حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ عنہ
حضرت مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ نے ایک بار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ آپؑ کی مریدی میں کیا مجاہدہ کرنا چاہئے کہ خداتعالیٰ کی محبت میں ترقی ہو۔ حضورؑ نے فرمایا کہ آپ عیسائیوں کے مقابلہ میں کتاب لکھیں۔
اگرچہ اس زمانہ میں آپؓ کو نہ عیسائیت کے عقائد سے زیادہ واقفیت تھی اور نہ ہی اسلام پر عیسائیوں کے اعتراضات کی کچھ خبر ، لیکن دل میں تڑپ سچی تھی۔ جب واپس وطن پہنچے تو آپؓ کو علم ہوا کہ وہاں کی مسجد کا امام بھی عیسائی ہو چکا ہے۔ آپؓ نے اس سے کہا کہ وہ آپؓ کو اپنے گرو کے پاس لے چلے۔ چنانچہ اس کے ہمراہ آپؓ ایک انگریز پادری کے پاس پہنچے اور عیسائیت کے عقائد کے بارے میں پوچھا لیکن اس پر آپؓ کا ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ کچھ بھی نہ بول سکا اور وعدہ کیا کہ لکھ کر اعتراضات بھیج دے گا۔ آپؓ نے مسجد کے امام سے کہا کہ جب تک اعتراضات نہ پہنچیں اور مجھ سے جواب نہ ملے تب تک آپ بپتسمہ نہ لیں۔ کچھ عرصہ کے بعد پادری کی طرف سے اعتراضات کا طومار موصول ہوا تو آپؓ نے امام کو دکھاکر پو چھا کہ ان کا جواب دینے کے لئے کتنا عرصہ چاہئے۔ امام نے کہا: ایک برس۔ لیکن آپؓ کے پاس فرصت تھی نہ عیسائیت کے بارے میں زیادہ علم اور نہ ہی اتنا پیسہ کہ سارے مشاغل ترک کرکے جواب لکھنے میں مصروف ہوجاتے۔
انہی دنوں راجہ پونچھ کا بیٹا زلزلوں کے سبب پاگل ہو گیا اور راجہ نے مہاراجہ کشمیر کے توسط سے آپؓ کو علاج کے لئے پونچھ بلوالیا۔ آپؓ کو مریض کے ساتھ شہر سے باہر ایک تنہا مکان دیا گیا۔ جہاں سارا سارا دن آپ نے اعتراضات کو سامنے رکھ کر بائبل اور قرآن کریم کا مطالعہ کیا اور پھر چار جلدوں پر مشتمل ایک کتاب ’’فصل الخطاب‘‘ لکھی۔ ایک سال بعد یہ کتاب تیار ہوئی تو مریض بھی اچھا ہوچکا تھا۔ راجہ نے کئی ہزار روپیہ بطور نذرانہ پیش کیا۔ اس رقم سے آپؓ کی کتاب کی طباعت ممکن ہوئی۔ پھر جب یہ کتاب اس امام مسجد اور ان کے مثل دوسرے احباب کو بھیجی گئی تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ اب ہم سچے دل سے مسلمان ہو گئے ہیں۔
یہ واقعہ بھی حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ کی ان منتخب تحریرات میں شامل ہے جو محترم محمودمجیب اصغر صاحب نے ماہنامہ ’’خالد‘‘ اکتوبر و نومبر 1996ء میں پیش کی ہیں۔
ایک شخص نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سے دریافت کیا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مریدوں کو کون سے وظائف اور اذکار بتایا کرتے تھے۔ آپؓ نے فرمایا کہ حضرت اقدسؑ عام طور پر درود شریف، استغفار، لاحول، سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کی تلاوت کا ارشاد فرماتے تھے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ ایک دن میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ڈائری دیکھوں۔ چنانچہ حضورؑ سے درخواست کی تو حضورؑ نے بلاتامل بھجوادی۔ ڈائری کے پہلے صفحہ پر اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضّالِیْنَ۔ کی دعا لکھ کر اس کے نیچے حضورؑ نے یہ نوٹ دیا ہوا تھا۔ ’’اے میرے خدا تو مجھ سے راضی ہوجا اور راضی ہو نے کے بعد پھر کبھی بھی مجھ سے ناراض نہ ہونا‘‘۔