ایک مباہلہ اور خاص نصرتِ الٰہی

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 18؍مارچ 2024ء)
حضرت مولوی فتح الدین صاحبؓ دھرمکوٹی حضرت مسیح موعودؑ کے قدیم اور پرانے صحابہ میں سے تھے اور حضورؑ کے عشق میں ایسے رنگے ہوئے تھے جس کا بیان کرنا مشکل ہے۔ اُن کے حوالے سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍نومبر 2013ء میں مکرم لطیف احمد طاہر صاحب کے قلم سے نصرتِ الٰہی کا ایک واقعہ شامل اشاعت ہے جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی کتاب ’’سیرت المہدی‘‘ سے منقول ہے۔

سائیں ابراہیم صاحبؓ آف دھرم کوٹ بگّہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ابتدائے دعویٰ میں دھرم کوٹ کے ہم پانچ کَس نے بیعت کی تھی یعنی خاکسار، مولوی فتح دین صاحبؓ، نور محمد صاحبؓ، اللہ رکھا صاحبؓ اور شیخ نواب الدین صاحبؓ۔ اُس وقت رادھے خان پٹھان ساکن کروالیاں پٹھانان اچھا عابد شخص خیال کیا جاتا تھا۔ وہ دھرم کوٹ بگہ میں بھی آتا جاتا تھا اور مولوی فتح دین صاحب سے حضورؑ کے دعویٰ کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سخت کلامی پر بھی اُتر آتا تھا۔ ایسے ہی ایک موقع پر 1900ء میں مولوی صاحبؓ نے اُسے توبہ اور استغفار کی تلقین کی کہ حضورؑ کی شان میں ایسی باتیں نہ کہو۔ لیکن اُس نے کہا کہ مَیں مباہلہ کرنے کو تیار ہوں۔ اس پر مولوی صاحبؓ بھی مباہلے کے تیار ہوگئے اور مباہلہ وقوع میں آگیا۔ لیکن مباہلے کے بعد ہم احمدیوں نے آپس میں بات کی کہ حضرت صاحب کی اجازت کے بغیر مباہلہ کرنا ٹھیک نہیں ہوا۔ پھر ہم پانچوں قادیان پہنچے اور نماز عشاء کے بعد حضورؑ کی خدمت میں سارا واقعہ عرض کرکے کہا کہ چالیس دن میعاد مقرر کی گئی ہے، حضور دعا فرمائیں۔ حضورؑ نے معاً فرمایا: کیا تم خدا کے ٹھیکیدار تھے؟ تم نے چالیس دن میعاد کیوں مقرر کی؟ یہ غلط طریق اختیار کیا گیا ہے۔ یہ بھی دریافت فرمایا کہ مباہلے کے لیے اپنے وجود کو پیش کیا ہے یا کہ ہمارے وجود کو؟ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور! اپنا وجود ہی پیش کیا ہے۔ حضورؑ نے فرمایا کہ آئندہ یاد رکھو کہ مباہلے میں میرا وجود پیش کرنا چاہیے نہ کہ اپنا۔ اس کے بعد حضورؑ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا: مَیں دعا کرتا ہوں، آپ بھی شامل ہوجائیں۔
نہایت رقّت بھرے الفاظ سے دعا شروع ہوئی۔ عشاء کے بعد سے لے کر تہجد کے وقت تک دعا ہوتی رہی۔ آخر دعا ختم ہوئی اور حضورؑ نے فرمایا: جاؤ، دعا قبول ہوگئی ہے اور خدا کے فضل سے تمہاری فتح ہے۔
پھر ہم واپس چل پڑے اور نماز فجر راستے میں پڑھی۔ واپس آکر بھی حضورؑ کی نصیحت کے مطابق دعائیں کرتے رہے۔ میعاد میں دس دن باقی رہ گئے تو رادھے خان نے آکر پھر سخت کلامی کی اور اپنے لوگوں کو ساتھ لے کر باہر جنگل میں دعا کرنے کے لیے چلاگیا۔ بعد میں اُس نے یہ بھی کہا کہ اُس کی دعا قبول ہوگئی ہے۔ یہ دعا کرنے کے بعد وہ واپس اپنے گاؤں کی طرف چلا تو راستے میں اُس کی پنڈلی کی ہڈّی پر چوٹ لگی جس کا زہر اُس کے جسم میں پھیل گیا اور چند دن میں ہی اُس کا جسم اتنا پھول گیا کہ چارپائی پر پورا نہ آتا تھا۔ مولوی صاحب اس کی بیماری کی حالت میں اُس کے پاس گئے اور توبہ و استغفار کی تلقین کی لیکن وہ متوجہ نہ ہوا اور میعاد ختم ہونے سے ایک دن پہلے واصل جہنم ہوا۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مسنون طریق یہ ہے کہ مباہلے کے لیے ایک سال کی میعاد مقرر کی جائے اور اسی واسطے حضرت صاحب چالیس روز میعاد کے مقرر ہونے پر ناراض ہوئے ہوں گے۔ مگر خدا نے حضرت صاحب کی خاص دعا کی وجہ سے چالیس روز میں ہی مباہلے کا اثر دکھا دیا مگر یہ ایک استثنائی صورت ہے ورنہ عام حالات میں ایک سال سے کم میعاد نہیں ہونی چاہیے۔ آنحضرتﷺ نے بھی جب اہل نجران کو مباہلہ کے لیے بلایا تھا تو اپنی طرف سے ایک سال کی میعاد پیش کی تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں