جاپان

جاپان کا سرکاری نام نیپون (Nippon) جبکہ پرانا نام زپانگ ہے۔ جاپان کے معانی ہیں: ’’چڑھتے سورج کی سرزمین‘‘۔ یہ ملک چار بڑے جزیروں کے علاوہ تقریباً 6800 چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے۔ سب سے بڑا جزیرہ ہونشو (رقبہ 87,805 مربع میل) کل رقبے کا 60 فیصدہے۔ جاپان کا کُل رقبہ377,708 مربع کلومیٹر ہے جس کا 66 فیصد پہاڑی ہے اور اس میں 200 سے زیادہ آتش فشاں چوٹیاں ہیں۔ پوری دنیا کے آتش فشانوں کا دسواں حصہ جاپان میں ہے جن میں 54 پہاڑ بہت خطرناک ہیں۔ جاپان کی آبادی 12کروڑ 70 لاکھ (2000ء) ہے۔ اکثریت کا مذہب شنتومت یا بودھ مت ہے۔ جہاز سازی، الیکٹرانکس و بجلی کا سامان، ٹیکسٹائل، موٹرگاڑیاں، مشینری اہم صنعتوں میں شامل ہیں۔ قومی فضائی کمپنی جاپان ایئرلائنز ہے۔ یہاں 17 ہوائی اڈے اور آٹھ بندرگاہیں ہیں۔
جاپانی جزائر میں انسانی آبادی قریباً ایک لاکھ سال قبل شروع ہوئی جب منگول نسل کے باشندے یہاں پہنچے۔ جاپان کے موجودہ شاہی خاندان کو دنیا کا قدیم ترین شاہی خاندان تسلیم کیا جاتا ہے جس کے بانی شہنشاہ جیموں نے 11 فروری 660 قبل مسیح کو سلطنت جاپان کی بنیاد رکھی۔ 5ویں صدی قبل مسیح میں یہ سلطنت اپنے عروج پر تھی۔ 300 قبل مسیح میں یہاں زراعت اور دوسرے پیشوں کی ابتدا ہوئی۔ چھٹی صدی عیسوی میں یہاں بدھ مت کو فروغ حاصل ہوا۔ کئی صدیوںکی کامیاب حکومتوں کے بعد 15 ویں صدی عیسوی میں یہاں شدید خانہ جنگی شروع ہوگئی اور 1467ء میں جاپان کئی حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ 1590ء میں عظیم جنرل ٹویوموٹی ہڈیوشی نے خانہ جنگی کا خاتمہ کرکے امن و امان بحال کردیا۔ اُس نے کوریا پر بھی دو حملے کئے مگر کوریا والوں نے چین کی مدد سے یہ حملے ناکام بنا دیئے۔
جاپان میں 1543ء میں پرتگالی تاجر وارد ہوئے اور یہاں آتشیں اسلحہ متعارف کرایا۔ پھر مسیحی مشنری اور ہسپانوی باشندے بکثرت وہاں پہنچے۔ بیشمار جاپانیوں کے عیسائی ہوجانے اور آتشیں اسلحے نے حکومت میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔ چنانچہ حکومت نے غیر ملکیوں کے جاپان میں داخلے پر پابندی عائد کردی۔ اس اقدام سے جاپان تنہائی کے ایک لمبے دَور میں داخل ہوا اور مغرب میں ہونے والی انقلابی صنعتی تبدیلیوں سے بے خبر ہوگیا۔ 8 جولائی 1853ء کو ایک امریکی کمانڈر میتھیوپیری چار بحری جہاز لے کر جاپان پہنچا اور جاپان کی فوجی حکومت کو مرعوب کرکے امریکی صدر فلمور کا ایک خط جاپانی حکمران کو پہنچایا۔ چنانچہ جاپانی حکومت نے 13 فروری 1858ء کو میتھیو کے ساتھ ایک معاہدہ کرلیا۔ جولائی 1858ء میں ایک اَور تجارتی معاہدہ بھی ہوا اور یوں مغربی اقوام کے لئے جاپان کے دروازے ایک مرتبہ پھر کھل گئے۔
1868ء میں شہنشاہ میجی موتسوھیٹو (1852ء- 1912ء) کا عہد شروع ہوا۔ اس دوران جاپان بہت طاقتور ہوا۔ 1889ء میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہوکر نیا آئین نافذ ہوا۔ 1894 اور 1895ء میں چین کو جنگ میں شکست دے کر جاپان نے تائیوان پر قبضہ کرلیا۔ 1902ء میں جاپان اور برطانوی حکومت کے مابین فوجی تعاون کا معاہدہ طے پایا۔ 1904ء اور 1905ء میں جاپان نے روس کو شکست دے کر جنوبی سکھالین پر بھی قبضہ کرلیا اور 1910ء میں کوریا پر بھی قبضہ کرلیا۔ شہنشاہ میجی 1912ء میں انتقال کرگیا تو 1914ء تک جاپان شدید معاشی بحران کا شکار ہوچکا تھا۔
