خلافت کا ایک عظیم الشان مقصد۔ استحکامِ خلافت اورتمکنت ِدین

(مطبوعہ انصارالدین یوکے مئی وجون 2021ء)

(چودھری ناز احمد ناصر)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ النور آیت نمبر 56کی تفسیر کرتے ہوئے اپنی تصنیف ’’سر الخلافۃ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’اس کی تفصیل کے متعلق اے عقلمندو اور اعلی فضیلت والو! جان لو تا کہ تم پر اس کی دلیل واضح ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں مسلمان مردوں اور عورتوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ضرور ان میں سے بعض مومنوں کو اپنے فضل اور رحمت سے خلیفہ بنائے گا اور ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا۔ پس یہ ایک ایسی بات ہے جس کا پورا اور مکمل مصداق ہم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کوپاتے ہیں جیسا کہ اہل تحقیق کے نزدیک یہ امر واضح ہے کہ ان کی خلافت کا زمانہ ایک خوف و مصائب کا زمانہ تھاکیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو اسلام اور مسلمانوں پر طرح طرح کی مصیبتیں نازل ہوئیں اور بہت سارے منافق مُرتد ہو گئے اور مرتدین کی زبانیں دراز ہو گئیں اور جھوٹے دعوے داروں سے ایک گروہ نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور ان کے گرد بہت سارے بادیہ نشین جمع ہوگئے یہاں تک کہ مسیلمہؔ کے ساتھ قریباًایک لاکھ جاہل اور فاجر لوگ آشامل ہوئے اور فتنوں نے جوش مارا اور مصائب بڑھ گئے اور قسم قسم کی بلاؤں نے دُور و نزدیک سے مسلمانوں کااحاطہ کر لیا اور مومن ایک سخت زلزلہ میں مبتلا کئے گئے اور مسلمانوں میں سے ہر فرد آزمائش میں ڈالا گیا اور خوفناک اور حواس کو دہشت ناک کرنے والے حالات پیدا ہو گئے اور مومن بے چارگی کی حالت کو پہنچ گئے۔گویا ایک انگارا تھاجو ان کے دلوں میں بھڑکایا گیا یا یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ چھری کے ساتھ ذبح کر دیئے گئے ہیں کبھی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق کی وجہ سے اور کبھی آگ کی مانند جلا دینے والے فتنوں کی وجہ سے روتے تھے اور امن وامان کا کوئی نشان باقی نہ رہا اور فتنوں میں پڑے ہوئے مسلمان ایسے مغلوب ہو گئے جیسے رُوڑی کے اُوپر اُگی ہوئی گھاس اُس کو ڈھانپ لیتی ہے۔ پس مومنوں کا خوف اور گھبراہٹ بڑھ گیا اور اُن کے دل دہشت اور کرب سے بھر گئے تو ایسے وقت میں حضرت ابوبکر کو زمانے کاحاکم اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بنایا گیا۔ اسلام پر حالاتِ واردہ کی وجہ سے اور ان باتوں کی وجہ سے جو آپ رضی اللہ عنہ نے منافقوں، کافروں اور مرتدین کی طرف سے دیکھیں۔ آپ رضی اللہ عنہ پر سخت غم طاری ہو گیا اور آپ رضی اللہ عنہ موسم ربیع کی بارش کی طرح روتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کے آنسو چشموں کی طرح بہتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ سے اسلام اور مسلمانوں کی بہتری اور بھلائی چاہتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب میرے باپ خلیفہ بنائے گئے اور اللہ تعالیٰ نے امرِ خلافت آپ رضی اللہ عنہ کو تفویض کیا تو آپ نے خلیفہ بنتے ہی فتنوں کو ہر طرف سے موجزن پایا اور یہ کہ جھوٹے نبوت کے مدعی جوش میں ہیں اور منافق مرتد لوگ بغاوت پر آمادہ ہیں۔ سو آپ رضی اللہ عنہ پر اس قدر مصائب آپڑے کہ اگر پہاڑوں پر اتنی مصیبتیں نازل ہوتیں تو وہ ٹوٹ کر گر جاتے اور ریزہ ریزہ ہو جاتے لیکن آپ رضی اللہ عنہ کو رسولوں کی طرح ایک صبر عطا کیا گیا یہاں تک کہ اللہ کی نصرت آئی اور جھوٹے مدعیان نبوّت قتل کئے گئے اور مرتد ہلاک کر دیئے گئے اور فتنوں اور مصائب کا قلع قمع کر دیا گیا اور معاملے کا فیصلہ کر دیا گیا اور امر خلافت مضبوط ہو گیا اور اللہ نے مومنوں کو مصیبت سے نجات بخشی اور ان پر خوف طاری ہونے کے بعد اسے امن میں بدل دیا اور ان کے دین کو مضبوط کر دیا اور مفسدین کے منہ کالے کر دئیے اور اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے ابو بکر صدیق کی مدد فرمائی اور سرکشوں اور بڑے بڑے بتوں کو تباہ کر دیا اور کفار کے دلوں میں رُعب ڈال دیا پس وہ شکست کھا گئے اور انہوں نے حق کی طرف رُجوع کیا اور سر کشی سے توبہ کی اور یہ غالب خدا کا وعدہ تھا جو تمام سچوں سے زیادہ سچاہے۔
پس دیکھو کس طرح خلافت کا وعدہ اپنے تمام لوازم اور نشانات کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ذات میں پورا ہوا اور تمہیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ تمہارا سینہ اس تحقیق کے لیے کھول دے اور غور کرو کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے وقت مسلمانوں کی کیسی کمزور حالت تھی اور اسلام مصائب کی وجہ سے ایک جلے ہوئے شخص کی طرح تھا۔ پھر اللہ نے دوبارہ اسلام کو طاقت بخشی اور اس کو گہرے کنویں سے نکالا اور جھوٹے مدعیانِ نبوت سخت عذاب کے ساتھ قتل کیے گئے اور مرتدین چوپایوں کی طرح ہلاک کر دیئے گئے اور اللہ نے مومنوں کو اس خوف سے امن دیا جس میں وہ مردوں کی طرح پڑے ہوئے تھے اور مومن اس مصیبت کے دور ہوتے ہی خوشیاں منانے لگے اورحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مبارک باد دینے لگے اور آپ رضی اللہ عنہ کو مرحبا اور خوش آمدید کہتے اور آپ رضی اللہ عنہ کی تعریف کرتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کے لئے خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کی تعظیم وتکریم میں جلدی کرتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کی محبت اپنے دلوں میں بٹھاتے تھے اور تمام امور میں آپ رضی اللہ عنہ کی اطاعت کرتے اور آپ رضی اللہ عنہ کے شکر گزار تھے اور انہوں نے اپنے دلوں کو جِلا دی اور دل کے کھیتوں کو سیراب کیا اور آپ رضی اللہ عنہ سے محبت میں بڑھ گئے اور پوری کوشش سے آپ رضی اللہ عنہ کی اطاعت کی اور وہ آپ رضی اللہ عنہ کو مبارک اور انبیاء کی طرح مؤید سمجھا کرتے تھے اور یہ سب کچھ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی سچائی اور گہرے یقین پر قائم ہونے کے سبب سے تھا۔ بخدا ! وہ اسلام کے آدمِ ثانی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کے لیے مظہرِ اول تھے۔ گو وہ نبی نہیں تھے لیکن ان میں انبیاء کے قویٰ پائے جاتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کے صدق کی بدولت اسلام کا باغ اپنی کامل ترو تازگی کو پہنچا اور اس نے اپنی زینت اور سکینت تیروں کے صدمات سہنے کے بعد حاصل کی اور اس کے اندر رنگا رنگ کے پھول پیدا ہوئے اور اس کی شاخیں غبار سے صاف ہو گئیں اور اس سے پہلے اسلام ایک ایسے مردہ کی طرح تھا جس پر ماتم کیا جا چکا ہو اور قحط سے بھگائے ہوئے اور مصائب سے زخمی اور سفروں سے درماندہ اور قسم قسم کی تھکان سے دُکھ دیئے ہوئے اور شعلوں والی دوپہر کے جلے بھنے ہوئے شخص کی مانند تھا پھر اللہ تعالیٰ نے اسے ان تمام مصائب سے نجات دی اور تمام آفات سے چھڑایا اور عجیب تائیدات سے اس کی مدد کی یہاں تک کہ اس نے بادشاہوں کی قیادت کی اور لوگوں کی گردنیں اس کے ہاتھ میں آگئیں۔ بعد اس کے کہ وہ درماندہ اور شکستہ ہو چکا تھا اور خاک میں مل چکا تھا۔ پس منافقوں کی زبانیں بند ہوگئیں اور مومنوں کے چہرے چمک اُٹھے اور ہر ایک شخص نے اپنے رب کی حمد کی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا شکر بجا لایا اور سوائے زندیق اور فاسق کے سب ان کے پاس مطیع بن کر آگئے۔ یہ سارا اَجر اُس بندے کا تھا جسے اللہ نے چن لیا تھا اور اسے اپنی دوستی کے لئے مخصوص کر لیا تھا اور اس سے راضی ہو گیا تھا اور اس کو عافیت بخشی تھی اور اللہ تعالیٰ محسنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
حاصل کلام یہ کہ یہ تمام آیات حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کی خبر دے رہی ہیں اور ان کا کوئی اَور مصداق نہیں ہے۔ پس آپ تحقیق کی نظر سے اسے دیکھیں اور اللہ سے ڈریں اور متعصب مت بنیں۔ پھر دیکھیں کہ یہ تمام آیات آئندہ کے لیے پیشگوئیاں تھی تا کہ ان کے ظہور کے وقت مومنوں کا ایمان بڑھ جائے اور وہ اللہ کے وعدوں کو پہچان لیں کیونکہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام میں فتنے پیدا ہونے اور اس پر مصائب نازل ہونے کی خبر دی تھی اور ان میں یہ وعدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اس وقت بعض مومنوں کو خلیفہ بنائے گا اور خوف کے بعد ان کو امن دے گا اوران کے متزلزل دین کو تقویت بخشے گا اور مفسدین کو ہلاک کرے گااور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پیشگوئی کا مصداق سوائے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اَوراُن کے زمانے کے کوئی نہیں۔ پس انکار نہ کریں کیونکہ اس کی دلیل تو ظاہر ہو گئی ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام کو ایسی دیوار کی طرح پایا جو مفسدین کی شرارت کی وجہ سے گرنے کو تھی، خدا تعالیٰ نے اِس کو اُن کے ہاتھوں ایک چونے، گچ، مضبوط اُونچے قلعہ کی طرح بنا دیا جس کی دیواریں فولادی تھیں اور اس میں ایسی فوج تھی جو غلاموں کی طرح فرمانبردار تھی۔ پس غور کریں کیا اس میں آپ کے لیے کوئی شک کی گنجائش ہے یا اس کی نظیر آپ کے نزدیک اور جماعتوں سے لانا ممکن ہے؟‘‘
(اردو ترجمہ از تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد6۔ ادارۃ المصنفین)
حضرت خلیفۃا لمسیح الرابعؒ نے مجلس مشاورت1984ء سے جو اختتامی خطاب فرمایا تھا،اس میں وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمۡ دِیۡنَھُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَھُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمۡ مِنۡ بَعۡدِ خَوۡفِھِمۡ اَمۡنًا کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:
’’پہلے یہ رکھا کہ دین کو تمکنت نصیب ہو گی یعنی اگر تم اس دنیا میں واقعۃً اللہ کے خلیفہ بن جاؤ گے تو تمہارے دین کو خدا تعالیٰ تمکنت عطا فرمائے گا۔ دین کو تمکنت عطا کرنے کے کیا معنے ہیں۔ عربی لغت کے لحاظ سے اقتدار کو تمکنت کہتے ہیں۔ غلبہ کو تمکنت کہتے ہیں۔ خوف کو دورکرنے اور امن میں آجانے کو تمکنت کہتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم نے یہ جو محاورہ استعمال کیا ہے: عِنۡدَ ذِی الۡعَرۡشِ مَکِیۡنٌ خدا تعالیٰ کے عرش کے پاس یعنی خدا تعالیٰ کی شان کے قریب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے اور یہ بے خوف مقام ہے۔ ایسا مقام ہے جس میں غلبہ بھی شامل ہو جاتا ہے، جس میں مقتدر ت شامل ہو جاتی ہے، جس میں بے خوفی شامل ہوجاتی ہے۔ …یہ ایک اور پہلو ہے جس کی طرف آپ کو متوجہ رہنا چاہیے کہ من حیث الجماعت خلافت اس وقت تک ہے جب تک یہ خلافت مرتکز ہے ایک خلیفہ کے وجود میں اور یہ وجود وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ اپنے تصرف کے تابع آپ کا نمائندہ بنا دیتا ہے یا اپنا نمائندہ بنا دیتا ہے ۔ دونوں صورتیں ہیں۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں