خلفاءِ احمدیت اور قبولیت دعا

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ جس کسی کو منصب خلافت پر سرفراز فرماتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت کو بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر اس کی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے‘‘۔
خلفاءِ احمدیت کی قبولیتِ دعا کے بعض واقعات مکرم فہیم احمد خادم صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍ مئی 1998ء میں شامل اشاعت ہیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے حج کے موقع پر دعا کی ’’یا الٰہی! جب مضطر ہوکر کوئی دعا تجھ سے مانگوں تو اس کو قبول کرنا‘‘۔ یہ دعا اس شان سے پوری ہوئی کہ آپؓ کی زندگی اس کے ثمرات سے بھری پڑی ہے۔
1909ء کے موسم برسات میں ایک دفعہ لگاتار آٹھ روز بارش ہوتی رہی جس سے بہت سے مکانات گر گئے۔ قریباً نویں دن حضورؓ نے ظہر کی نماز کے بعد فرمایا کہ میں دعا کرتا ہوں آپ سب لوگ آمین کہیں۔ اگرچہ دعا کے وقت بھی بارش بہت زور سے ہورہی تھی لیکن اس کے بعد بارش بند ہوگئی اور عصر کی نماز کے وقت آسمان بالکل صاف تھا اور دھوپ نکلی ہوئی تھی۔
حضرت قاضی محمد ظہورالدین اکمل صاحبؓ کے دو بیٹے یکے بعد دیگرے چالیس دن کے اندر فوت ہوگئے تو آپؓ نے ایک نظم میں ان بچوں کی وفات کے حوالہ سے دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے کسی سے یہ نظم سنی تو اس سے بے حد متاثر ہوئے اور حضرت قاضی صاحبؓ کو لکھا ’’میں نے آپ کیلئے بہت دعا کی ہے اللہ تعالیٰ نعم البدل دے گا‘‘۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت قاضی صاحبؓ کو دو لڑکے عطا فرمائے ایک محترم عبدالرحمٰن جنید ہاشمی صاحب B.A. اور ایک محترم عبدالرحیم شبلی صاحب M.A.
ایک مرتبہ حضورؓ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ دارالضعفاء اور سکول کے غریب طلبہ کے پاس سردی سے بچنے کیلئے کپڑے نہیں ہیں۔ آپؓ نے فرمایا ’’ہم ابھی دعا کرتے ہیں‘‘۔ چنانچہ دوسرے یا تیسرے دن اٹلی کے اعلیٰ قسم کے کمبل آنے شروع ہوگئے جو آپؓ تقسیم فرماتے رہے۔ جب غالباً نواں یا گیارھواں کمبل آیا تو آپؓ کی اہلیہ محترمہ کو وہ کمبل بہت پسند آیا اور انہوں نے عرض کی کہ یہ کمبل تو ہم نہیں دیں گے۔ آپؓ نے مسکرا کر فرمایا کہ آج اکیس کمبل آنے تھے مگر اب نہیں آئیں گے۔ چنانچہ اس کے بعد کوئی کمبل نہیں آیا۔
ایک دفعہ قریباً بارہ شریر لڑکے بورڈنگ میں داخل ہوگئے۔ حضورؓ کو علم ہوا تو آپؓ نے درس میں انہیں مخاطب کرکے فرمایا کہ وہ اپنی شرارتیں چھوڑ دیں ورنہ میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اُن سے ہمارا چھٹکارا کرادے۔ قریباً دو ہفتہ کے اندر اندر تمام لڑکے خودبخود بورڈنگ سے نکل گئے۔
محترم چودھری حاکم دین صاحب کی بیوی کو زچگی کی شدید تکلیف تھی۔ وہ رات گیارہ بجے حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے گھر گئے اور چوکیدار سے پوچھا کہ کیا میں حضورؓ کو اس وقت مل سکتا ہوں۔ چوکیدار نے نفی میں جواب دیا لیکن حضورؓ نے آواز سن لی اور اندر بلالیا۔ انہوں نے تکلیف کا ذکر کیا تو حضورؓ نے ایک کھجور پر کچھ پڑھ کر آپ کو دی اور فرمایا ’’یہ اپنی بیوی کو کھلادیں اور جب بچہ ہو جائے تو مجھے بھی اطلاع دیں‘‘۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور تھوڑی دیر بعد بچی پیدا ہوئی۔ انہوں نے سوچا کہ حضورؓ کو جگانا مناسب نہیں، چنانچہ صبح اذان کے وقت حاضر ہوئے اور حال عرض کیا۔ آپؓ نے فرمایا بچی پیدا ہونے کے بعد تم میاں بیوی آرام سے سو رہے اگر مجھے بھی اطلاع دے دیتے تو میں بھی آرام سے سو رہتا۔ میں تمام رات تمہاری بیوی کے لئے دعا کرتا رہا۔
حضرت مصلح موعودؓ کا تو اپنا وجود ہی دعاؤں کا ثمر تھا اور یہی فیض پھر آپؓ کے وجود سے آگے جماعت میں منتقل ہوا۔ مکرم سید اعجاز احمد شاہ صاحب کا بیان ہے کہ 1951ء میں جڑانوالہ سے چھوٹے بھائی نے مجھے ربوہ میں تار دی کہ والد صاحب کی حالت نازک ہے فوراً پہنچوں۔ میں نے مغرب کی نماز گھبراہٹ کے عالم میں حضرت مصلح موعودؓ کی اقتداء میں ادا کی اور نماز کے بعد دعا کیلئے عرض کیا تو فرمایا ’’اچھا دعا کروں گا‘‘۔ جب میں اگلی صبح جڑانوالہ پہنچا تو والد صاحب چارپائی پر بیٹھے پان چبا رہے تھے۔ بھائی نے بتایا کہ کل مغرب کے بعد سے حالت معجزانہ طور پر بہتر ہونی شروع ہوگئی ورنہ پہلے تشویشناک حد تک خطرناک تھی۔ میں نے اُسے بتایا کہ کل مغرب کے بعد ہی حضورؓ سے دعا کیلئے عرض کیا گیا تھا اور یہ اُسی کی برکت ہے۔
لالے ننگل ضلع گورداسپور کے ایک سکھ دوست تقسیم ملک سے قبل جمعہ کے روز قادیان آئے۔ ان کا بیان ہے کہ اُس روز قادیان میں بارش ہورہی تھی۔ جب حضورؓ جمعہ کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد اقصیٰ سے واپس تشریف لے جانے لگے تو میں نے عرض کیا کہ میرے گاؤں میں بارش نہ ہونے سے فصلوںکو بہت نقصان پہنچ رہا ہے، آپ دعا کریں۔ حضورؓ نے فرمایا خدا تعالیٰ اس بات پر قادر ہے اور میں بھی دعا کروں گا۔ اسکے بعد جب میں گاؤں واپس پہنچا تو وہاں بھی بارش ہو رہی تھی۔
محترمہ سعیدہ خانم صاحبہ کی ایک دو سالہ بیٹی کے پاؤں کے انگوٹھے پر چوٹ لگنے سے ہڈی کو نقصان پہنچا اور زخم ناسور بن گیا۔ ڈاکٹروں نے ٹانگ کاٹنے کا خطرہ ظاہر کیا۔ ایسی حالت میں حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کے لئے مسلسل دو تین ہفتے خط لکھ کر عرض کیا گیا اور حضورؓ کی طرف سے جواب بھی ملتا رہا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اُسی دوا میں شفا ڈال دی جو وہ پہلے بھی بیسیوں دفعہ استعمال کرچکے تھے۔
مکرم شیخ فضل حق صاحب کا چوتھا لڑکا پیدائش کے آٹھ نو ماہ بعد سخت بیمار ہوگیا۔ ہر قسم کا علاج تین سال تک ہوتا رہا یہاں تک کہ ٹانگیں جواب دے گئیں ۔ لوگ تعویذ کیلئے کہتے مگر انہوں نے کہا خواہ یہ مر جائے تعویذ نہیں دوں گا۔ آخر حضرت مصلح موعودؓ کو دعا کے لئے لکھا۔ آپؓ نے جواباً فرمایا ’’اللہ تعالیٰ عزیز کو صحت دے گا‘‘۔ یہ جواب ملنا تھا کہ بیماری میں فرق پڑنے لگا۔
مکرم فتح محمد صاحب مٹھیانی لکھتے ہیں کہ میں اور چار دوسرے دوست 1921ء میں احمدی ہوئے تو گاؤں میں ہماری شدید مخالفت شروع ہوگئی اور مخالفین نے بحث میں عاجز آکر کہا کہ کیا ہوا اگر یہ احمدی ہوگئے، انکو ملتی تو لڑکیاں ہی ہیں۔ اتفاق سے اُس وقت ہم پانچوں کے لڑکیاں ہی تھیں اور اولاد نرینہ نہ تھی۔ اس بات کا میرے دل پر بڑا صدمہ ہوا اور میں نے حضرت مصلح موعودؓ سے دعا کیلئے عرض کیا۔ آپؓ نے فرمایا کہ خداوند تعالیٰ آپ سب کو نرینہ اولاد دے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم سب کو نرینہ اولاد سے نوازا۔
حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے منصب خلافت پر سرفراز ہوتے ہی خدا تعالیٰ سے قبولیت دعا کے نشان کی استدعا کی تھی۔ چنانچہ آپؒ کا دورِ خلافت اس امر کا مونہہ بولتا ثبوت ہے کہ آپؒ کو یہ نشان بطور خاص مرحمت فرمایا گیا۔ فرینکفرٹ (جرمنی) کے مکرم خالد صاحب کے ہاں دس سال تک اولاد نہ ہوئی۔ ڈاکٹروں نے تشخیص کیا کہ رحم کے مونہہ پر کینسر کے آثار ہیں جس کے لئے آپریشن ضروری ہے۔ انہوں نے حضورؒ کی خدمت میں عرض کیا تو حضورؒ نے فرمایا آپریشن ہرگز نہ کرائیں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔ … ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ بچہ پیدا ہونے کی ننانوے فیصد کوئی امید نہیں اور آپریشن کے نتیجہ میں جو ایک فیصد امید ہے وہ بھی جاتی رہے گی۔ … لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں ایک بیٹی خولہ سے نوازا۔
چودھری محمد سعید کلیم صاحب کی بہو کو جرمنی میں پیٹ درد کی شکایت پر ڈاکٹروں نے آپریشن کا مشورہ دیا۔ جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی گئی تو فرمایا ’’اس کو لکھ دو کہ آپریشن نہ کرائے میں دعا کروں گا وہ ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔ خدا کے فضل سے وہ بغیر آپریشن کے ٹھیک ہوگئیں۔
ایک شخص نے حضورؒ کی خدمت میں تحریر کیا کہ اُس کے دو عزیزوں کو سزائے موت دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا ہے اور اب ہم رحم کی اپیل کر رہے ہیں لیکن بچنے کے کوئی امکانات نہیں جبکہ اصل مجرم بچ گیا ہے۔ آپ دعا کریں۔ حضورؒ نے تحریر فرمایا کہ میں دعا کروں گا خدا تعالیٰ بڑا ہی قادر اور رحیم ہے اس کے ہاں کوئی بات انہونی نہیں، مایوس نہ ہوں … چند دن بعد اسی عدالت نے دونوں کو بری قرار دیدیا۔
مغربی افریقہ سے ایک خاتون نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں لکھا کہ ہماری شادی کو 37 سال ہوچکے ہیں اور ہم اولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور اب عمر کی وجہ سے بظاہر ناممکن بھی نظر آتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضورؒ کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے شادی کے 40 سال بعد لڑکا عطا فرمایا۔
