سلام کا نام لوحِ زندگی پہ ثبت ہو چکا ہے
تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے سابق طلباء کی برطانیہ میں قائم ایسوسی ایشن کے آئن لائن ماہنامہ ’’المنار‘‘ مئی 2011ء میں جناب ڈاکٹر سعید اختر درانی صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ یہ مضمون مکرم محمد زکریا ورک صاحب کی کتاب ’’مسلمانوں کا نیوٹن‘‘ سے ماخوذ ہے۔
ڈاکٹر سعید اختر درّانی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام کے متعلق میری سب سے پہلی یادداشت 1940ء کے لگ بھگ کی ہے جب موسم گرما میں ہم نے اچانک یہ خبر سنی کہ جھنگ کے ایک غیر معروف اسکول کے طالب علم نے میٹرک کے امتحان میں یونیورسٹی آف پنجاب کے گزشتہ ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ میرے تایا حکیم محمد حسین (پرنسپل گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج جھنگ) نے سلام کی ایجوکیشن میں بہت ذاتی دلچسپی لی تھی۔ وہ بذات خود ایک مانے ہوئے سکالر تھے اور انہوں نے انڈین ایجوکیشن سروس کے امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کی تھی۔ ان کی علمی دلچسپیوں کا حلقہ بہت وسیع تھا یعنی تعلیم، ادب ،فلاسفی اور مذہب۔ وہ بتلایا کرتے تھے کہ ایک صبح گائوں کے سکول کا کوئی ٹیچر اپنے بیٹے کو سکول میں داخلہ دلوانے آیا اور درخواست کی کہ اُس کے اِس بچے کی خاص نگہداشت کی جائے کیونکہ وہ عبقری بچہ ہے۔ حکیم صاحب چونکے لیکن جب انہوں نے اس بچہ کو قریب سے دیکھا اور اس کی پرفارمنس دیکھی تو ان کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ فی الواقعہ ان کے ہاتھوں میں ایک غیرمعمولی چیز آگئی تھی۔ چنانچہ انہوں نے سلام کو پوری توجہ دی اور اُس کی کوچنگ احسن رنگ میں کی۔ چنانچہ سلام نے میٹرک کے امتحان میں گزشتہ ریکارڈ توڑ دیئے۔ پھر دو سال بعد جھنگ کالج سے انٹرمیڈیٹ امتحان میں بھی اعلیٰ نمبروں سے ریکارڈ توڑا۔ 1942ء میں اسے گورنمنٹ کالج میں داخلہ مل گیا جو اس وقت ہندوستان بھر میں سب سے اعلیٰ تعلیمی ادارہ تھا۔ اس کے بعد ہم سلام کو ترقی کے زینہ پر چڑھتے دیکھتے رہے جب وہ ہر دو سال بعد یونیورسٹی کے ریکارڈ توڑتا رہا۔ (یعنی بی اے اور پھر ایم اے میں)۔ اُس دَور کے تمام طلباء کو سلام کا تعلیمی کیرئیر انسپائر کرتا رہا اور وہ ہم سب کے لئے رول ماڈل بن گیا۔
گورنمنٹ کالج لاہور میں راقم الحروف نے پہلی بار جب عبدالسلام کو دیکھا تو وہ اس وقت افسانوی شخصیت بن چکا تھا۔ پتلا، خوبصورت، کافی لمبے قد کا نوجوان جس کے چہرہ پر برش قسم کی مونچھیں تھیں۔ اور جو اپنے کلاس روم یا ہوسٹل کے کمرہ سے باہر شاذ و نادر ہی نظر آتا تھا۔ اس وقت مَیں بھی نیو ہاسٹل کا مکین تھا جہاں عبدالسلام بورڈر کے طور پر مکین تھا۔ یہاں اُس کے محنتی ہونے کے بارہ میںقسم ہا قسم کی کہانیاں سننے میں آتی تھیں۔ مثلاً یہ کہ ہر صبح اُس کے کمرہ کے باہر کاغذوں کا انبار لگا ہوتا تھا جن پر ریاضی کے فارمولے اور سوالات حل کئے ہوتے تھے۔
میرے گورنمنٹ کالج آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد وہ یہاں سے شہرت کی ہوائوں کے دوش پر سوار ہو کر کیمبرج روانہ ہو گیا۔ پھر 1951ء کے لگ بھگ لیکچراربن کر کالج واپس آیا۔ وہ اس وقت یونیورسٹی میں Quantum Mechanics کے موضوع پر ایک کورس پڑھا رہا تھا اور کالج کے پرنسپل قاضی محمد اسلم کے گھر پر رہائش پذیر تھا۔ میری ملاقات بعض دفعہ اُس سے کالج کے سوئمنگ پول پر ہوتی تھی۔ اس وقت مَیں فزکس میں M.Sc. کر رہا تھا اور اس کے لیکچر سنا کرتا تھا۔ سلام سادہ اور بے تکلف قسم کا انسان تھا جو طلباء سے دوستانہ رنگ میں پیش آتا تھا۔
اس دَور کا اہم ترین واقعہ ’پاکستان ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس لاہور‘ کی طرف سے انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد تھا جس میں مشہور سائنس دانوں کے علاوہ متعدد نوبل انعام یافتگان نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس کے دوران ہمیں یہ احساس ہوا کہ عبدالسلام دنیا کے ان چوٹی کے سکالرز کی نظر میں کس وقعت اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ امر سائنس کے طالب علموں کے لئے بہت روح پرور اور اَپ لفٹنگ تھا۔ کانفرنس کے اختتام پر مندوبین کو ریل گاڑی کے ذریعہ پشاور اور درّۂ خیبر کی سیر کرائی گئی۔ اس سفر کے دوران مجھے ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ گوناگوں موضوعات پر تبادلہ خیال کرنے کا نادر موقعہ میسر آیا۔
اس کے بعد عبدالسلام سے میری ملاقات 1953ء میں کیمبرج یونیورسٹی میں ہوئی جہاں میں کیونڈش لیبارٹری میں ڈاکٹریٹ کرنے گیا تھا۔ 1954ء میںسلام کیمبرج میں فیلو کے طور پر اور سینٹ جانز کالج میں لیکچرار بن کر آیا۔ اب کی بار میں نے ریاضی کے ڈیپارٹمنٹ میں دوبارہ اس کے (اورپال ڈائیراک کے ) لیکچروں میں شرکت کی۔ مَیں ان دونوں اساتذہ کے لیکچروں سے اس وجہ سے بہت متأثر ہوا کہ ان کو اپنے دقیق موضوع یعنی تھیوری آف کوانٹم میکینکس پر زبردست عبور حاصل تھا۔
سلام پاکستانی اور انڈین طلباء کے لئے ہمیشہ رسائی کے قابل ہوتا تھا بلکہ مجھے کئی بار اس کی خوشنما رہائشگاہ پر جاکر بات چیت کرنے کا بھی موقعہ ملا۔ ایک اَور جگہ جہاں مَیں ڈاکٹر عبدالسلام سے متواتر ملتا رہا وہ Jesus College کا Prioress Room تھا جہاں (ریسرچ کرنے والے) طلباء کے لئے ہائی انرجی فزکس میں نئی تھیوریز پر بحث کرنے کے لئے ہمارا سپر وائزر Sir Dennis Wilkinson اجلاس منعقد کیا کرتا تھا۔ ان اجلاسوں میں اکثر شرکت کرنے والے مدعووین ڈاکٹر سلام اور پروفیسر برائن (بعد میں لارڈ برائن) ہوا کرتے تھے۔
مَیں Experimental Physist تھا لیکن اس کے باوجود 1958ء میں عبدالسلام میرے ڈاکٹریٹ کے مقالہ کے لئے ایکسٹرنل ایگزیمینر مقرر ہوئے۔ بعدہٗ سرولکنسن نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں Experimental Nuclear Physics کی چیئر قبول کرلی ۔ چنانچہ اُن کے کیمبرج کے تمام شاگرد بھی اُن کے تعاقب میں آکسفورڈ پہنچ گئے۔ اس عرصہ میں سلام نہ صرف رائل سوسائٹی کا نوجوان ترین فیلو (31 سال کی عمر میں) منتخب ہوا بلکہ اس کی تعیناتی امپیریل کالج لندن میں بطور پروفیسر آف تھیوریٹیکل فزکس کے بھی ہو گئی۔
میرے ایکسٹرنل ایگزیمنر کے طور پر سلام میرے ساتھ بہت اُلفت اور رواداری سے پیش آتے اور میری تھیوریٹیکل فارمولیشن کے لئے فطری استعداد کو ہائی انرجی فزکس کی فیلڈ میں بہ نظر تحسین دیکھتے۔ وہ مجھے ہمت دلاتے کہ مَیں اپنے مقالہ کے فٹ نوٹس میں فوٹان… وغیرہ جیسے اصطلاحی الفاظ کے یونانی، فارسی اور سنسکرت زبانوں سے Roots نکال کر پیش کروں۔ (مجھے انتہائی افسوس ہے کہ میں اس مشورہ پر عمل درآمد نہ کر سکا)۔
ڈاکٹریٹ مکمل کرنے کے بعد مَیں نے اپنے کیرئیر میں نیا قدم اٹھانے سے قبل سلام سے مشورہ کرنے کے لئے رجوع کیا۔ اس نے مشورہ دیا کہ چونکہ پاکستان میں اس وقت سائنسی طور پر ایک ہی عملی ادارہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ہے اس لئے میں اس ادارہ میں ملازمت حاصل کرلوں۔ اس نے مجھے ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی سے متعارف کرنے کی پیشکش کی جو اس وقت کمیشن کا ذہین و فطین چیئرمین تھا اور سلام کا قریبی دوست ہونے کے باعث وہ لندن آنے پر ہمیشہ سلام کے گھر میں قیام کیا کرتا تھا۔ چنانچہ ڈاکٹر عثمانی اگلی بار جب لندن آیا تو سلام نے میرا تعارف اس سے کرادیا۔ یہ ملاقات آکسفورڈ میں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر عثمانی نے مجھے مشورہ دیا کہ ہائپر آن پر تحقیق سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہ ہوگا لہٰذا مجھے اپنی فیلڈ تبدیل کرکے ری ایکٹر فزکس میں خود کو سپیشلائز کرنا چاہئے۔ مَیں نے اس کے مشورہ کے مطابق اگلے تین سال یوکے اٹامک اتھارٹی کے ساتھ ریسرچ کا کام کیا اور پھر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں ملازمت اختیار کر لی اور مجھے جلد ہی لاہور میں اٹامک انرجی سینٹر کا ڈائریکٹر بنادیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام اس سینٹر میں لندن سے صدر پاکستان کے سائنسی مشیراعلیٰ کے طور پر اکثر آیا کرتا تھا۔
قریباً 1964ء کا ذکر ہے کہ ڈاکٹر عثمانی نے بہ حیثیت گورنر انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن (وی آنا آسٹریا) اور سلام نے مل کر ایک پلا ن تیار کیا جو بعد میں انٹرنیشنل سینٹر فار تھیوریٹکل فزکس کی صورت میں ٹریسٹ (اٹلی) میں منصہ شہود پر آیا۔ اس کا اصل مرکز لاہور تجویز ہوا تھا مگر حکومت پاکستان کی طرف سے اس ضمن میں بھاری رقم صَرف کرنے میں ہچکچاہٹ اور کوتاہ نظری کے باعث اور ساتھ ہی اطالین حکومت کی فراخدلی کی وجہ سے بالآخر مقام کی تبدیلی ہوگئی اور باقی کی کہانی تاریخ کا حصہ بن گئی۔
1967ء میں مَیں نے یونیورسٹی آف برمنگھم کے شعبہ فزکس میں ملازمت اختیار کر لی اور 1979ء میں جب ڈاکٹر سلام کو نوبل انعام دیا گیا تو میں نے اس کو مبارکباد کا خط روانہ کیا۔ جس کے جواب میں اس نے مجھے لکھا: مجھے افسوس ہے کہ آج تمہارے تایا جان زندہ نہیں ہیں ورنہ آج کے روزہ وہ مجھ پر نازاں و فرحاں ہوتے۔
اس کے بعد سلام سے میرا رابطہ ٹریسٹ میں 1991ء میں ہوا جب میں ICTP کے ریڈان ورکشاپ میں فیکلٹی لیکچرار کے طور پر شمولیت کے لئے گیا۔ وہاں سلام نے مجھے لنچ پر مدعو کیا اور اس کے بعد ایک صبح ناشتہ کے بعد اپنے آفس میں گفتگو کے لئے مدعو کیا۔ اس نے میرے سامنے COMSATS یعنی (Commission on Science & Technology in the South) کے اغراض و مقاصد بیان کئے۔ یہ کمیشن تیسری دنیا کے ممالک کے سربراہانِ حکومت پر مشتمل تھا تاکہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں انقلاب کے لئے اعلیٰ سطح پر مصمّم ارادے کا اظہار ہوسکے اور جس کے قیام کے لئے سلام تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنس کے صدر کی حیثیت سے گزشتہ کئی سالوں سے پوری تن دہی سے مصروف عمل تھا۔
مذکورہ ملاقات میں عبدالسلام نے COMSATS کی فاؤنڈنگ میٹنگ کے پاکستان میں انعقاد میں غیرضروری التوا کے بارہ میں دل گرفتگی کا اظہار کیا۔ اس نے بتلایا کہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے کمیشن میں شمولیت اور ایسی فائونڈنگ میٹنگ کے انعقاد کے لئے رضامندی کا اظہار کیا تھا مگر قبل اس کے کہ ایسا ہو سکتا اُن کی حکومت معزول ہو گئی جبکہ نواز شریف کی نئی حکومت اس بارہ میں حیل و حجّت سے کام لے رہی تھی۔
ایک ماہ بعد مَیں سائنس کانفرنس میں شمولیت کے لئے پاکستان جانے والا تھا۔ مَیں نے کہا کہ وہ مجھے صدر پاکستان کے نام ایک خط دے اور اس کی نقل وزیر اعظم کے نام ہو۔ مَیں نے یہ تجویز بھی دی کہ ترغیب کے طور پر وہ یہ بھی لکھ دے کہ جس ملک میں فائونڈنگ میٹنگ ہوگی وہیں COMSATS کا مرکز بھی مقرر کیا جائے گا۔ سلام نے دونوں تجاویز کو قبول کر لیا۔
چنانچہ ڈاکٹر عبدالسلام کا خط لے کر مَیں نے جنوری 1992ء میں صدر غلام اسحق خاں سے ملاقات کی۔ مگر اُن کو مائل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ثابت ہوا۔ تاہم آخرکار انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ مَیں وزیر اعظم سے ملاقات کروں جو کہ اس معاملہ میں فیصلہ کُن اتھارٹی ہیں۔ وزیر اعظم اس وقت بیرون ملک تھے۔ مَیں نے ان کو سوئٹزرلینڈ کے شہر Davos میں جا پکڑا جہاں یکم فروری 1992ء کو Economic Summit ہو رہی تھی۔ میں نے نواز شریف کو قائل کرلیا کہ COMSATS کی فائونڈنگ میٹنگ پاکستان میں ضرورمنعقد ہو جس میں 50 سربراہانِ مملکت کی شرکت کی توقع تھی۔ وزیراعظم نے آئندہ بننے والے بجٹ میں اس مقصد کے لئے دو ملین امریکن ڈالر مختص کرنے کا حکم دے دیا۔
میں نے سلام کو فوراً آکسفورڈ فون کیا اور اسے خوشخبری سنائی۔ وہ اس نوید سے بہت مسرور ہوا اور مجھے کہا کہ مَیں نواز شریف کا تہہ دل سے شکریہ ادا کروں اور اسے فرصت ملنے پر ICTP کے دورہ کی دعوت بھی دوں۔
جون 1992ء میں جب نواز شریف برازیل میں Earth Summit میں شمولیت کے بعد براستہ لندن پاکستان واپس جا رہے تھے تو مَیں ڈاکٹر سلام کو آکسفورڈ سے کار پر ڈرائیو کرکے ڈورچسٹر ہوٹل میں اُن سے ملاقات کے لئے لایا۔ نواز شریف نے سلام کو مخاطب ہو کر کہا: سر! آپ کی وجہ سے پاکستان کو اتنی عزت ملی ہے اور اس وجہ سے ہمیں بھی عزت نصیب ہوئی ہے ہمیں کوئی حکم دیں اس کی تعمیل فوری طور پر ہوگی اور اگر آپ کی صحت یابی کے لئے ہم کچھ کر سکتے ہیں جس سے عارضہ میں کمی واقع ہوسکے تو ازراہ کرم مجھے ذاتی طور پر اس سے مطلع کریں مَیں اس کی تعمیل میں ذرا بھی گریز نہ کروں گا۔
یہ سارا سین بہت رقّت آمیز تھا اور اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ پاکستان کے ارباب اختیار کے دل میں سلام کا کتنا احترام ہے۔ COMSATS کی فاؤنڈنگ میٹنگ کے انعقاد کی قطعی تاریخ کا فیصلہ TWAS یعنی (Third World Academy of Sciences)کی کویت میں 1992ء میں ہونے والی کانفرنس تک ملتوی کر دیا گیا لیکن ایک بار پھر پاکستان کی یہ حکومت بھی معزول ہو گئی قبل اس کے کہ اجلاس منعقد ہوتا۔
اب ہمیں تمام تگ و دو دوبارہ سے شروع کرنا پڑی۔ بے نظیر بھٹو ایک بار پھر برسر اقتدار آگئیں۔ مَیں نے سلام سے ایک نیا خط اُن کے نام لکھوایا۔ میری ملاقات بے نظیر سے دسمبر 1993ء میں ہوئی اور اس نے اس سے پہلے کئے ہوئے وعدے کو ایفاء کرنے کاعہد کیا۔ اس نے مجھے کہا کہ ہمیں پروفیسر سلام کے پایہ کے لوگوں سے رہنمائی کی اشد ضرورت ہے اور یہ جاننے پر کہ سلام کی صحت اب کس قدر ناساز ہے اس نے صحت یابی کا ذاتی پیغام بھجوانے کے ساتھ پھولوں کا گلدستہ بھی لندن ہسپتال بھجوانے کا حکم دیا۔
COMSATS کی فائونڈنگ میٹنگ اسلام آباد میں 4 اور 5؍ اکتوبر 1994ء کو پوری شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہوئی اور کمیشن کا مستقل صدر مقام بھی وہاںقائم ہوگیا۔ مگر وائے افسوس کہ اس پلان کا خالق شدید علالت کے باعث اس میٹنگ میں شرکت کرنے سے قاصر رہا ۔ مَیں نے دونوں اداروں یعنی ICTP اور TWAS کو تجویز کیا کہ سلام کا ایک پورٹریٹ کامسیٹس کی میٹنگ میں آراستہ کیا جائے۔ مَیں نے مشہور زمانہ پاکستانی مصور مسٹر گُل جی سے درخواست کی کہ وہ سلام کا ایک پورٹریٹ بنائیں مگر سلام اس قدر علیل تھا کہ پورٹریٹ کے لئے صحیح انداز میں بیٹھنے سے محروم تھا۔ لہٰذا مسٹر گُل جی نے خاکے بنائے جو میٹنگ میں زیبائش کے لئے رکھے گئے۔ یوں کم از کم ان پورٹریٹ سکیچز نے اس موقعہ کو خوشگوار بنا دیا۔
1995ء میں ان سات خاکوں میں سے جو گُل جی نے بنائے تھے ایک خاکہ مَیں ٹریسٹ لے کر گیا اور اب یہ ICTP میں دیوار پر آراستہ ہے۔
ستمبر 1994ء میں پورٹریٹ میکنگ والی ملاقات کے بعد میری سلام سے ملاقات نومبر 1996ء (یعنی اُن کی رحلت) تک بہت کم ہوئی۔ اگرچہ فون پر ایک یا دو دفعہ بات چیت ہوئی۔ فون پر مَیں اُن کی طرف سے پنجابی زبان میں صرف سرگوشی ہی سن سکا۔ اُن کی بیگم لوئیس کی فرمائش پر مَیں نے غالبؔ کی بعض غزلیں انگلش میں ترجمہ کیں جن کے کیسٹ سلام کو بہت عزیز تھے۔ اُن کو سن کر انہیں بہت ذہنی سکون حاصل ہوتا۔ پھر اقبالؔ کی اردو اور فارسی شاعری کے کیسٹ بھی اُن کو ارسال کئے جو اقبال اکیڈمی (برطانیہ) نے تیار کئے تھے اور جس کا مَیں چیئرمین تھا۔
ڈاکٹر عبدالسلام میرے نزدیک آئن سٹائن، پال ڈائیراک، ہائزن برگ کے پایہ کا عبقری سائنسدان تھا۔ ہم میں سے بہتوں کے خیال میں سلام دوسرے نوبل انعام کا بھی مستحق تھامگر اس بار اُسے تیسری دنیا میں سائنس کے فروغ کے لئے اُس کی لائف لانگ سروس کی بِنا پر انعام ملنا چاہئے تھا۔ ICTP اور TWAS دو ایسے ادارے ہیں جو اُس کے زرخیز دماغ کی پیداوار تھے اور جو سائنس اور تیسری دنیا کے لئے اس کی پُرشوکت خدمات کی بِنا پر اس کے خوبصورت نام کو زندہ جاوید رکھیں گے۔
سلام کا نام یقینا لوحِ زندگی پر ثبت ہوچکا ہے۔