حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22؍ستمبر 1998ء میں حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب کے قلم سے حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کا ذکر خیر ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے- آپ رقمطراز ہیں کہ آپؓ کا انداز بیان ایسا مربوط اور پُروقار تھا کہ لفظ لفظ سامع کے ذہن میں اترتا چلا جاتا- ہر بات کو منطقی دلائل سے ثابت کرنا اور کلام کو غیرمتعلق باتوں سے بکلّی پاک رکھنا ، آپؓ کی تحریر و تقریر کو سلک مروارید بنا دیتا تھا- ہندوؤں کے فلسفہ اور منطق کے جواب میں آپؓ کی کتاب ’’حدوث روح و مادہ‘‘ دینی فلسفہ اور علم کلام کی آئینہ دار اور لاجواب ہے- علم مناظرہ میں آپؓ کو کمال حاصل تھا- ایسے دو ٹوک، مختصر، مسکت اور جامع و مانع دلائل پیش فرماتے کہ مخالف بات کو طول نہ دے سکتا- آپؓ کا درس حدیث سوز و گداز اور ذوق و شوق سے بھرپور تھا گویا سامعین کو آنحضورﷺ کی مجلس میں پہنچا دیتا- یہی جی چاہتا کہ آپؓ بولتے رہیں اور ہم سنتے رہیں- اس درس میں آپؓ پر ایک ربودگی اور وجد کی کیفیت طاری ہوتی کہ سامع متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا- میر صاحبؓ میں انتظامی قابلیت بدرجہ اتم موجود تھی-آپؓ کے ماتحت آپؓ سے بے حد اخلاص اور محبت رکھتے تھے-
1944ء میں قادیان کے قریبی گاؤں بھامبڑی میں مخالفین کی مزاحمت کے باوجود احمدیوں کا کامیاب جلسہ منعقد ہوا- جلسہ کے اختتام پر مخالفین نے احمدیوں پر خشت باری شروع کی- حضرت میر صاحبؓ نے احمدیوں کو مقابلہ سے روک دیااور تدبر اور شجاعت سے احمدیوں کو فسادگاہ سے باہر نکال لائے لیکن پولیس نے دونوں فریقوں پر مقدمہ بنادیا اور آپ ؓ کو بھی مستغاث علیہ گردان لیا- اس مقدمہ کی سماعت دھاریوال یا گورداسپور میں ہوتی تھی- دورانِ مقدمہ رمضان شریف آگیا تو میر صاحبؓ فجر کی نماز کے بعد مسجد اقصیٰ قادیان میں درس دے کر بذریعہ موٹر دھاریوال پہنچ جاتے اور باوجود مقدمہ میں پیشی کے آپؓ نے درس میں ناغہ نہ ہونے دیا- پھر فریق مخالف کے بعض اشخاص کو آپؓ بڑی مہربانی سے عدالت سے باہر اپنے پاس بٹھاتے اور انہیں وعظ و تلقین کرتے- کسی قسم کا کینہ آپؓ کی طبیعت میں نہیں تھا- دورانِ جرح فریق مخالف نے آپؓ سے سوال کیا کہ بھامبڑی والوں نے آپ کے جلسہ کی مخالفت کی تھی اس لئے آپؓ کے دل میں اُن کے خلاف غم و غصہ ضرور پیدا ہوا ہوگا- آپؓ نے برجستہ جواب دیاکہ غم و غصہ نہیں بلکہ رحم اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوئے- اس جواب سے مجسٹریٹ متبسم اور محظوظ ہوا- مجسٹریٹ آپؓ سے باادب پیش آتا تھا- لیکن میر صاحبؓ جب عدالت کے کمرے میں داخل ہوتے تو تین چار منٹ کے لئے ملزمان کے کٹہرے میں اکیلے اور غمزدہ سے ہوکر کھڑے رہتے- ہم سب بھی تعظیماً کھڑے رہتے- جب یہ ماجرا کئی بار دیکھا اور آپؓ سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپؓ چشم پُر آب ہوگئے اور فرمایا کہ آتما رام مجسٹریٹ نے حضرت مسیح موعودؑ کو عدالت میں کھڑا رہنے پر مجبور کیا – اس لئے جب کبھی مجھے عدالت میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو حضورؑکی یاد میں چند منٹ میں بھی اسی طرح کھڑا رہتا ہوں- اس واقعہ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپؓ کو حضرت اقدسؑ سے کس قدر محبت تھی-