جنگ عظیم اول میں جاپان اتحادیوں کے ساتھ تھا چنانچہ جاپان کو اسلحے اور دوسری مصنوعات کی تیاری کے بڑے بڑے آرڈر ملے اور جاپانی معیشت دوبارہ بہت مضبوط ہوگئی۔ جنگ کے دوران جاپان نے بحرالکاہل میں تمام جزائر پر بھی قبضہ کرلیا۔ جنگ کے اختتام پر جاپان مشرق بعید کا پہلا اور اکلوتا صنعتی ملک بن چکا تھا۔ 1922ء کی واشنگٹن نیول کانفرنس میں جاپان کو تیسری بڑی بحری قوت قرار دیا گیا۔ 1931ء میں جاپان نے چین کو شکست دے کر چینی صوبے مانچوریا کو آزاد ریاست قرار دیدیا۔
1932ء میں جاپانی فوج نے پارلیمانی حکومت کا خاتمہ کردیا اور دوسری عالمی جنگ سے پہلے جاپان نے جرمنی اور اٹلی کے ساتھ تعلقات استوار کرلئے۔ پھر 1940ء میں تینوں ممالک نے معاہدہ کیا جس کے تحت جاپان کو جرمنی کا ساتھ دینا تھا۔ 17؍اکتوبر 1941ء کو جنرل ٹوجو وزیراعظم بنے اور 7 دسمبر کو جاپان امریکی بحری اڈے پرل ہاربر پر حملہ کرکے جنگ میں شریک ہوگیا۔ ابتدا میں زبردست جنگی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جاپان نے کوریا، ملایا، سنگاپور، ہند چینی، تھائی لینڈ، برما، ولندیزی جزائر شرق الہند، فلپائن، چین کے بڑے حصے اور بحرالکاہل کے بہت سے جزیروں پر قبضہ کرلیا۔ جب اتحادیوں نے اٹلی اور جرمنی پر قبضہ کرلیا تو بھی جاپان نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا۔ اگرچہ شہنشاہ ہیروہیٹو نے جاپانی جنگجو قیادت کے سربراہ جنرل ٹوجو کو خطرناک نتائج سے آگاہ کیا مگر بے سود۔ چنانچہ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جاپان پر ایٹم بم گرادیا اور اس حملے میں دو بڑے شہر تباہ اور لاکھوں شہری ہلاک ہوگئے اور 14؍اگست 1945ء کو جاپان نے ہتھیار ڈال دیئے۔
3 نومبر 1946ء کو فاتح امریکی جنرل میکارتھر نے جاپان کو نیا آئین دیا جو 3 مئی 1947ء کو نافذ ہوا۔ نئے سرے سے زمین تقسیم کی گئی اور کئی بڑی بڑی ہولڈنگ کمپنیاں ختم کردی گئیں۔جاپانیوں کو ذلت کا احساس دلانے کے لئے جنرل میکارتھر شہنشاہ ہیروہیٹو کو اپنے دفتر میں طلب کرکے ان کے ساتھ بڑی بدتمیزی سے بات کرتا۔ جاپانیوں کی تاریخ میں اس سے بدترلمحہ پہلے نہیں آیا تھا۔ 1949ء میں ایک شاہی فرمان کے تحت لوگوں نے باقی ماندہ ہتھیار بھی امریکہ کے حوالہ کردیئے۔ 8ستمبر1951ء کو سان فرانسسکو میں جاپان نے 48 ممالک کے ساتھ معاہدہ امن پر دستخط کئے جس کے تحت جاپان کا اقتدار بحال کردیا گیا اور 28؍اپریل 1952ء کو معاہدہ امن پر علمدرآمد کے بعد جاپان کو آزادی بھی مل گئی۔ معاہدہ کے مطابق امریکہ نے جاپان کے دفاع کی ذمہ داری اٹھائی جبکہ جاپان اپنی فوج تشکیل نہیں دے سکتا تھا۔
پھر جاپانیوں نے اپنی تمام تر توجہ اقتصادیات کو بہتر بنانے پر مرکوز کردی۔ 1960ء تک جاپان نے تاوان جنگ ادا کردیا تھا اور وہ معاشی و صنعتی طور پر امریکہ و دیگر یورپی ممالک سے زیادہ مضبوط ہوچکا تھا۔ آئندہ چند سالوں میں امریکہ نے جاپان کے بیشتر جزیرے واپس کردیئے لیکن وہاں اپنے فوجی اڈے برقرار رکھے۔ 1971ء میں شہنشاہ ہیروہیٹو نے سات یورپی ممالک کا دورہ کیا۔1972ء میں چین کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال ہوگئے۔ 1987ء تک جاپان تجارت کی دنیا کی سپرطاقت بن چکا تھا۔ 7 جنوری 1989ء کو شہنشاہ ہیروہیٹو (بعمر87 سال) انتقال کرگئے۔ انہوں نے 62 برس حکومت کی۔
جاپان ایک آئینی بادشاہت ہے جہاں پارلیمانی جمہوری نظام بھی رائج ہے۔ اس وقت شاہی خاندان کے 125ویں حکمران شہنشاہ اکی ہیٹو ملک کے سربراہ اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں۔ وزیراعظم حکومت کا سربراہ اور انتظامی اختیارات کا مالک ہے۔ جاپانی پارلیمنٹ کے ایوان نمائندگان میں511 اور ایوان مشاورت میں 252 ارکان ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں