تعارف کتاب : سیرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ‘‘

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

تعارف کتاب : ’’سیرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ‘‘

تصنیف حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ

حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ
مبصّر:محمود احمد ملک

آج ہمارے زیرنظر ایک مختصر سی کتاب ’’سیرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام‘‘ ہے جو ۱۹۰۰ء میں ’’مسلمانوں کے لیڈر‘‘ حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی نے اپنے مشاہدات کے حوالے سے تحریر فرمائی تھی۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ غیرتِ دینی میں اپنی مثال آپ تھے۔ قرآن کریم سے آپؓ کو والہانہ عشق تھا۔ ایک بار آپؓ نے فرمایا: ’’قرآن کریم کے لیے روح ایسی غیرت محسوس کرتی ہے کہ … اگر قرآن شریف کے سامنے کوئی اَور دوسری کتاب پڑھتا ہو تو مجھے ایسا ہی جوش آتا ہے کہ کیوں یہ اس کتاب کو دیکھ رہا ہے۔ کیا کلام اللہ سے بڑھ کر اس کو راحت رساں اور دلچسپ پاتا ہے۔‘‘
یہی عشقِ قرآن تھا کہ جب آپ امریکن مشن سکول میں استاد تھے تو ایک دن عیسائی اساتذہ اور طلبہ سے تبادلہ خیال کے دوران جب کسی نے قرآن کریم کا بائبل سے موازنہ کرتے ہوئے قرآن کریم کے بارے میں دلآزار کلمات کہے تو آپؓ نے اُس کو خوب سرزنش کی۔ جس کے نتیجہ میں آپؓ کو سکول انتظامیہ نے فارغ کردیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فوراً ہی آپؓ کی دوسری ملازمت کا بندوبست کردیا۔ اس واقعہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعودؑ لکھتے ہیں: ’’ان کی عمر ایک معصومیت کے رنگ میں گزری تھی اور دنیا کی عیش کا کوئی حصہ انہوں نے نہیں لیا تھا۔ نوکری بھی انہوں نے اسی واسطے چھوڑ دی تھی کہ اس میں دین کی ہتک ہوتی ہے۔‘‘
قبول احمدیت کے بعد آپؓ حضرت اقدسؑ کی محبت میں اس قدر محو ہوئے کہ اپنے محبوب امام کی رائے کے خلاف سوچنا بھی کفر سمجھتے تھے۔ آپؓ فرمایا کرتے: ’’مَیں جو 1890ء سے یہاں (یعنی قادیان میں)رہتا ہوں۔ خلوت میں جلوت میں ہر حال میں آدھی آدھی رات تک اپنے امام کی گفتگو سنی ہے۔ مَیں خوب جانتا ہوں کہ میری روح نے دھوکہ نہیں کھایا ہے۔‘‘
حضرت مولوی صاحبؓ کو تحریر و تقریر کا زبردست ملکہ تھا۔ چنانچہ حضرت اقدسؑ کے تقریباً تمام پبلک لیکچر آپ کی زبان سے ہی عوام الناس کے دلوں کی آواز ٹھہرے۔ آپؓ نے نہ صرف کئی لطیف تصانیف تحریر فرمائیں بلکہ حضرت اقدسؑ کی بعض کتب کا ترجمہ کرنے کی سعادت بھی پائی۔ اسی طرح حضور علیہ السلام کی طرف سے عربی کتب و رسائل کی تصنیف و تقریر کا ایک سبب آپؓ کی فرمائش بھی تھی۔ چنانچہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’اپنے ابتدائی ایام میں تصانیف میں حضرت صاحب نے کوئی کتاب عربی زبان میں نہیں لکھی تھی بلکہ تمام تصانیف اردو میں یا نظم کا ایک حصہ فارسی میں لکھا۔ ایک دفعہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے عرض کیا کہ حضور کچھ عربی میں بھی لکھیں تو بڑی سادگی اور بےتکلّفی سے فرمایا کہ مَیں عربی نہیں جانتا۔ مولوی صاحب بےتکلّف آدمی تھے۔ انہوں نے پھر عرض کیا: مَیں کب کہتا ہوں کہ حضورؑ عربی جانتے ہیں۔ میری غرض تو یہ ہے کہ کوہ طور پر جائیے اور وہاں سے کچھ لائیے۔ فرمایا: ہاں میں دعا کروں گا۔ اس کے بعد آپؑ تشریف لے گئے اور جب دوبارہ باہر تشریف لائے تو ہنستے ہوئے فرمایا کہ مولوی صاحب! مَیں نے دعا کرکے عربی لکھنی شروع کی تو بہت ہی آسان معلوم ہوئی۔ چنانچہ پہلے مَیں نے نظم ہی لکھی اور کوئی سو شعر عربی میں لکھ کر لے آیا ہوں۔‘‘
حضرت اقدسؑ کی کتاب ‘التبلیغ’ میں شامل عربی مکتوب بھی حضرت مولوی صاحبؓ کے توجہ دلانے پر ہی شاہکار بنا۔ خطبہ الہامیہ بھی آپؓ کی وجہ سے رہتی دنیا تک معجزہ بن گیا۔ جب فونوگراف کی ایجاد ہوئی تو حضرت مولوی صاحبؓ کی دلکش آواز میں پہلے سورۃالانبیاء کا آخری رکوع ریکارڈ کیا گیا پھر آپؓ نے حضورؑ کی اِس نظم کے دو اشعار مترنم آواز میں پڑھے:

آواز آ رہی ہے یہ فونوگراف سے

اسی طرح حضور علیہ السلام کا نعتیہ کلام :

عجب نوریست در جان محمدؐ

بھی آپؓ ہی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔
حضرت مولوی صاحبؓ کی آخری بیماری کے دوران حضور علیہ السلام کو الہاماً بتایا گیا کہ دو شہتیر ٹوٹ گئے۔ جب 11؍اکتوبر 1905ء کو حضرت مولوی صاحبؓ کی وفات ہوئی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا: ’’بڑے ہی مخلص اور قابل قدر انسان تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی یہی مرضی تھی۔ اگرچہ بشریت کے لحاظ سے صدمہ ہوتا ہے مگر ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر خوش ہیں۔ اس نے ہماری تسلّی کے لیے پہلے سے ہی بتا دیا تھا۔‘‘ پھر کچھ ہی عرصہ بعد 3؍دسمبر 1905ء کو حضرت مولوی برہان الدین صاحبؓ جہلمی بھی وفات پاگئے۔ ان بزرگوں کے جانشین پیدا کرنے کے لیے حضرت اقدسؑ نے مدرسہ احمدیہ کی بنیاد رکھی جس کی موجودہ شکل جامعہ احمدیہ ہے۔
حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ اخبار ’’الحکم‘‘ میں ہفتہ وار ایک خط لکھا کرتے تھے۔ان خطوط میں سے بعض میں حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت کے واقعات بھی تحریر فرماتے تھے۔ یہی خطوط بعدازاں ’’سیرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی زیرنظر کتاب کی بنیاد بنے۔ ۶۴؍صفحات پر مشتمل اپنی اس کتاب کے ابتدائیہ میں آپؓ خود فرماتے ہیں کہ سیرت مسیح موعودؑ پر لکھنا اور چند صفحوں پر قناعت کرنا لاریب تعجّب انگیز بات ہے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ مَیں نے جو کچھ لکھا ہے اس سے زیادہ نہیں کہ دوستوں کے لیے ایک راہ تیار کی ہے۔ اس میں جو کچھ مَیں نے لکھا ہے اپنے سچے وجدان اور ایمان اور واقعی تجربوں کا نچوڑ ہے۔ مدّت دراز کی تحقیق اور راستی کی تائید اور نصح اخوان نے مجھے مجبور کیا کہ قوم کی خدمت میں اس پیرایہ میں چند باتیں عرض کروں شاید کوئی رشید اس نُور اور حق کی معرفت سے بہرہ مند ہوجائے۔ اس رسالہ کی تالیف سے میری اصلی غرض یہ ہے کہ مَیں یہ دکھادوں کہ وہ شخص کیسا ہونا چاہیے جس کے ہاتھ میں ہم ایمان جیسی گرامی قدر امانت سپرد کریں۔ مَیں نے رسول کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو مدّنظر رکھ کر اور اسی کو بِنا قرار دے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت لکھی ہے۔ مَیں نے تکلّف سے کوشش نہیں کی بلکہ حقیقت الامر یہ ہے کہ ہمارے محبوب امام مہدیؑ کی فطرت دست قدرت سے ایسی ہی بنائی گئی ہے کہ آپؑ سے اضطراراً وہی افعال و اقوال سرزد ہوتے ہیں جو آپؑ کے متبوع و مقتدا نبی کریمﷺ سے ہوئے۔
حضرت مولوی صاحبؓ نے مضمون کے آغاز میں زمانہ حال کے اندرونی مفاسد کو بیان فرمایا ہے جو طبعاً ایک مصلح کے مقتضی ہیں۔ فسق و فجور کی کثرت اور مسلمانوں میں تفرقہ، جس نے اُمّت کو بہتّر فرقوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ حتّٰی کہ سب سے بڑا مفسدہ صوفیوں اور سجادہ نشینوں کا ہے جن میں سے اکثر کو مطلق خبر نہیں کہ سنّت کیا اور بدعت کیا ہے۔ نصاریٰ اور آریہ نے ایسی گندی اور ناپاک کتابیں اسلام اور آنحضورﷺ کے خلاف شائع کی ہیں کہ ان کے پڑھنے سے غیور مسلمان کے بدن پر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ غرض ایک طوفان عظیم برپا ہے اور کشتیٔ اسلام تلاطم میں ہے۔ پس ضروری ہے کہ اس وقت مصلح آوے۔

حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے حُسنِ معاشرت اور اہل و عیال سے حسن سلوک کا بیان کرتے ہوئے حضرت مولوی صاحبؓ اپنے آقاؑ کے شب وروز کو یوں بیان فرماتے ہیں: اس بات کو اندرونِ خانہ کی خدمتگار عورتیں جو عوا م الناس سے ہیں اورفطری سا دگی اور انسانی جامہ کے سوا کوئی تکلّف اور تصنّع کی زیرکی اوراستنباطی قوت نہیں رکھتیں بہت عمدہ طرح سے محسوس کرتی ہیں وہ تعجب سے دیکھتی ہیں اور زما نہ اور اپنے گردو پیش کی عام عرف اور برتاؤ کے بالکل برخلاف دیکھ کر بڑے تعجب سے کہتی ہیں اور مَیں نے با رہا انہیں خود حیرت سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ’’مِرِجا بیوی دی گل بڑی مندا اے۔‘‘ ایک دن خود حضرتؑ فرماتے تھے کہ ’’فحشاء کے سوا با قی تما م کج خلقیا ں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں‘‘ اور فرمایا: ’’ہمیں تو کما ل بےشرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہوکر عورت سے جنگ کریں۔ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ درحقیقت ہم پر اتما م نعمت ہے، اس کا شکریہ ہے کہ عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں۔‘‘ ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بدزبانی کا ذکر ہوا کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے۔ حضرت اس بات سے بہت کشیدہ خاطر ہوئے اور فرمایا: ’’ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہیے۔‘‘
ایک بار آپؑ سردرد سے بیمار تھے۔ منشی عبدالحق صاحب نے کمال محبت کی بِنا پر عرض کیا کہ آپ کا کام بہت نازک اور آپ کے سر پر بھاری فرائض کا بوجھ ہے۔ آپ کو چاہیے کہ جسم کی صحت کی رعایت کا خیال کریں اور ایک خاص مقوّی غذا لازماً آپ کے لیے ہر روز تیار ہونی چاہیے۔ حضرت نے فرمایا: ’’ہاں بات تو درست ہے اور ہم نے کبھی کبھی کہا بھی ہے مگر عورتیں کچھ اپنے ہی دھندوں میں ایسی مصروف ہوتی ہیں کہ اَور باتوں کی چنداں پروا نہیں کرتیں۔‘‘ وہ کہنے لگے: ’’اجی حضرت آپ ڈانٹ ڈپٹ کر نہیں کہتے اور رعب پیدا نہیں کرتے۔ میرا یہ حال ہے کہ مَیں کھانے کے لیے خاص اہتمام کیا کرتا ہوں اور ممکن ہے کہ میرا حکم کبھی ٹل جائے اور میرے کھانے کے اہتمامِ خاص میں کوئی سرمُو فرق آجائے ورنہ ہم دوسری طرح خبر لےلیں۔‘‘ چونکہ یہ بات بظاہر میرے محبوب و آقاؑ کے حق میں تھی اور مَیں خود فرط محبت سے اسی سوچ و بچار میں رہتا تھا اس لیے اُن کی تائید میں بول اٹھا کہ ہاں، منشی صاحب درست فرماتے ہیں، حضور کو چاہیے کہ درشتی سے یہ امر منوائیں۔ حضرتؑ نے میری طرف دیکھا اور تبسّم سے فرمایا: ’’ہمارے دوستوں کو تو ایسے اخلاق سے پرہیز کرنا چاہیے۔‘‘ پھر آپؑ معاشرتِ نسواں کے بارے میں دیر تک گفتگو فرماتے رہے اور آخر میں فرمایا: ’’میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ مَیں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور مَیں محسوس کرتا تھا کہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور باایں ہمہ کوئی دلآزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا۔ اس کے بعد مَیں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع و خضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیتِ الٰہی کا نتیجہ ہے۔‘‘ مجھے اس بات کے سننے سے اپنے حال اور معرفت اور عمل کا خیال کرکے کس قدر شرم اور ندامت حاصل ہوئی بجز خدا کے کوئی جان نہیں سکتا۔ میری روح میں اس وقت میخِ فولادی کی طرح یہ بات جاگزیں ہوئی کہ یہ غیرمعمولی تقویٰ اور خشیۃاللہ اور دقائق تقویٰ کی رعایت معمولی انسان کا کام نہیں۔ اگر اَور ہزاروں حجّتیں آپؑ کے منجانب اللہ ہونے پر نہ بھی ہوتیں جب بھی یہی ایک بات کہ غیرمعمولی تقویٰ اور خشیۃاللہ آپؑ میں ہے، کافی دلیل تھی۔
مَیں نے دیکھا ہے کہ حضرت اقدسؑ نازک مضمون لکھ رہے ہیں اور پاس ہنگامۂ قیامت برپا ہے۔ بےتمیز بچے اور سادہ عورتیں جھگڑ رہی ہیں مگر حضرت کام میں یوں مستغرق ہیں کہ گویا خلوت میں بیٹھے ہیں۔ یہ ساری لانظیر اور عظیم الشان کتابیں عربی، اردو، فارسی کی ایسے ہی مکانوں میں لکھی ہیں۔ مَیں نے ایک دفعہ پوچھا: اتنے شور میں حضوؑر کو لکھنے میں یا سوچنے میں ذرا بھی تشویش نہیں ہوتی۔ مسکراکر فرمایا: ’’مَیں سنتا ہی نہیں، تشویش کیا ہو اور کیونکر ہو۔‘‘
محمودؔ (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) چار ایک برس کا تھا۔ حضرت معمولاً اندر بیٹھے لکھ رہے تھے۔ میاں محمود دیا سلائی لے کر وہاں تشریف لائے اور آپ کے ساتھ بچوں کا ایک غول بھی تھا۔ پہلے کچھ دیر تک آپس میں کھیلتے جھگڑتے رہے پھر جو کچھ دل میں آئی ان مسوّدات کو آگ لگا دی اور آپ لگے خوش ہونے اور تالیاں بجانے۔ اور حضرت لکھنے میں مشغول ہیں، سر اٹھاکر دیکھتے بھی نہیں کہ کیا ہو رہاہے۔ اتنے میں آگ بجھ گئی اور قیمتی مسوّدے راکھ کا ڈھیر ہوگئے اور بچوں کو کسی اَور مشغلہ نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ حضرت کو سیاق و سباق عبارت کے ملانے کے لیے کسی گزشتہ کاغذ کے دیکھنے کی ضرورت پیش آئی۔ پوچھتے ہیں تو سب خاموش! آخر ایک بچہ بول اٹھا کہ میاں صاحب نے کاغذ جلا دیے۔ گھر کے سب لوگ حیران اورانگشت بدنداں کہ اب کیا ہوگا اور درحقیقت مکروہ نظارہ کے پیش آنے کا گمان تھا۔ مگر حضرت مسکراکر فرماتے ہیں: ’’خوب ہوا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بڑی مصلحت ہوگی اور اب خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے۔‘‘
ایک دفعہ اتفاق ہوا کہ جن دنوں حضرت صاحب ’’تبلیغ‘‘ لکھا کرتے تھے، حضرت صاحب نے ایک بڑا دوورقہ مضمون لکھا اور اس کی فصاحت وبلاغتِ خداداد پر حضرت صاحب کونازتھا اور وہ فارسی ترجمہ کے لیے مجھے دیناتھا مگر یاد نہ رہا اور جیب میں رکھ لیا اور باہر سیر کو چل دیے۔ مولوی نورالدین صاحب اور جماعت بھی ساتھ تھی۔ واپسی پر کہ ہنوز راستہ میں ہی تھے، وہ کاغذ مولوی صاحب کے ہاتھ میں دے دیا کہ وہ پڑھ کر عاجز راقم کو دے دیں۔ مولوی صاحب کے ہاتھ سے مضمون گرگیا۔ واپس ڈیرہ میں آئے اور بیٹھ گئے۔ حضرت صاحب معمولاً اندر چلے گئے۔ مَیں نے کسی سے کہا کہ آج حضرت صاحب نے مضمون نہیں بھیجا اورکاتب سر پرکھڑا ہے اور ابھی مجھے ترجمہ بھی کرنا ہے۔ مولوی صاحب کو دیکھتاہوں تو رنگ فق ہو رہا ہے۔ حضرت صاحب کو خبر ہوئی۔ حسب معمول ہشاش بشاش چہرہ، تبسم ریز لب تشریف لائے اور بڑا عذر کیا کہ مولوی صاحب کو کاغذ کے گم ہونے سے بڑی تشویش ہوئی۔ مجھے افسوس ہے کہ اس کی جستجو میں اس قدر تگاپو کیوں کیا گیا۔ میراتو یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بہتر عطا فرمادے گا۔
ایک دفعہ آپؑ کو سخت دردِ سر تھا اور پاس حد سے زیادہ شوروغل برپا تھا۔ مَیں نے عرض کیا: جناب کو اس شور سے تکلیف تو نہیں ہوتی؟ فرمایا: ہاں اگر چپ ہوجائیں تو آرام ملتا ہے۔ مَیں نے عرض کیا: تو جناب کیوں حکم نہیں کرتے؟ فرمایا: آپ ان کو نرمی سے کہہ دیں، مَیں تو کہہ نہیں سکتا۔
بڑی سخت بیماریوں میں ایک کوٹھڑی میں ایسے خاموش پڑے ہیں کہ گویا مزے میں سو رہے ہیں۔ کسی کا گلہ نہیں کہ تُو نے ہمیں کیوں نہیں پوچھا اور تُو نے ہماری خدمت نہیں کی۔ جو طمانیت اور کسی کو بھی آزار نہ دینا حضرت کے مزاج مبارک کو صحت میں حاصل ہے وہی سکون حالتِ بیماری میں بھی ہے۔
ایک عورت نے اندر سے کچھ چاول چرائے۔چور کا دل نہیں ہوتااوراس لیے اس کے اعضاء میں غیر معمولی قسم کی بےتابی اور اس کا اِدھر اُدھر دیکھنابھی خاص وضع کا ہوتا ہے۔ کسی دوسرے تیز نظر نے تاڑ لیا اور پکڑلیا۔شور پڑگیا۔ اس کی بغل سے کوئی پندرہ سیر کی گٹھڑی چاولوں کی نکلی۔ اِدھر سے ملامت اُدھر سے پھٹکار ہورہی تھی۔جو حضرتؑ کسی تقریب سے ادھر آنکلے۔پوچھنے پر کسی نے واقعہ کہہ سنایا تو فرمایا: ’’محتاج ہے کچھ تھوڑے سے اسے دے دو اور فضیحت نہ کرو اور خدا تعالیٰ کی ستّاری کا شیوہ اختیار کرو۔‘‘
کبھی کسی خدمت گار کو ڈانٹا نہیں، کسی سے لین دین کے متعلق بازپرس نہیں کی، سوداسلف لانے پر حساب کتاب نہیں کیا۔ جو بقیہ کسی نے دیا خاموشی سے جیب میں ڈال لیا۔ اگر کسی عارضے کے سبب کسی خاص چیز کے تیار کرنے کی فرمائش کی بھی تو اُس کے انتظار میں یا کام کی مصروفیت میں اگر کھانے کا وقت بھی گزرگیا اور وہ چیز نہ مہیا کی گئی تو بھی کوئی گرفت نہیں کی۔ نرمی سے پوچھا اور عذر کیا گیا کہ دھیان نہیں رہا تو مسکراکر الگ ہوگئے۔
حضرت کا حوصلہ اور حلم یہ ہے کہ مَیں نے سینکڑوں مرتبہ دیکھا ہے کہ دالان میں تنہا بیٹھے لکھ رہے ہیں۔ آپؑ کی قدیمی عادت ہے کہ دروازے بند کرکے بیٹھا کرتے ہیں۔ ایک لڑکے نے زور سے دستک دی اور منہ سے بھی کہا: ابّا بؤا کھول۔ آپؑ وہیں اُٹھے ہیں اور دروازہ کھولا ہے۔ کم عقل بچہ اندر گھسا ہے اور اِدھراُدھر جھانک کر اُلٹے پاؤں نکل گیا ہے۔ حضرت نے پھر معمولاً دروازہ بند کرلیا ہے۔ دو ہی منٹ گزرے ہوں گے جو پھر موجود اور زور زور سے دھکے دے رہے ہیں اور چِلّا رہے ہیں: ابّا بؤا کھول۔ آپؑ پھر بڑے اطمینان سے اور جمعیت سے اُٹھے ہیں اور دروازہ کھول دیا ہے۔ بچہ اب کی دفعہ بھی اندر نہیں گھستا، ذرا سر ہی اندر کرکے اور کچھ منہ میں بڑبڑا کے پھر اُلٹا بھاگ جاتا ہے۔ حضرت بڑے ہشّاش بشّاش بڑے استقلال سے دروازہ بند کرکے اپنے نازک اور ضروری کام پر بیٹھ جاتے ہیں۔ کوئی پانچ ہی منٹ گزرے ہیں تو پھر موجود۔ پھر وہی گرما گرمی اور شوراشوری۔ آپؑ اُٹھ کر اسی وقار اور سکون سے دروازہ کھول دیتے ہیں اور منہ سے ایک حرف تک نہیں نکالتے کہ تُو کیوں آتا ہے اور کیا چاہتا ہے۔ آخر تیرا مطلب کیا ہے جو بار بار ستاتا اور کام میں حرج ڈالتا ہے۔ مَیں نے گنا کوئی بیس دفعہ ایسا کیا اور ایک دفعہ بھی حضرت کے منہ سے زجر اور توبیخ کا کلمہ نہیں نکلا۔
بعض اوقات دوا پوچھنے والی گنوار عورتیں زور سے دستک دیتی ہیں اور اپنی سادہ اور گنواری زبان میں کہتی ہیں ’’مرِجاجی جرا بوا کھولوتاں‘‘ حضرت اس طرح اٹھتے ہیں جیسے مطاع ذی شان کا حکم آیا ہے اورکشادہ پیشانی سے باتیں کرتے اور دوا بتاتے ہیں۔ہمارے ملک میں وقت کی قدر پڑھی ہوئی جماعت کو بھی نہیں تو پھر گنوار تو اَوربھی وقت کے ضائع کرنے والے ہیں۔ایک عورت بے معنی بات چیت کرنے لگ گئی ہے اور اپنے گھر کا رونا اور ساس نندکا گلہ شروع کردیا ہے اور گھنٹہ بھر اسی میں ضائع کر دیا ہے۔آپؑ وقار اور تحمل سے بیٹھے سن رہے ہیں۔زبان سے یا اشارہ سے اس کو کہتے نہیں کہ بس اب جاؤ۔دوا پوچھ لی اب کیا کام ہے ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے۔وہ خود ہی گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوتی اور مکان کو اپنی ہوا سے پاک کرتی ہے۔ایک دفعہ بہت سی گنوار عورتیں بچوں کو لے کر دکھانے آئیں۔ اتنے میں اندر سے بھی چند خدمتگار عورتیں شربت شیرہ کے لیے برتن ہاتھوں میں لیے آنکلیں اور آپؑ کو دینی ضرورت کے لیے ایک بڑا اہم مضمون لکھنا تھا اور جلد لکھناتھا۔ مَیں بھی اتفاقاً جا نکلا کیا دیکھتا ہوں حضرت کمربستہ اور مستعد کھڑے ہیں جیسے کوئی یورپین اپنی دنیوی ڈیوٹی پر چست اور ہو شیار کھڑا ہوتا ہے اور پانچ چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں اور بوتلوں میں سے کسی کو کچھ اور کسی کو کوئی عرق دے رہے ہیں اور کوئی تین گھنٹے تک یہی بازار لگا رہا اور ہسپتال جا ری رہا۔ فراغت کے بعدمیں نے عرض کیا : حضرت یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع جاتا ہے۔ اللہ اللہ!کس نشاط اور طمانیت سے جواب دیتے ہیں کہ ’’یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے۔ یہ مسکین لوگ ہیں یہاں کوئی ہسپتال نہیں مَیں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا کررکھا کرتا ہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں۔‘‘ پھر فرمایا: ’’یہ بڑے ثواب کا کام ہے مومن کوان کاموں میں سست اور بےپروا نہ ہونا چاہیے۔‘‘


بارہا مَیں نے دیکھا ہے اپنے اور دوسرے بچے آپؑ کی چارپائی پر بیٹھے ہیں اور آپؑ کو مضطر کرکے پائینتی پر بٹھادیا ہے اور اپنے بچپنے کی بولی میں مینڈک اور کوّے اور چڑیا کی کہانیاں سنا رہے ہیں اور گھنٹوں سنائے جارہے ہیں اور حضرت ہیں کہ بڑے مزے سے سنے جارہے ہیں گویا کوئی مثنوی مُلّائے روم سنا رہا ہے۔ حضرت بچوں کو مارنے اور ڈانٹنے کے سخت مخالف ہیں۔ بچے کیسے ہی بسوریں۔ شوخی کریں۔ سوال میں تنگ کریں اور بےجا سوال کریں اور ایک موہوم اور غیرموجود شے کے لیے حد سے زیادہ اصرار کریں، آپؑ نہ تو کبھی مارتے ہیں، نہ جھڑکتے ہیں اور نہ کوئی خفگی کا نشان ظاہر کرتے ہیں۔ محمودؔ کوئی تین برس کا ہوگاآپؑ لدھیانہ میں تھے۔مَیں بھی وہیں تھا۔ گرمی کاموسم تھا مردانہ اور زنانہ میں ایک دیوا ر حا ئل تھی۔ آدھی رات کا وقت ہوگا جو مَیں جاگا اور مجھے محمودؔ کے رونے اور حضرتؑ کے اِدھر اُدھر کی باتوں میں بہلانے کی آواز آئی۔ حضرتؑ اسے گود میں لیے پھرتے تھے اور وہ کسی طرح چُپ نہیں ہوتا تھا آخر آپؑ نے فرمایا ’’د یکھو محمود وہ کیسا تا را ہے‘‘ بچہ نے نئے مشغلہ کی طرف دیکھا اور ذرا چُپ ہوا پھر وہی رونا اور چِلّانا اور یہ کہنا شروع کردیا ’’ابّا تا رے جانا‘‘ کیا مجھے مزہ آیا اور پیارا معلوم ہوا آپؑ کا اپنے ساتھ یوں گفتگو کرنا ’’یہ اچھا ہوا ہم نے تو ایک راہ نکالی تھی اس نے اس میں بھی ا پنی ضد کی را ہ نکا ل لی۔‘‘ آخر بچہ روتا روتا خود ہی جب تھک گیا۔ چُپ ہوگیا مگر اس سارے عرصہ میں ایک لفظ بھی سختی کا یا شکایت کا آپؑ کی زبان سے نہ نکلا۔
مَیں نے بارہا دیکھا ہے ایسی کسی چیز پر برہم نہیں ہوتے جیسے جب سن لیں کہ کسی نے بچے کو مارا ہے۔ ایک بزرگ نے ایک دفعہ اپنے لڑکے کو عادتاً مارا تھا۔ حضرت بہت متأثر ہوئے اور انہیں بلاکر بڑی دردانگیز تقریر فرمائی۔ فرمایا: ’’میرے نزدیک بچوں کو یوں ما رنا شرک میں داخل ہے گویا بدمزا ج مارنے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیں حصہ دار بنانا چاہتا ہے۔‘‘ فرمایا: ’’ایک جوش والا آدمی جب کسی با ت پر سزا دیتا ہے اشتعال میں بڑھتے بڑھتے ایک د شمن کا رنگ ا ختیا ر کرلیتا ہے….جس طرح اور جس قدر سزا دینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کے لیے سوزِ دل سے دعا کرنے کو ایک حزب مقرر کرلیں اس لیے کہ وا لد ین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے۔‘‘
فرمایا: ’’مَیں التزاماً چند دعائیں ہر روزمانگا کرتاہوں:
اول: اپنے نفس کے لیے دعا مانگتاہوں کہ خداوند کریم مجھ سے وہ کام لے جس سے اس کی عزت وجلال ظاہر ہو اور اپنی رضا کی پوری توفیق عطا کرے۔
دوم: پھر اپنے گھرکے لوگوں کے لیے کہ ان سے قرۃعین عطا ہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پر چلیں۔
سوم: پھراپنے بچوں کے لیے دعا مانگتاہوں کہ یہ سب دین کے خدام بنیں۔
چہارم: پھر اپنے مخلص دوستوں کے لیے نام بنام۔
پنجم: اور پھران سب کے لیے جو اس سلسلہ سے وابستہ ہیں خواہ ہم انہیں جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔ ‘‘


حضورؑ فرماتے ہیں: ’’بات بات پر بچوں کو روکنا اور ٹوکنا یہ ظا ہر کرتا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں اور ہم اُس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے۔یہ ایک قسم کا شرکِ خفی ہے اس سے ہماری جماعت کو پرہیز کرنا چاہیے ہم تو اپنے بچوں کے لیے دعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قوا عد اور آدا ب ِتعلیم کی پابندی کراتے ہیں بس اس سے زیادہ نہیں اور پھر اپنا پورا بھروسہ اللہ تعا لیٰ پر رکھتے ہیں۔جیسا کسی میں سعا دت کا تخم ہوگا وقت پر سرسبز ہوجائے گا۔ ‘‘
جب مہمانوں کی ضرورت کے لیے مکان بنوانے کی ضرورت پیش آئی تو باربار یہی تاکید فرمائی کہ اینٹوں اور پتھروں پر پیسہ خرچ کرنا عبث ہے۔ اتنا ہی کام کرو جو چند روز بسر کرنے کی گنجائش ہو۔ فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہمیں کسی مکان سے کوئی انس نہیں ہم اپنے مکانوں کو اپنے اور اپنے دوستوں میں مشترک جانتے ہیں اور بڑی آرزو ہے کہ مل کر چندروز گذارہ کر لیں۔ ‘‘ اور فرمایا: ’’میری بڑی آرزو ہے کہ ایسا مکان ہو کہ چاروں طرف ہمارے احباب کے گھر ہوں اور درمیان میں میرا گھر ہو اور ہر ایک گھر میں میری ایک کھڑکی ہو کہ ہرایک سے ہر ایک وقت واسطہ و رابطہ رہے۔‘‘
برادران! یہ باتیں سچی ہیں اور واقعات ان کے گواہ ہیں۔مکان اندر اور باہر نیچے اور اوپر مہمانوں سے کشتی کی طرح بھرا ہوا ہے اور حضرت بھی بقدر حصۂ رسدی بلکہ تھوڑا سا ایک حصہ رہنے کو ملا ہوا ہے اور آپؑ اس میں یوں رہتے ہیں جیسے سرائے میں کوئی گذارہ کرتا ہے اور اس کے جی میں کبھی نہیں گذرتا کہ یہ میری کو ٹھری ہے… حضرت کبھی پسند نہیں کرتے کہ خدام ان کے پاس سے جائیں۔ آنے پر بڑے خوش ہوتے ہیں اور اُن کے واپس جانے پرکراہ سے رخصت دیتے ہیں اور کثرت سے آنے جانے والوں کو بہت ہی پسند فرماتے ہیں۔اب کی دفعہ دسمبر میں بہت کم لوگ آئے۔ اس پر بہت اظہارِ افسوس کیا اور فرمایا: ’’ہنوز لوگ ہمارے اغراض سے واقف نہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں کہ وہ کیا بن جائیں۔ وہ غرض جو ہم چاہتے ہیں اور جس کے لیے ہمیں خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے وہ پوری نہیں ہوسکتی جب تک لوگ یہاں بار بار نہ آئیں اور آنے سے ذرا بھی نہ اکتائیں۔ ‘‘
اور فرمایا کہ ’’جو شخص ایسا خیال کرتا ہے کہ آنے میں اس پر بوجھ پڑتا ہے یا ایسا سمجھتا ہے کہ یہاں ٹھہرنے میں ہم پر بوجھ ہوگا اسے ڈرنا چاہیے کہ وہ شرک میں مبتلا ہے۔ ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ اگر سارا جہان ہمارا عیال ہو جائے تو ہماری مہمات کا متکفّل خدا ہے ہم پر ذرا بھی بوجھ نہیں۔ ہمیں تو دوستوں کے وجود سے بڑی راحت پہنچتی ہے۔‘‘
دو چاربرس کاعرصہ گزرتاہے کہ آپ کے گھر کے لوگ لدھیانہ گئے ہوئے تھے۔ جون کامہینہ تھا اور اندر مکان نیا نیا بنا تھا۔ وہا ں چارپائی بچھی ہوئی تھی، مَیں دوپہر کے وقت اس پرلیٹ گیا۔ حضرت ٹہل رہے تھے۔ مَیں ایک دفعہ جاگا تو آپ فرش پر میری چارپائی کے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔ مَیں ادب سے گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ آپ نے بڑی محبت سے پوچھا آپ کیوں اٹھے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ نیچے لیٹے ہوئے ہیں مَیں اوپر کیسے سوئے رہوں۔ مسکرا کر فرمایا: مَیں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا، لڑکے شور کرتے تھے انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے۔

مسجد مبارک میں آپؑ کی نشست کی کوئی خاص وضع نہیں ہوتی۔ ایک اجنبی آدمی آپؑ کو کسی خاص امتیاز کی معرفت پہچان نہیں سکتا۔ آپؑ ہمیشہ دائیں صف میں ایک کونے میں مسجد کے اس طرح مجتمع ہو کر بیٹھتے ہیں جیسے کوئی فکر کے دریا میں خوب سمٹ کر تیرتا ہے۔ مَیں جو اکثر محراب میں بیٹھتا ہوں اور اسی لیے داخلی دروازے کے عین محاذمیں ہوتا ہوں۔ بسااوقات ایک اجنبی جو مارے شوق کے سرزدہ اندر داخل ہوا ہے تو سیدھا میری طرف ہی آیاہے اور پھر خود ہی اپنی غلطی پر متنبہ ہوا ہے یا حاضرین میں سے کسی نے اسے حقدار کی طرف اشارہ کردیاہے۔ آپؑ کی مجلس میں احتشام اور وقار اور آزادی اور بےتکلّفی ایک ہی وقت میں جمع رہتے ہیں۔


ایک شخص جو دنیا کے فقیروں اور سجادہ نشینوں کا شیفتہ اور خوکردہ تھا ہماری مسجد میں آیا۔ لوگوں کو آزادی سے گفتگو کرتے دیکھ کر حیران ہوگیا۔ آپؑ سے کہا کہ ’’آپ کی مسجد میں ادب نہیں، لوگ بےمحابا بات چیت آپ سے کرتے ہیں۔‘‘ آپؑ نے فرمایا: ’’میرا مسلک نہیں کہ مَیں ایسا تند خُو اور بھیانک بن کر بیٹھوں کہ لوگ مجھ سے ایسے ڈریں جیسے درندہ سے ڈرتے ہیں اور مَیں بت بننے سے سخت نفرت رکھتا ہوں۔ مَیں توبُت پرستی کے رد کرنے کو آیا ہوں نہ یہ کہ مَیں خود بت بنوں اور لوگ میری پوجا کریں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ مَیں اپنے نفس کو دوسروں پر ذرا بھی ترجیح نہیں دیتا۔ میرے نزدیک متکبر سے زیادہ کوئی بت پرست اور خبیث نہیں متکبر کسی خدا کی پرستش نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی پرستش کرتا ہے۔‘‘
آپؑ ا پنے خدا م کو بڑے ادب اور احترام سے پکارتے ہیں اور حا ضر و غا ئب ہر ایک کا نام ادب سے لیتے ہیں۔ مَیں نے بارہا سنا ہے اندر اپنی زوجہ محترمہ سے آپؑ گفتگو کررہے ہیں اور اس اثنا ء میں کسی خادم کا نام زبان پر آگیا ہے تو بڑے ادب سے لیاہے جیسے سا منے لیا کرتے ہیں۔کبھی تُو کرکے کسی کو خطا ب نہیں کرتے تحریروں میں جیسا آپؑ کا عام رویہ ہے ’’حضرت اخویم مولوی صاحب‘‘ اور’’اخویم حبی فی اللہ مولوی صاحب۔‘‘ اسی طرح تقریر میں بھی فرماتے ہیں: ’’حضرت مولوی صاحب یوں فرماتے تھے۔‘‘ مَیں نے کبھی نہیں سنا کہ آپؑ نے مجلس میں کسی ایک کو بھی تُو کرکے پکارا ہو یا خطاب کیا ہو۔


آپؑ کی ملاقات کی جگہ عموماً مسجد ہی ہے۔ آپؑ اگر بیمار نہ ہوں تو برابر پانچ وقت نماز باجماعت پڑھتے ہیں اور نماز باجماعت کے لیے ازبس تاکید کرتے ہیں اور بارہا فرمایا ہے کہ مجھے اس سے زیادہ کسی بات کا رنج نہیں ہوتا کہ جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھی جائے۔
آپؑ کی ہر ادا سے صاف ترشح ہوتا ہے کہ آپؑ کو کوئی حُبّ جاہ اور علّونہیں اورآپؑ جلوت میں محض خداتعالیٰ کے امر کی تعمیل کی خاطر بیٹھتے ہیں۔ فرمایا : ’’اگر خداتعالیٰ مجھے اختیار دے کہ خلوت اور جلوت میں سے تُوکس کو پسند کرتا ہے تو اس پاک ذات کی قسم ہے کہ مَیں خلوت کو اختیار کروں۔ مجھے تو کشاں کشاں میدانِ عالم میں اُس نے نکالا ہے۔جو لذّت مجھے خلوت میں آتی ہے اس سے بجز خداتعالیٰ کے کون واقف ہے۔ مَیں قریب 25سال تک خلوت میں بیٹھا رہا ہوں اور کبھی ایک لحظہ کے لیے بھی نہیں چاہا کہ دربارِ شہرت کی کرسی پر بیٹھوں۔مجھے طبعاً اس سے کراہت رہی ہے کہ لوگوں میں مل کر بیٹھوں۔مگر امر آمرسے مجبور ہوں۔‘‘ فرمایا: ’’مَیں جو باہر بیٹھتا ہوں یا سیر کرنے جاتا ہوں اور لوگوں سے بات چیت کرتا ہوں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے امر کی تعمیل کی بِناپر ہے۔‘‘
آپؑ دینی سائل کو، خواہ کیسا ہی بےباکی اور گستاخی سے بات چیت کرے، بڑی نرمی سے جواب دیتے ہیں۔ اسی طرح احباب میں سے کوئی کیسا ہی بےہودہ اور بےموقعہ مضمون یا نظم لکھ لائے۔ کیسا ہی بےربط اور غیرموزوں کلام ہو، آپؑ نے سننے کے وقت یا بعد خلوت میں کبھی نفرت اور ملامت کا اظہار نہیں کیا۔ بسااوقات سامعین گھبرا گئے اور مجلس کے برخاست ہونے کے بعد تو ہر ایک نے اپنے اپنے حوصلے بھی نکالے۔ مگر آپؑ کی حلیم اور شاکر ذات نے کبھی بھی ایسا کوئی اشارہ کنایہ نہیں کیا۔ کوئی دوست خدمت کرے، کوئی شعر بنا لائے، کوئی مضمون تائید حق پر لکھے آپؑ بڑی قدر کرتے ہیں اور بہت ہی خوش ہوتے ہیں اور بارہا فرماتے ہیں کہ اگر کوئی تائیدِ دین کے لیے ایک لفظ نکال کر ہمیں دے تو ہمیں موتیوں اور اشرفیوں کی جھولی سے بھی زیادہ بیش قیمت معلوم ہوتا ہے۔ جو شخص چاہے کہ ہم اس سے پیار کریں اور ہماری دعائیں نیازمندی اور سوز سے اس کے حق میں آسمان پر جائیں وہ ہمیں اس بات کا یقین دلادے کہ وہ خادم دین ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بارہا قسم کھاکر فرمایا ہے کہ ہم ہر ایک شے سے محض خداتعالیٰ کے لیے پیار کرتے ہیں۔ بیوی ہو، بچے ہوں، دوست ہوں، سب سے ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ چنانچہ آپؑ بچوں کی خبرگیری اور پرورش اس طرح کرتے ہیں کہ ایک سرسری دیکھنے والا گمان کرے کہ آپؑ سے زیادہ اولاد کی محبت کسی کو نہ ہوگی۔ اور بیماری میں اس قدر توجہ کرتے ہیں اور تیمارداری اور علاج میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ گویا اَورکوئی فکر ہی نہیں۔ مگر باریک بین دیکھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور خدا کے لیے اس کی ضعیف مخلوق کی رعایت اور پرورش مدّنظر ہے۔ آپؑ کی پلوٹھی بیٹی عصمت لدھیانہ میں ہیضہ سے بیمار ہوئی تو آپؑ اس کے علاج میں یوں دوا دہی کرتے کہ گویا اس کے بغیر زندگی محال ہے اور ایک دنیادار دنیا کی عرف اور اصطلاح میں اولاد کا بھوکا اور شیفتہ اس سے زیادہ جانکاہی کر ہی نہیں سکتا۔ مگر جب وہ مرگئی تو آپؑ یوں الگ ہو گئے کہ گویا کوئی چیز تھی ہی نہیں اورجب سے کبھی ذکر تک نہیں کیا کہ کوئی لڑکی تھی۔
فرمایا: میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص ایک دفعہ مجھ سے عہد دوستی باندھے مجھے اس عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کچھ ہی کیوں نہ ہوجائے مَیں اس سے قطع تعلق نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر و ہ خود قطع تعلق کر دے تو ہم لاچار ہیں۔ ورنہ ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں میں سے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گرا ہواہو اور کُتّے اس کا منہ چاٹ رہے ہوں تو بِلاخوف لومۃ لائم اسے اٹھا کر لے آئیں گے۔ فرمایا: عہدِ دوستی بڑا قیمتی جوہر ہے اس کو آسانی سے ضائع کردینا نہ چاہئے اور دوستوں میں کیسی ہی ناگوار بات پیش آوے اسے اغماض اور تحمل کے محل میں اتارنا چاہئے۔
آپؑ کسی کواس کی خطا اور لغزش پر مخاطب کرکے ملامت نہیں کرتے۔ اگر کسی کی حرکت ناپسند آوے تو مختلف پیرایوں میں عام طور پر تقریر کردیں گے۔ اگر وہ سعید ہوتا ہے تو خود ہی سمجھ جاتا اور اپنی حرکت پر نادم ہوتا ہے۔آپؑ جب تقریروعظ و نصیحت کی کرتے ہیں تو ہر ایک ایسا ہی یقین کرتا ہے کہ یہ میرے ہی عیب ہیںجو آپؑ بیان کررہے ہیں۔ اور یوں اصلاح اور تزکیہ کا پاک سلسلہ بڑی عمدگی سے جاری رہتا ہے۔ … آپؑ مجلس میں ذُومعنی بات نہیں کرتے نہ کبھی آنکھ کے اشارے سے کوئی بات کرتے ہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپؑ نے کسی کو لگاکر کوئی بات کی ہو یا مجلس میں کسی کو مخاطب کرکے کہا ہو کہ ہم تم پر ناراض ہیں، تمہاری فلاں حرکت ہمیں ناگوار ہے اور فلاں بات مکروہ ہے۔
حضرت کبھی پسند نہیں کرتے کہ خدام ان کے پاس سے جائیں۔ کثرت سے آنے جانے والوں کو بہت ہی پسند فرماتے ہیں۔ فرمایا: جو شخص ایسا خیال کرتا ہے کہ یہاں ٹھہرنے میں ہم پر بوجھ ہوگا اسے ڈرنا چاہیے کہ وہ شرک میں مبتلا ہے۔ ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ اگر سارا جہان ہمارا عیال ہوجائے تو ہماری مہمّات کا متکفل خدا ہے، ہم پر ذرا بھی بوجھ نہیں۔
ایک روز حکیم فضل الدین صاحب نے عرض کیا کہ حضور مَیں یہاں نکمّا بیٹھا کیا کرتا ہوں، مجھے حکم ہو تو بھیرہ چلا جاؤں وہاں درس قرآن کریم ہی کروں گا۔ یہاں مجھے بڑی شرم آتی ہے کہ مَیں حضورؑ کے کسی کام نہیں آتا۔ اور شاید بیکار بیٹھنے میں کوئی معصیت نہ ہو۔ فرمایا: آپ کا یہاں بیٹھنا ہی جہاد ہے اور یہ بیکاری ہی بڑا کام ہے۔
ایک روز فرمایا: ’’مَیں اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں اور خداتعالیٰ نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھر میرے سامنے بیٹھ کر میرے نفس کو گندی سے گندی گالی دیتا رہے، آخر وہی شرمندہ ہوگا اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا۔‘‘
کوئی ہولناک واقعہ اور غم انگیز سانحہ آپؑ کی توجہ کو منتشر اور مفوّض کام سے غافل نہیں کرسکتا۔ اقدامِ قتل کا مقدمہ جسے پادریوں نے برپا کیا اور جن کی تائید میں بعض ناعاقبت اندیش نام کے مسلمان اور آریہ بھی شامل ہوگئے تھے۔ ایک دنیادار کا پِتّہ پگھلا دینے اور اس کا دل پریشان اور حواس مختل کردینے کو کافی تھا۔ مگر حضرتؑ کےکسی معاملہ میں، لکھنے میں، معاشرت میں، باہر خدام سے کشادہ پیشانی اور رأفت سے ملنے میں، غرض کسی حرکت و سکون میں کوئی فرق نہ آیا۔ کوئی آدمی قیاس بھی نہیں کرسکتا تھا کہ آپؑ پر کوئی مقدمہ ہے یافلاں شخص پہاڑوںسے سر ٹکراتا اور ماتھا پھوڑتا پھرتا ہے کہ آپؑ کے دامنِ عزت پر اپنے ناپاک خون کا کوئی دھبہ ہی لگادے۔ آپؑ ہمیشہ فرماتے ہیں: ’’کوئی معاملہ زمین پرواقع نہیں ہوتاجب تک پہلے آسمان پر طے نہ ہوجائے اور خداتعالیٰ کے ارا دہ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور وہ اپنے بندہ کو ذلیل اور ضائع نہیں کرے گا۔‘‘ یہ ایک ایسا رکن شدید ہے جو ہرمصیبت میں آپؑ کا حصن ِحصین ہے۔ مَیں مختلف شہروں اور ناگوار نظاروں میں آپؑ کے ساتھ رہا ہوں۔ دہلی کی ناشکرگزار اور جلدباز مخلوق کے مقابل، پٹیالہ، جالندھر، کپورتھلہ، امرتسر، لاہور اور سیالکوٹ کے مخالفوں کی متفق اور منفرد دل آزار کوششوں کے مقا بل میں آپؑ کا حیرت انگیز صبر اورحلم اور ثبات د یکھا ہے۔ کبھی آپؑ نے خلوت میں یا جلوت میں ذکر تک نہیں کیا کہ فلاں شخص یا فلاں قوم نے ہمارے خلاف یہ ناشائستہ حرکت کی اور فلاں نے زبان سے یہ نکالا۔ مَیں صاف دیکھتا تھا کہ آپؑ ایک پہاڑ ہیں کہ ناتواں پست ہمت چوہے اس میں سُرنگ کھود نہیں سکتے۔ ایک دفعہ آپؑ نے جالندھر کے مقام میں فرمایا: ’’ابتلا کے وقت ہمیں اندیشہ اپنی جماعت کے بعض ضعیف دلوں کا ہوتا ہے۔ میرا تو یہ حال ہے کہ اگر مجھے صاف آواز آوے کہ تو مخذول ہے اور تیری کوئی مراد ہم پوری نہ کریں گے تو مجھے خداتعالیٰ کی قسم ہے کہ اس عشق و محبتِ الٰہی اور خدمتِ دین میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی اس لیے کہ مَیں تو اُسے دیکھ چُکا ہوں۔‘‘ پھر یہ پڑھا: ھَلۡ تَعۡلَمُ لَہٗ سَمِیًّا۔
کوئی نوکر گو کتنا بڑا نقصان کردے آپؑ معاف کردیتے اور معمولی چشم نمائی بھی نہیں کرتے۔ حامدعلی کو کچھ لفافے اور کارڈ ڈاک خانہ میں ڈالنے کو دیے۔ فراموش کار حامدعلی کسی اَور کام میں مصروف ہوگیا اور اپنے مفوّض کام کو بھول گیا۔ ایک ہفتہ کے بعد محمودؔ جو ہنوز بچہ تھا کچھ لفافے اور کارڈ لیے دوڑا آیا کہ ابّا ہم نے کُوڑے کے ڈھیر سے خط نکالے ہیں۔ آپؑ نے دیکھا تو وہی خط تھے جن میں بعض رجسٹرڈ خط تھے اور آپؑ ان کے جواب کے منتظر تھے۔ حامدعلی کو بلوایا اور خط دکھا کر بڑی نرمی سے صرف اتنا ہی کہا: ’’حامدعلی! تمہیں نسیان بہت ہوگیا ہے، فکر سے کام کیا کرو۔‘‘
ایک ہی چیز ہے جو آپؑ کو متأثر کرتی اور جنبش میں لاتی اور حد سے زیادہ غصہ دلاتی ہے۔ وہ ہے ہتک حرمات اللہ اور اہانت شعائراللہ۔ فرمایا: ’’میری جائیداد کا تباہ ہونا اور میرے بچوں کا آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے ہونا مجھ پر آسان ہے بہ نسبت دین کے ہتک اور استخفاف کے دیکھنے اور اس پر صبر کرنے کے۔‘‘
آپؑ ہر ایک کی بہتری چاہتے ہیں خواہ کسی مذہب کا ہو۔ قادیان کے ہندو ہر ایک مصیبت کے وقت آپؑ کے وجود میں امین اور مفید صلاح کار پاتے ہیں۔ بعض ہندو آریہ اور اسلام کے مخالف حضرت کو عظیم الشان اور پختہ مسلمان تسلیم کرتے ہیں اور مذاہب باطلہ کی بیخ کنی کرنے والا دل سے یقین کرتے ہیں مگر حضرتؑ کوئی دوا بتائیں تو اس پر ایک رشی کی بات سے کم تر یقین نہیں رکھتے۔ حضرتؑ اپنے خدام کو یہی نصیحت کرتے ہیں کہ کسی جاندار کی حق تلفی نہ کرو اور تمہاری زبانوں اور کاموں میں فریب اور ایذا نہ ہو۔
حکومتِ وقت سے سچے تعلقات ہیں۔ مَیں نے دس برس کے عرصہ میں خلوت و جلوت میں کبھی نہیں سنا کہ کبھی اشارہ یا کنایہ یا صراحت سے کوئی کلمہ برا گورنمنٹ یا کسی آفیشل کی نسبت آپؑ کے منہ سے نکلا ہو۔
کتاب کا اصل مضمون یہاں ختم کرتے ہوئے حضرت مولوی صاحبؓ نے ۶؍جنوری ۱۹۰۰ء کی تاریخ رقم فرمائی ہے۔ لیکن پھر تکملہ کے طور پر ایک مختصر یادداشت شامل کی ہے جس میں ۸؍جنوری کو واقع ہونے والی اُس ستم ظریفی کا تذکرہ ہے جب حضورعلیہ السلام کے ہمسایوں نے شارع عام گلی کو اینٹوں سے چُنواکر بند کروا دیا اور یوں مسجد مبارک میں نماز کے لیے آنے والوں کو گاؤں کے گرد ایک لمبا چکّر لگانے پر مجبور کردیا گیا۔ اسی شام حضور علیہ السلام کو متواتر الہامات کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ایک فتح مبین کی خبر دی اور بتایا کہ یقیناً خدا کا فضل آنے والا ہے اور کسی کی شان نہیں کہ ردّ کرے۔ انہیں ایک وقت تک ڈھیل دے رکھی ہے۔ تُو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ ہوں۔…

قادیان دارالامان

کتاب کے آخری دو صفحات پر ضمیمہ شامل ہے جس میں حضرت مولوی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک روز اخراجات کا تذکرہ ہوا تو آپؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کھانے کے متعلق مَیں اپنے نفس میں اتنا تحمّل پاتا ہوں کہ ایک پیسہ پر دو دو وقت بڑے آرام سے بسر کرسکتا ہوں۔ ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ انسان کہاں تک بھوک کی برداشت کرسکتا ہے۔ اس کے امتحان کے لیے چھ ماہ تک مَیں نے کبھی کوئی ایک آدھ لقمہ کھالیا اور اندازہ کیا کہ چھ سال تک بھی یہ حالت لمبی کی جاسکتی ہے۔ اس اثناء میں دو وقت کھانا گھر سے برابر آتا تھا اور مجھے اپنی حالت کا اخفا منظور تھا۔ مَیں وہ روٹی دو تین مسکینوں میں تقسیم کردیتا۔ خداتعالیٰ نے جس کام کے لیے کسی کو پیدا کیا ہے اس کی تیاری اور لوازم اور اس کے سرانجام اور مہمّات کے طے کے لیے اس میں قویٰ بھی مناسب حال پیدا کیے ہیں۔ دوسرے لوگ جو وہ قویٰ نہیں رکھتے اور ریاضتوں میں پڑ جاتے ہیں آخرکار دیوانے اور مخبط الحواس ہوجاتے ہیں۔
فرمایا: طبیبوں نے نیند کے لیے طبعی اسباب مقرر کیے ہیں مگر جب خداتعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے کہ ہم سے کلام کرے اُس وقت پوری بیداری میں ہوتے ہیں اور یک دم غنودگی وارد کردیتا ہے اور اس جسمانی عالم سے قطعاً باہر لے جاتا ہے اس لیے کہ اس عالم سے پوری مناسبت ہوجائے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ جب ایک مرتبہ کلام کرچکتا ہے پھر ہوش و حواس واپس دے دیتا ہے اس لیے کہ ملہم اسے محفوظ کرلے اس کے بعد پھر ربودگی طاری کرتا ہے پھر یاد کرنے کے لیے بیدار کردیتا ہے غرض اس طرح کبھی پچاس دفعہ تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ وہ ایک تصرّف الٰہی ہوتا ہے جس کو طبعی نیند سے کوئی تعلق نہیں اور اطباء اس کی ماہیت کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔
حضرت سائل کو ردّ نہیں کرتے۔ جو کچھ میسر ہو دے دیتے ہیں۔ ایک دن نماز عصر کے بعد آپؑ نے اندر جانے کے لیے مسجد کی کھڑکی میں پاؤں رکھا تو اتنے میں ایک سائل نے آہستہ سے کہا کہ مَیں سوالی ہوں۔ حضرتؑ کو اس وقت ایک ضروری کام بھی تھا اور کچھ اس کی آواز دوسرے لوگوں کی آوازوں میں مِل جُل گئی تھی، غرض حضرتؑ اندر چلے گئے۔ مگر جب اُسی دھیمی آواز نے جو کان میں پڑی تھی، اپنا اثر آپؑ کے قلب پر کیا تو جلد واپس تشریف لائے اور خلیفہ نورالدین صاحب کو آواز دی کہ ایک سائل تھا اسے دیکھو کہاں ہے؟ خلیفہ صاحب نے ہرچند ڈھونڈا مگر پتہ نہ ملا۔ شام کو نماز پڑھ کر بیٹھے تو وہی سائل آگیا اور سوال کیا۔ حضرت نے جیب سے کچھ نکال کر اُس کے ہاتھ میں رکھ دیا اور ایسے خوش ہوئے کہ گویا کوئی بوجھ آپؑ کے اوپر سے اُتر گیا ہے۔ چند روز کے بعد ذکر کیا کہ اُس دن جو وہ سائل نہ ملا تو میرے دل پر ایسا بوجھ تھا کہ مجھے سخت بےقرار کر رکھا تھا اور مَیں ڈرتا تھا کہ مجھ سے معصیت سرزد ہوئی ہے کہ مَیں نے سائل کی طرف دھیان نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ شام کو واپس آگیا ورنہ خدا جانے مَیں کس اضطراب میں پڑا رہتا۔ اور مَیں نے دعا بھی کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اسے واپس لائے۔
یہاں اس مختصر کتاب کے مضامین کا اختتام ہوتا ہے۔
قارئین محترم! حضرت مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقرّب صحابہ اور صادقین میں سے تھے۔ حضورؑ سے والہانہ عشق کا تعلق تھا اور حضورؑ بھی آپؓ سے بہت محبت رکھتے تھے۔ حضرت مولوی صاحبؓ ۱۹۰۵ء میں زیادہ بیمار ہوگئے اور دو ماہ بیمار رہ کر وفات پائی۔ آپؓ کی بیماری بڑی تکلیف دہ تھی۔ بعض دفعہ شدّت تکلیف میں نیم غشی کی سی حالت میں کہا کرتے تھے کہ سواری کا انتظام کرو مَیں حضرت صاحب سے ملنے کے لیے جاؤں گا۔ بعض اوقات زار زار رو پڑتے تھے کہ دیکھو مَیں نے اتنے عرصہ سے حضرت صاحب کا چہرہ نہیں دیکھا۔ ایک دن اپنی اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ جاکر حضرت صاحب سے کہو کہ مَیں مر چلا ہوں مجھے صرف دُور سے کھڑے ہوکر اپنی زیارت کرا جائیں۔ انہوں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی۔ حضرت صاحب نے جواباً فرمایا کہ کیا کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ میرا دل مولوی صاحب کو ملنے کو نہیں چاہتا۔ اصل بات یہ ہے کہ مَیں ان کی تکلیف کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ حضرت اُمّ المومنینؓ اس وقت پاس ہی تشریف رکھتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ اتنی خواہش رکھتے ہیں تو آپ کھڑے کھڑے ہو آئیں۔ حضورؑ نے فرمایا: اچھا میں جاتا ہوں لیکن ان کی تکلیف دیکھنے سے مَیں بیمار پڑ جاؤں گا۔ یہ کہہ کر حضور اس طرف روانہ ہوئے تو مولوی صاحب کی اہلیہ نے آگے جاکر حضرت مولوی صاحبؓ کو اطلاع دی کہ حضورؑ تشریف لا رہے ہیں۔ اس پر حضرت مولوی صاحبؓ نے اپنی اہلیہ کو ملامت کی کہ کیوں حضرت صاحب کو تم نے تکلیف دی۔ کیا مَیں نہیں جانتا کہ وہ کیوں تشریف نہیں لا تے، مَیں نے تو اپنے دل کا دُکھڑا رویا تھا۔ تم فوراً جا کر عرض کرو کہ حضور تکلیف نہ فرمائیں۔
بسااوقات مسجد میں حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کی ملاقات کو بہت دل چاہتا ہے مگر مَیں ان کی تکلیف نہیں دیکھ سکتا۔ حضرت مولوی صاحبؓ کی وفات کا حضورؑ کو ایسا صدمہ ہوا جیسے ایک محبت کرنے والے باپ کو ایک لائق بیٹے کی وفات کا ہواکرتا ہے مگر آپؑ کی محبت کا اصل مرکزی نقطہ خدا کاوجود تھا اس لیے آپؑ نے کامل صبر کا نمونہ دکھایا۔ اورجب بعض لوگوں نے زیادہ صدمہ کا اظہار کیا اور اس بات کے متعلق فکرظاہرکیا کہ مولوی صاحبؓ کی ذات کے ساتھ بہت کام وابستہ تھے اب ان کے متعلق کیا ہوگا تو آ پؑ نے ایسے خیالات پر توبیخ فرمائی اور فرمایا: ’’مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات پر حد سے زیادہ افسوس کرنا اور اس کی نسبت یہ خیال کر لینا کہ اس کے بغیر اب فلاں حرج ہوگا ایک قسم کی مخلوق کی عبادت ہے۔ کیونکہ جس سے حد سے زیادہ محبت کی جاتی ہے یا حد سے زیادہ اس کی جدائی کا غم کیا جاتا ہے و ہ معبود کے حکم میں ہو جاتا ہے۔ خداتعالیٰ اگرایک کو بلالیتا ہے تو دوسرا اس کے قائم مقام کردیتا ہے۔ وہ قادر اوربےنیاز ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کو اُن کے بےپایاں خلوص اور دینی خدمات کی بہترین جزا عطا فرمائے اور ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم امام مہدی علیہ السلام کے جانشین اور خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے سلطان نصیر بن کر اُن مقاصد عالیہ کی تکمیل کے لیے قربانی کے اعلیٰ معیار پیش کرسکیں جن کے لیے امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے۔ آمین
(نوٹ: یہ کتاب اسی ویب سائٹ یعنی خادم مسرور ڈاٹ یوکے میں متفرق کتب کی ونڈو میں موجود ہے)

 

اپنا تبصرہ بھیجیں