوست جناب مولوی محمدصادق صاحب پروفیسر پرنس آف ویلز کالج جموں قریباً 45 سال کی عمر میں جموں میں ہی وفات پاگئے۔ مرحوم پنجاب یونیورسٹی کے مولوی فاضل و منشی فاضل تھے اور 1890ء میں … جموں میں ملازم ہوئے تھے۔ آپؓ اپنی وسعت کے مطابق خدمات دینی میں حصہ لیتے تھے۔ آپ کے ضعیف باپ اور چھوٹے بچوں کے واسطے یہ صدمہ بہت سخت ہے۔
…………………………
صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب
19؍ اگست 1910ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کے صاحبزادے مرزا حمید احمد صاحب نے سوا دو سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔
…………………………
حضرت جنت بی بی صا حبہؓ
حضرت جنت بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت ماسٹر ماموں خانصاحب (وفات21؍اپریل 1961ء بہشتی مقبرہ ربوہ) حضرت مسیح موعودؑ کی قبولیت دعا کا ایک نشان تھیں جسے دیکھ کر حضرت ماسٹر صاحب کا باقی گھرانہ بھی مخالفت چھوڑ کر احمدی ہوگیا۔ اس نشان کی تفصیل حضرت ماسٹر صاحبؓ یوں بیان فرماتے ہیں کہ اتفاقاً حضرت جنّت بی بی صاحبہ کو دق کی مرض ہوگئی۔ میرے والدین سلسلہ کے سخت مخالف تھے انہوں نے مجھے طعنے دینے شروع کئے کہ دیکھا احمدی ہونے کی سزا تجھے مل گئی اور تیری بیوی کو دق کی مرض ہو گئی۔ مَیں نے اس بات کا ذکر حضرت مسیح موعودؑ سے کیا تو حضورؑ نے فرمایا: بار بار دعا کے لئے مجھے یاد کراؤ انشاء اللہ صحت ہو جائے گی اور تمہارے والدین بھی تم سے خوش ہوجائیں گے۔ خدا ان کو بھی ایما ن نصیب کرے گا میں دعا کروں گا۔
چنانچہ میں دعا کے لئے روزانہ رقعہ پیش کر دیتا تھا میری بیوی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے زیرعلاج تھی۔ خدا کے فضل سے اس کو اس موذی مرض سے صحت ہو گئی اور حضرت اقدسؑ کی دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک لڑکا عطا فرمایا جس کا نام عبد الرحمن خان شاہد ہے … میرے والد صاحب بھی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے اور احمدیت پر ہی ان کی وفات ہوئی۔
آپ میاں بیوی دونوں کفایت شعار اور قناعت پسند تھے۔ حضورؑ کی زندگی میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں ڈرل ماسٹر کی ضرورت ہوئی تو حضرت ماموں خان صاحبؓ نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا۔ اس وقت سکول کے پریذیڈنٹ حضرت مولوی محمد علی صاحب نے پوچھا کہ تم کم سے کم کیا تنخواہ لو گے؟ آپؓ نے کہا کہ میرا اور میری بیوی کا خرچ خوراک 20روپے ماہوار ہے اگر یہ دے دیا جائے تو میں حاضر ہو جاتا ہوں۔ (اصل گریڈ 45 روپے ماہوار تھا)۔ چنانچہ فوراً ایک ریزو لیوشن پاس کر کے آپ کو اطلاع دی اور آپ قادیان آگئے۔
حضرت جنت بی بی صاحبہؓ نے 5 مارچ 1910ء کو وفات پائی۔ آپؓ کا یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے۔
…………………………
حضرت احمد بی بی صاحبہؓ
حضرت شیخ علی محمد صاحبؓ (وفات 17؍دسمبر 1915ء ۔ مدفون بہشتی مقبرہ قادیان) ڈنگہ ضلع گجرات کے رہنے والے تھے جن کی بیٹی حضرت زینب بی بی صاحبہ کی شادی حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانیؓ کے ساتھ ہوئی۔ حضرت زینب بی بی صاحبہؓ کی چھوٹی بہن حضرت احمد بی بی صاحبہ نے 7 نومبر 1910ء کو بعمر پندرہ سال وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔ آپ شادی شدہ نہیں تھیں۔
…………………………
مائی مہرو صاحبہؓ
مہرو بی بی صاحبہ بیوہ صلاح الدین صاحب سیکھواں ضلع گورداسپور کی رہنے والی تھیں۔ ایک غریب اور ناخواندہ عورت تھیں اور حضرت مسیح موعودؑ کے گھر میں بطور خادمہ کام کرتی تھیں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے گھر میں ایک خادمہ عورت مہرو رہتی تھی۔ وہ بیچاری گاؤں کی رہنے والی تھی اور ان الفاظ کو نہ سمجھتی تھی جو ذرا زیادہ ترقی یافتہ تمدن میں مستعمل ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے اسے فرمایا کہ ایک خلال لاؤ۔ وہ گئی اور ایک پتھر کا ادویہ کوٹنے والا کھرل اُٹھا لائی جسے دیکھ کر حضرت صاحب بہت ہنسے۔ اسی طرح ایک دفعہ میاں غلام محمد کاتب امرتسری نے دروازہ پر دستک دی اور کہا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کرو کہ کاتب آیا ہے۔ یہ پیغام لے کر وہ حضرت صاحب کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ حضور قاتل دروازے پر کھڑا ہے اور بلاتا ہے۔ حضرت صاحب بہت ہنسے۔
محترمہ مہرو بی بی صاحبہ بفضل اللہ تعالیٰ نظام وصیت میں شامل تھیں(وصیت نمبر 124)۔21مئی 1910ء کو قادیان میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہونے کی سعادت پائی۔
……………………
ان بزرگان کے علاوہ جن متوفّیان کو بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہونے کی سعادت ملی، ان میں مکرم غلام حسن صاحب ابن حضرت چوہدری حاکم علی صاحب چک پنیار (وفات 18 مارچ 1910ء بعمر 15سال۔ باجازت حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ بہشتی مقبرہ میں دفن کیے گئے)۔ محترمہ حسن بی بی صاحبہ زوجہ محترم محمد رمضان صاحب (وفات 15؍اپریل 1910ء بعمر 60سال)۔ محترمہ سعیدہ بنت حضرت پیر افتخار احمد صاحب (وفات 20دسمبر 1910ء بعمر 18سال) اور مکرم مولوی بدرالدین صاحب ضلع ہوشیارپور (وفات 15ستمبر 1910ء ۔ آپ کا یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے۔) ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں