حضرت چوہدری نصراللہ خانصاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍ستمبر 2008ء میں حضرت چودھری نصراللہ خانصاحبؓ کے بارہ میں ایک مختصر مضمون شامل اشاعت ہے۔
آپ 1863ء میں پیدا ہوئے۔ ابتداء ہی سے سلسلہ سے ایسی محبت تھی کہ سیالکوٹ میں اکثر حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے درس میں شامل ہوتے اور خود مولوی صاحب اکثر فرماتے تھے کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ چوہدری صاحب اس سلسلہ سے علیحدہ رہیں۔ جب مولوی مبارک علی صاحب کے خلاف احمدی ہونے کے باعث ایک مقدمہ دائر ہوا اور جماعت سیالکوٹ نے چوہدری صاحب کو وکیل مقرر کیا تو مقدمہ کی پیروی کی خاطر آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کے لٹریچر کا تفصیلی مطالعہ کرنا پڑا اور آپ بڑے متاثر ہوئے۔ 1904ء میں آپ کو سیدنا حضرت مسیح موعود کی طرف سے مولوی کرم دین صاحب والے مقدمہ میں بطور گواہ صفائی بھی طلب کیا گیا جہاں انہیں پہلی بار حضرت مسیح موعود کی خدمت میں شرف باریابی حاصل ہوا اور آپ بہت خوشگوار اثر لے کر واپس آئے اور بالآخر حضور کے قیام سیالکوٹ کے دوران بیعت کرلی۔ (آپ کی اہلیہ محترمہ نے اپنے کشف کی بناء پر چند دن پہلے بیعت کرنے کی سعادت پائی)
بیعت کے بعد چوہدری صاحب میں ایک عظیم روحانی انقلاب پیدا ہوگیا۔ آپ 1917ء میں اپنی کامیاب وکالت چھوڑ کر قادیان تشریف لے آئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے نظارت علیا کے علاوہ صیغہ بہشتی مقبرہ کے فرائض سپرد فرمائے۔ اس منصب کو آپ نے آخری دم تک اعزازی طور پر نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا۔ اکیرن کے معرکہ شدھی میں بھی آپ کو حصہ لینے کا شرف حاصل ہوا۔ 1924ء میں حج سے مشرف ہوئے۔ آپ کا ایک علمی کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی بہت سی کتب کے جامع انڈکس تیار کئے۔ 2 ستمبر 1926ء کو اپنے قابل فخر فرزند چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب کے ہاں لاہور میں انتقال فرمایا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو آپ کے وصال کی خبر ڈلہوزی میں ملی جس پر حضور قادیان تشریف لائے اور 4 ستمبر 1926ء کو جنازہ پڑھایا اور چارپائی کو اٹھا کر لحد تک لے گئے اور آپ کی نعش کو مقبرہ بہشتی کی خاک کے سپرد کیا۔ بعدازاں خود اپنے ہاتھ سے کتبہ کی عبارت تحریر فرمائی جس میں لکھا:
’’نہایت شریف الطبع، سنجیدہ مزاج، مخلص انسان تھے۔ بہت جلد جلد اخلاص میں ترقی کی۔ بڑی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا۔ آخر میری تحریک پر وکالت کاپیشہ، جس میں آپ بہت کامیاب تھے، ترک کرکے دین کے کاموں کیلئے بقیہ زندگی وقف کی اور اعلیٰ اخلاص کے ساتھ۔ جس میں خداتعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ترقی ہوتی گئی۔ قادیان آ بیٹھے۔ اسی دوران میں حج بھی کیا۔ میں نے انہیں ناظر اعلیٰ کا کام سپرد کیا تھا جسے انہوں نے نہایت محنت اور اخلاص سے پورا کیا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ میری خوشنودی اور احمدی بھائیوں کا فائدہ اور ترقی کو ہمیشہ مدنظر رکھا۔ ساتھ کام کرنے کی وجہ سے میں نے دیکھا کہ نگاہ دوربین تھی۔ باریک اشاروں کو سمجھتے اور ایسی نیک نیتی کے ساتھ کام کرتے کہ میرا دل محبت اور قدر کے جذبات سے بھرجاتا تھا اور آج تک ان کی یاد دل کو گرما دیتی ہے‘‘۔