محترمہ نواب بیگم صاحبہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍اپریل 2010ء میں مکرم پروفیسر مرزا مبشر احمد صاحب نے اپنی نانی محترمہ نواب بیگم صاحبہ کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترمہ نواب بیگم صاحبہ کا تعلق کالرہ کلاں ضلع گجرات سے تھا۔ آپ بڑی خداترس، ملنسار، متوکل ، مہمان نواز، مجسم شفقت ، تہجد گزار، دعاگو اور سلسلہ سے گہری وابستگی رکھنے والی تھیں۔ قادیان کے قیام کے دوران 1942ء تا تقسیم ہند محلہ دارالرحمت قادیان کی صدر لجنہ کے طور پر فرائض ادا کرنے کی توفیق ملی۔
محترمہ نواب بیگم صاحبہ کے خاوند مکرم ڈاکٹر میر محمد علی خان صاحب نے پہلی جنگ عظیم میں مشرقی افریقہ کے محاذ پر خدمات انجام دینے کے بعد وہیں بطور سول سرجن ڈاکٹر ملازمت اختیار کر لی تھی۔ زیادہ عرصہ نیروبی و ممباسہ میں قیام رہا۔ 1930ء کے قریب حضرت مصلح موعود سے شرف ملاقات حاصل کرنے اور اپنے والد حضرت میر میراں بخش صاحبؓ کے پاس کچھ وقت گزارنے کے لئے پنجاب تشریف لائے ۔ لیکن کچھ عرصہ بعد گجرات میں ہی وفات ہو گئی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین عمل میں آئی ۔
اس وقت محترمہ نواب بیگم صاحبہ کے ساتھ پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا جبکہ دو بڑے بیٹے افریقہ میں چھوڑ آئے تھے۔ اس غمناک موقع پر آپ کے سسر کی خواہش تھی کہ آپ گجرات میں ہی رہائش رکھیں۔ مگر آپ نے قادیان میں رہائش کو ترجیح دی۔ جہاں ہمیشہ حضور کی بے پایاں شفقت میسر رہی اور زندگی کے جملہ مسائل حضور کی دعاؤں اور مشوروں کے طفیل حل ہوئے۔ آپ حد درجہ سخی تھیں۔ آپ کا اسم گرامی تحریک جدید کے پانچ ہزار مجاہدین میں بھی شامل ہے۔ معمولی سی پنشن کے باوجود گداگر خالی نہ جاتا تھا۔ جب بھی آٹا گوندھنے بیٹھتیں تو ایک مٹھی آٹا ٹین کے گول ڈبے میں ڈال دیتیں۔ جمعرات کو ایک فقیر آتا اسے یہ سارا آٹا دے دیتیں۔ بچوں کو دینے کے لئے اپنے پاس مختلف کھانے پینے کی چیزیں بھی رکھا کرتیں۔ آپ نے بہت سے بچوں کو قرآن پڑھایا حتیٰ کہ گھر کے ملازموں کو بھی اس سے محرو م نہ رکھا جس بیٹی کے ہاں قیام ہوتا اس کے ملازم بچے یا بچی کو بھی قرآن پڑھا دیتیں۔
قادیان میں محلہ دارالرحمت میں گھر کے پاس ایک دکان سے آپ ادھار سودا سلف لیا کرتی تھیں اور پنشن آنے پر ادھار اتار دیتیں۔ جب ہجرت کرکے لاہور پہنچیں تو وہاں جونہی پنشن کی رقم ملی تو آپ نے اس دکان کے مالک کو تلاش کرکے رقم اداکردی۔ انہوں نے کہا کہ خالہ جان وہاں تو سب کچھ لٹ گیا وہاں کا حساب وہاں رہ گیا مگر آپ نے فرمایا کہ حساب تو حساب ہے۔ اسی طرح قادیان میں جب آپ اپنے گھروں سے نکل کر قادیان کے کیمپ میں پناہ گزیں تھیں تو ایک خاتون نے اپنا زیور آپ کے حوالے کرکے کہا کہ خالہ جان یہ زیور پاکستان پہنچ گیا تو مجھے دے دینا۔ اگرچہ کوئی اَور سامان ساتھ نہ آسکا لیکن وہ زیور آپ پاکستان لے آئیں اور یہاں اُس خاتون کی تلاش شروع کردی۔ آخر ایک جلسہ کے موقع پر وہ مل گئیں تو ان کا زیور ان کے حوالے کیا۔
دوسری والدہ سے آپ کے تین بھائی اور بہنیں تھیں لیکن آپ نے اپنے بچوں کو کبھی سوتیلے پن کا احساس نہ ہونے دیا اور بہت ہی پیار ا سلوک رہا۔ سوتیلے بھائی بہن بھی آپ کی بہت قدر کرتے تھے۔
تاریخ لجنہ جلد چہارم صفحہ 231پر آپ کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے:
’’نواب بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر میر محمدعلی خان صاحب مرحوم افریقوی نے 23مئی 1973ء کو لاہور میں وفات پا ئی۔ مرحومہ نے اپنے شوہر کی بیعت کے کچھ عرصہ بعد ہی بیعت کر لی تھی اور تمام زندگی خدمت دین کے جذبہ سے سرشار رہیں۔ آپ کا تعلق گجرات کے گاؤں کالرہ دیوان سنگھ سے تھا۔ شادی کے بعد لمبا عرصہ نیروبی میں گزارا ۔شوہر کی وفات کے بعد قادیان رہائش اختیار کر لی۔ ایک عرصہ تک محلہ دارالرحمت کی صدر بھی رہیں۔ اجلاس بھی آپ کے گھر ہوتے تھے۔ جماعت کے نئے مرکز ربوہ کے قیام سے پہلے انہیں نئے مرکز کے بارے میں خواب آئی۔ چنانچہ جب جماعت کو نیا مرکز مل گیا تو جلسہ سالانہ کے موقع پر آئیں اور اپنے خاندان کی دیگر خواتین کے ساتھ جن میں آمنہ بیگم اہلیہ میرنصراللہ صاحب صدر لجنہ شیخ پور ضلع گجرات بھی شامل تھیں ان پہاڑیوں وغیرہ پر جا کر پہچان لیا۔ یہی منظر خواب میں دکھایا گیا تھا۔ قریباً پچانوے سال کی عمر میں وفات پائی۔‘‘
1973ء میں آپ کی وفات ہوئی۔ آپ کا جنازہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے مسجد مبارک میں پڑھایا۔ اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