درویش صحابہ کرام:حضرت بھائی عبدالرحیم صاحبؓ

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں مکرم تنویر احمد ناصر صاحب کے قلم سے اُن 26 صحابہ کرام کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے جنہیں قادیان میں بطور درویش خدمت کی سعادت عطا ہوئی۔
حضرت بھائی عبدالرحیم صاحبؓ (سابق جگت سنگھ) ولد سردار چندر سنگھ ڈھلوں (آف سرسنگھ ضلع لاہور ) کا ذکرخیر قبل ازیں ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 2؍جولائی 1999ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں شامل اشاعت کیا جاچکا ہے۔
حضرت بھائی صاحب 1873ء میں پیدا ہوئے۔ احمدیت کا پیغام آپ کو حضرت سردار فضل حق صاحبؓ (سابق سردار سندر سنگھ بیعت 1898ء) کے ذریعہ ملا تھا اور آپؓ نے اس معیار پر سکھ اور اسلام کا موازنہ کیا کہ فی زمانہ جس مذہب میں کوئی بزرگ ایسا پایا جاتا ہو جو خداتعالیٰ سے ہمکلام ہوتا ہو اور اُس کی دعائیں سنی جاتی ہوں تو یہی مذہب قابل پیروی ہے۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں اُن دنوں فوج میں ملازم تھا جب سردار فضل حق صاحب سے گفتگو ہوئی۔ دو ماہ بعد رخصت پر گھر جارہا تھا کہ پہلے عازم قادیان ہوا اور آٹھ دن تک یہاں قیام کیا اور پھر شرح صدر سے حضرت مسیح موعودؑ کی اجازت سے سکھ رہتے ہوئے سلسلہ بیعت میں منسلک ہوگیا۔ پھر نماز سیکھی اور پڑھنی شروع کردی۔ رمضان میں روزے رکھنے بھی شروع کردیئے تو فوج میں سکھوں کو اشتعال آگیا اور انہوں نے اتنا مجبور کیا کہ 8مارچ 1895ء کو ملازمت سے استعفیٰ دے کر مستقل قادیان چلا آیا۔ استعفیٰ سے روکتے ہوئے ہیرا سنگھ نے کہا تھا کہ دولت کو ٹھوکر نہ مارو ورنہ تین سال کے بعد تم نہ مانگتے پھرو تومجھے کہنا اور جو چاہے کہنا۔ چنانچہ جب فوج سے ملنے والی رقم ختم ہوگئی اور مجھے ہیراسنگھ کے الفاظ یاد آئے تو مجھے شدید قلق پیدا ہوا اور پریشانی میں مَیں نے وضو کرکے ظہر سے پہلے کی سنّتوں میں خوب رو رو کر دعاکی تو قدرتِ حق نے محض اپنے ہی فضل سے نما ز ظہر کے بعد دو روپے ماہوار کا مجھے ٹیوٹر مقرر کروادیا۔
حضرت بھائی عبدالرحیم صاحبؓ کو 1895ء سے 1899ء تک حضورؑ کی بابرکت صحبت میں رہنے کا موقعہ ملا۔ ازاں بعد آپ مدرسہ تعلیم الاسلام کے ٹیوٹر اور پھر مدرس مقرر ہوئے اور 1934ء تک تعلیمی خدمات بجا لاتے رہے۔ آپؓ313؍اصحاب کبار میں سے تھے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے ’’ضمیمہ انجام آتھم‘‘ میں آپ کا نام 37 نمبر پر درج فرمایا ہے۔حضورؑ نے کئی بار آپؑ کی اقتداء میں نماز بھی ادا فرمائی۔ حضرت اقدسؑ کے عہد مبارک میں آپ کے قلم سے بعض علمی مضامین بھی شائع ہوئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کبھی سفر کے لئے تشریف لے جاتے تو حضور کی حرم حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ رتھ میں سوار ہوتیں تودوسرے خدام کے علاوہ آپ کو بھی ساتھ جانے کا حکم ملتا۔ آپ رتھ کے ساتھ ساتھ بطور محافظ بٹالہ اور پھر واپسی تک ساتھ رہا کرتے تھے۔ حضورؑ کی وفات کے وقت بھی آپؓ وہاں موجود تھے اور وفات سے قبل حضورؑ کے ارشاد پر حضورؑ کو دبانے کی سعادت بھی پائی۔
حضرت بھائی جی 1895ء سے تقسیمِ ہند تک قادیان میں قیام پذیر رہے۔ پھر پاکستان چلے گئے لیکن مئی 1948ء میں دوبارہ قادیان آگئے اور ناظر تعلیم و تربیت کے طور پر قادیان میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ حضرت مولانا عبد الرحمٰن صاحب جٹ فاضل امیر جماعت قادیان کی رخصت یا غیرموجودگی میں قائمقام ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی بھی آپؓ ہی ہوتے تھے۔
آپؓ ہر قسم کی تحریکات میں پُرجوش حصہ لیتے۔ چندہ جات باقاعدہ اور باشرح ادا فرماتے۔ آپ کی وصیت 1/4 حصہ کی تھی۔ صاحبِ رؤیا و کشوف و الہام تھے اور مستجاب الدعوات تھے۔ کئی دفعہ ایسا ہؤا کہ ادھر آپ کو خداتعالیٰ کی طرف سے اطلاع ملی اُدھر وہ بات پوری ہوگئی۔
عبادت نہایت خشوع و خضوع اور حضور قلب سے کرتے اور ایسا معلو م ہوتا کہ گویا آپ اس دنیا میں نہیں ہیں ۔ غرباء اور مساکین کا خاص خیال رکھتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے حساب دیا اور آپ نے بھی اسے خدا کی راہ میں اس کی خوشنودی کے لئے بے دریغ خرچ کیا۔ آپؓ نہایت منکسرالمزاج اور بے نفس اور یک رنگ بزرگ تھے۔ ہمیشہ نگاہیں نیچی رکھتے۔ گوشۂ تنہائی کو بہت پسند فرماتے اور شہرت سے کوسوں دُور بھاگتے۔ سالانہ جلسہ پر سٹیج ٹکٹ ملنے کے باوجود بالعموم دوسرے حاضرین میں بیٹھے رہتے ۔
آپ توکّل کے بلند مقام پر تھے۔ آپ کی ضروریات کا انتظام معجزانہ طور پر خدا تعالیٰ فرما دیتا تھا۔آپ نے دھرمسالہ، قادیان اور ربوہ میں مکانات تعمیر کرائے۔
حضرت بھائی عبد الرحیم صاحبؓ پر اپریل 1951ء میں فالج کا حملہ ہوا جس کے بعد جولائی 1953ء میں آپؓ حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت سے ربوہ آگئے جہاں 9جولائی 1957ء کو وفات پائی۔ حضورؓ نے نماز جنازہ پڑھائی ور بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ خاص میں مدفون ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں