سیرالیون میں تائید الٰہی کے ایمان افروز واقعات
سیرالیون نے برطانیہ سے 1962ء میں آزادی حاصل کی۔ 1922ء میں حضرت مولوی عبدالرحیم نیر صاحبؓ نے غانا جاتے ہوئے یہاں مختصر قیام فرمایا اور دعوت الی اللہ کی۔ حضرت مولانا الحاج نذیر احمد علی صاحب پہلے باقاعدہ مبلغ تھے جو 1937ء میں سیرالیون کے ضلع کامبیا کے ایک قصبہ روکوپور میں پہنچے تو وہاں ایک شخص مسٹر کمارا نے انہیں دیکھتے ہی سینے سے لگالیا کیونکہ انہوں نے چار سال قبل آپ کو خواب میں دیکھا تھا۔ آج سیرالیون میں متعدد سکول، کلینک اور احمدیہ جماعتیں موجود ہیں۔
ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 11؍نومبر 1999ء میں سیرالیون میں احمدیت کی تبلیغ اور تائید الٰہی کے واقعات پر ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ اکثر واقعات وہ ہیں جو حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنی مختلف تقاریر میں بیان فرمائے ہیں۔
مکرم ارشاد احمد ملہی صاحب بیان کرتے ہیں کہ فری ٹاؤن میں ایک گروہ کے امام پاعبداللہ ٹورے نے اپنے احباب کے ساتھ مسجد میں بیٹھ کر چالیس روز تک سورۃ یٰسٓ اور سورۃالواقعہ اکیالیس اکیالیس مرتبہ پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم کی طرف راہنمائی چاہی۔ اس کے بعد امام نے خواب میں دیکھا کہ وہ جماعت احمدیہ کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے اور نماز کے بعد احمدی امام نے اُنہیں گلے سے لگالیا ہے۔ چنانچہ امام نے یہ خواب بیان کرتے ہوئے اپنے سارے گروہ کے ساتھ بیعت کرلی اور اُن کی بنی بنائی مسجد بھی جماعت احمدیہ کو مل گئی۔
مکرم ارشاد ملہی صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ مکالی چیفڈم کے گاؤں مالینکے میں ایک رات تمام اہل گاؤں کو اکٹھا کرکے پیغام احمدیت پہنچایا۔ پھر سوال و جواب کی محفل ہوئی۔ صبح تک لوگوں کے رویہ سے یہ بات عیاں تھی کہ وہ احمدیت قبول کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن چونکہ وہاں امام کی مرضی کے خلاف دینی امور کے بارہ میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا اس لئے جب امام نے احمدیت قبول نہ کرنے کا فیصلہ سنایا تو پوری مجلس میں خاموشی چھاگئی۔ کچھ دیر بعد تمام اہل گاؤں نے کہا کہ یہ تو امام کا فیصلہ ہے لیکن ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ احمدیت سچی ہے اور ہم سب احمدیت قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد امام نے بھی احمدیت قبول کرلی۔
مکرم نسیم تبسم صاحب بیان کرتے ہیں کہ دسمبر 94ء میں بینڈے بو سے چھ میل دور گاؤں لوہنڈی میں ایک نوجوان مسٹر عیسیٰ جالو نے احمدیت قبول کرلی۔ وہ عربی اور انگریزی دونوں زبانیں جانتے ہیں۔ اُن کا والد پاالحاجی جو علاقہ کے ممتاز افراد میں سے ہے، اُس نے پہلے نرمی سے او رپھر سختی سے اپنے بیٹے کو سمجھایا اور کہا کہ پیراماؤنٹ چیف کی مدد سے ہماری کوشش ہے کہ یہ جماعت جلد اس علاقہ کو خالی کردے۔ تاہم کئی لوگوں نے جو پاالحاجی کے خوف سے پہلے احمدیت کو چھپاتے تھے عیسیٰ صاحب کے احمدی ہونے کے بعد اعلانیہ احمدی کہلانے لگے۔ اس پر پاالحاجی نے اپنے بیٹے کو جائیداد سے عاق کرکے اُس کو بیوی بچوں سمیت گھر سے نکال دیا۔ اس واقعہ کے ایک ہفتہ بعد ہی باغیوں کو پناہ دینے کے الزام میں پاالحاجی کو پہلے مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ وہ جنگل میں بھاگ گیا تو اُسے اشتہاری ملزم قرار دے کر چار دن بعد گرفتار کیا گیا اور وہ جو علاقہ کا معزز فرد سمجھا جاتا تھا، وہ قیدخانہ میں پھینکا گیا۔
مکرم فضل احمد شاہد صاحب بیان کرتے ہیں کہ یونی باناچیفڈم کے گاؤں سمبویا میں دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں لوگ احمدیت قبول کرنے پر تیار تھے لیکن ایک معاند جسے اپنی عربی دانی پر بہت ناز تھا اُس نے لوگوں کو روک رکھا تھا۔ جب ہم اگلے روز دوسرے گاؤں جانے لگے تو وہ معاند کہنے لگا کہ اُس نے اُس گاؤں میں بھی پیغام بھیج دیا ہے اور وہاں بھی کوئی احمدیت قبول نہیں کرے گا۔ مَیں نے اُسے کہا کہ اگر تمہارے دو گاؤں احمدیت میں شامل نہیں ہوں گے تو یہ احمدیت کا نہیں بلکہ تمہارا اپنا نقصان ہے اور احمدیت کو خدا تعالیٰ اس کے بدلہ میں بے شمار دیہات عطا کرے گا۔ اس واقعہ کے تیسرے ہی دن تین قریبی دیہات نے احمدیت قبول کرلی اور آٹھ ماہ میں چوبیس دیہات احمدیت کی آغوش میں آگئے۔
مکرم فضل شاہد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ممالکی گاؤں میں ایک رات اچانک لوگوں کے رونے کی آواز آئی۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک بیمار بچی کی حالت خطرناک ہے۔ وہاں کوئی ڈسپنسری بھی نہیں تھی۔ میرے پاس چند دوائیں تھیں۔ مَیں نے اپنی سمجھ کے مطابق پانی ملاکر ایک دوا دیدی۔ کچھ ہی دیر میں بچی سوگئی اور مَیں نے موجود لوگوں کو ساتھ ملاکر بچی کی شفا کے لئے دعا کی۔ اگلے روز وہ بچی مکمل صحتیاب ہوچکی تھی۔
مکرم عبدالکریم صاحب بنگورا لوکل معلم کو باغیوں نے پکڑلیا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ فری ٹاؤن سے چالیس میل دور لے گئے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ سب قیدیوں کو قطار میں کھڑا کیا اور پہلے چالیس قیدیوں کو علیحدہ کرکے گولی مار دی۔ مرا نمبر 41واں تھا۔ پھر باغیوں کے لیڈر نے قیدیوں سے پوچھا کہ کون جمعہ پڑھائے گا۔ مَیں نے جواب دیا کہ مَیں احمدیہ جماعت کا معلم ہوں اور جمعہ پڑھاؤں گا۔ اگلے روز جمعہ کے دن مَیں نے امن اور بھائی چارے پر خطبہ دیا جس پر باغیوں کے سردار نے خوش ہوکر مجھے بیس ہزار لیون دیئے۔ دو دن بعد موقع پاکر مَیں بھاگ نکلا اور نو دن پیدل سفر کرکے واپس فری ٹاؤن پہنچ گیا۔
جالایونیورسٹی کے احمدی طالبعلم محمود کوکا صاحب کو بھی باغیوں نے پکڑ لیا اور ایک قطار میں کھڑا کرکے لوگوں کے ہاتھ کاٹنے شروع کئے۔ جب ہاتھ کاٹنے والا اِن تک پہنچا تو اُس کے ساتھی نے اُسے آواز دے کر کہا کہ تمہیں کس نے ہاتھ کاٹنے کو کہا ہے۔ کمانڈر کہہ رہا ہے، ہاتھ مت کاٹو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت فرمائی۔
مشاکاؔ میں لوکل معلم مکرم الفا کروما صاحب تھے۔ جب باغیوں نے پورا قصبہ جلا دیا تو یہ بڑی مشکل سے باغیوں سے جان بچاکر بھاگے لیکن سرکاری فوج نے پکڑ لیا کہ تم باغی ہو۔ انہوں نے کہا کہ مَیں احمدیہ جماعت کا معلم ہوں۔ انہوں نے ثبوت مانگا۔ اتفاقاً ان کے تھیلے میں ایک رسیدبُک نکل آئی اور اس طرح انہوں نے ان کو چھوڑ دیا۔
فری ٹاؤن کی جماعت Kissy up Hill کے صدر پااِبو بھی باغیوں کے نرغے میں آگئے۔ باغیوں نے ان کے ہاتھ کاٹنے کے لئے دس وار کئے لیکن کامیاب نہ ہوئے تو ان کو چھوڑ دیا۔ البتہ ان کے ہاتھ شدید زخمی ہوگئے جو علاج کے بعد اللہ کے فضل سے ٹھیک ہوگئے۔
لوکل معلمین حسن بلا صاحب اور ابوبکر لنگی صاحب گاؤں گاؤں تبلیغ کرتے ہوئے ایک گاؤں میں پہنچے اور وہاں کی مسجد میں قیام کیا۔ کچھ دیر بعد تین چار فوجی وہاں پہنچے اور ہمیں حراست میں لے کر اپنے مرکز میں لے گئے۔ ان فوجیوں کا تعلق گنی سے تھا اور وہ فرنچ اور عربی کے علاوہ کچھ نہ جانتے تھے۔ فوجی ہیڈکوارٹر میں پہنچ کر اِنہوں نے کمانڈر کو سلام کیا تو اُس نے جواب دیا اور اِن کے چہروں کی طرف دیکھ کر فوجیوں سے پوچھا کہ کیا یہ چہرے باغیوں کے ہیں؟۔ اس پر حقیقت کھلی کہ گاؤں والوں نے فوجیوں کو ہمارے بارہ میں رپورٹ کی تھی۔ پھر کمانڈر نے کہا ’’آج رات تم ہمارے مہمان ہو، تم نمازوں میں ہماری امامت کرو‘‘۔ پھر ہمیں لذیذ کھانا کھلایا گیا۔ ہم نے دیر تک اُن کو تبلیغ کی جس کے نتیجہ میں کمانڈر سمیت بتیس فوجیوں نے احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