مکرم میاں محمد اسلم صاحب نے نومبر 1963ء میں قبول احمدیت کی توفیق پائی۔ اپریل 1965ء میں آپکی شادی ہوئی اور باوجود علاج معالجہ کے بارہ سال تک اولاد سے محروم رہے اور مخالفین کہنے لگے کہ یہ احمدی ہوگیا ہے اس لئے ابتر رہے گا۔ چنانچہ آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں تمام حالات عرض کرکے دعا کی درخواست کی تو حضورؒ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا اور ضرور نرینہ اولاد سے نوازے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹے عطا فرمائے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دور بھی آپ کی قبولیت دعا کا خاص نشان بن چکا ہے اور احمدیت ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے۔
مکرم سیف اللہ چیمہ صاحب اپنی بیوی بشریٰ کے ہمراہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ شادی پر ایک عرصہ گزر گیا ہے اور اولاد نہیں ہوئی۔ حضور نے بے اختیار کہا ’’بشریٰ بیٹی آئندہ جب آؤ تو بیٹا لے کر آنا‘‘۔ چنانچہ جلد ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹے سے نوازا۔
ایک غانین خاتون کی اولاد پیدائش کے دو ہفتہ کے اندر فوت ہو جاتی تھی۔ اُس نے حضور انور کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا تو فرمایا ’’بچے کا نام امۃالحئی رکھنا‘‘۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹی عطا فرمائی جو خدا کے فضل سے صحتمند اور ہشاش بشاش ہے۔
اسی طرح گھانا کے ایک چیف کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر قبول اسلام کی توفیق ملی۔ وہ نرینہ اولاد سے محروم تھے، ان کی اہلیہ کا دو مرتبہ حمل ضائع ہوچکا تھا۔ مایوس ہوکر انہوں نے حضور انور سے دعا کیلئے عرض کیا تو حضور نے بڑے درد سے دعا کی۔ کچھ مدت بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک صحتمند بیٹے سے نوازا۔
مکرم عبدالباسط صاحب لکھتے ہیں کہ ایک احمدی دوست اپنے کیس کے سلسلہ میں پریشانی میں حضور کی خدمت میں خط لکھ رہے تھے کہ ایک عرب دوست وہاں آگئے اور اُن کے دریافت کرنے پر اِنہوں نے بتایا کہ دنیا کی تدبیریں تو سب کرلی ہیں اب اپنے امام کو دعا کیلئے خط لکھ رہا ہوں۔ کچھ دن بعد احمدی دوست کے کیس کا فیصلہ اُسی روز اُن کے حق میں ہوا جس دن حضور کا جواب اُنہیں ملا۔ اس پر عرب دوست نے متاثر ہوکر کہا کہ میرے لئے بھی دعا کا خط لکھو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن کا کیس بھی اُسی روز منظور ہوا جس روز حضور کی طرف سے انہیں اطمینان کا پیغام ملا۔ جب یہ بات مشہور ہوئی تو ایک اور غیرازجماعت دوست نے اپنے ایک ایسے عزیز کیلئے دعا کی درخواست کی جو پاکستان میں تشویشناک طور پر بیمار تھا اور ڈاکٹر اُس کی بیماری کی تشخیص نہیں کرپا رہے تھے۔ اُنہوں نے اپنے خط میں گزشتہ واقعات کا حوالہ بھی دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ایک دن ڈاکٹروں نے بیماری کی تشخیص کرلی اور پھر مریض دیکھتے دیکھتے شفا پاگیا۔ لطف کی بات یہ تھی کہ ڈاکٹروں نے اُسی روز بیماری کی تشخیص کی جس دن حضور کا جوابی خط اُس دوست کو ملا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں