محترم ملک بشارت ربانی صاحب آف گجرات
(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مارچ اپریل2024ء)
(ڈاکٹر مبارز احمد ربّانی)
خاکسار کے دادا جان محترم ملک بشارت ربانی صاحب (ولادت 1916ء ، وفات 1998ء) آف گجرات اپنے ضلع گجرات کی ایک معروف شخصیت تھے۔ آپ حضرت ملک عطاء اللہ صاحب ؓ آف گجرات صحابی حضرت مسیح موعود عليہ السلام کے بڑے بيٹے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے دعاؤں کی بدولت دادا جان کے بارے ميں مختلف بشارتوں کی خبر يں دی تھیں۔ چنانچہ دادا جان نے خود بتايا کہ ايک بار اُن کے والد حضرت ملک عطاء اللہ صاحبؓ نے اپنی ايک رؤيا کا ذکر کيا کہ ايک سفيد کبوتر اڑتا چلا آ رہا ہے۔ انہوں نے اس کبوتر کی ٹانگيں پکڑ ليں۔ وہ اڑتا چلا گيا اور اڑتا اڑتا خانہ کعبہ کی ديوار پر ان کو اتار ديا۔ وہاں فرشتے کھانا پکا رہے تھے۔ ديگيں چڑھی ہوئی تھيں۔ آپؓ نے ان سے کہا: ميرا حصہ بھی دو۔فرشتوں نے جواب ديا : يہ آپ کو نہيں ملے گا۔ يہ آپ کے بيٹے ملک بشارت ربانی اور اس کی اولاد کو ملے گا۔
چنانچہ دادا جان اپنے والد محترم کے دل کے ہمیشہ قریب رہے۔ ايک بار دادا جان کے ايک دوست نے آپ سے پوچھا : يار سمجھ نہيں آتی ، تمہارا باپ جب تہجد پڑھتا ہے تو سب سے پہلے تمہارااور تمہارے بيوی بچوں کا نام لے کر دعائيں مانگتا ہے۔ تم نے اپنے باپ پر کيا جادو کيا ہے؟ آپ نے کہا : ميں نے کوئی جادو نہيں کيا۔ يہ سب ان کی محبت ہے۔
مَیں اپنے داداجان محترم ملک بشارت ربّانی صاحب کا ذکرِ خير اُن چند روایات کے حوالے سے بغرض دعا کررہا ہوں جو ميرے والد محترم ملک عابد ربانی صاحب اور چچا محترم افضال ربانی صاحب نے خاکسار سے بيان کی ہيں۔
ابتدائی تعليم و ملازمت
دادا جان نے ابتدائی تعليم گجرات شہر سے حاصل کی۔ مزيد تعليم کے لیے آپ لاہور تشريف لے گئے اور اسلاميہ کالج لاہور ميں داخلہ ليا۔ دورانِ تعليم احمديہ ہوسٹل لاہور ميں آپ کا قيام رہا۔اس زمانے ميں مختلف شہروں سے تعليم کی غرض سے آنے والے نوجوان اسی ہوسٹل ميں ٹھہرا کرتے تھے۔ آپ کے قيام کے دوران حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ اور حضرت ملک عبدالرحمٰن خادم صاحب بھی تعليم کے سلسلہ ميں وہاں رہائش پذير تھے جن کے ساتھ آپ کی گہری دوستی رہی۔ دادا جان نے بيالوجی ميں بی ايس سی کرنے کے بعد کنگ ايڈورڈ ميڈيکل کالج لاہور ميں داخلہ ليا مگر تيسرے سال بعض وجوہات کی بنا پر آپ تعليم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ لیکن چونکہ آپ کا عمومی علم بہت وسیع تھا اور انگلش کمال کی تھی لہٰذا آپ نے ممبئی شہر کی ايک مشہور فارماسیوٹیکل کمپنی مئے اینڈ بیکر ميں چند ہفتوں کی ٹريننگ کے بعد بطور ميڈيکل ريپريزنٹيو کام کرنا شروع کرديا۔ ان دنوں کمپنی ميں مسلمانوں کو ملازمت نہيں دی جاتی تھی اور خیال کیا جاتا تھا کہ مسلمان اچھے سیلزمَين نہيں ہوتے۔ اس بات کا اظہار کمپنی والوں نے آپ سے بھی کيا۔ آپ نے سوچا کہ اگر مَيں کامياب ہو گيا تو مسلمانوں کے لیے ملازمت کے دروازے کھل جائيں گے۔ اس طرح آپ نے دل لگا کر محنت کی اور کامياب ہوئے۔
پاکستان بننے کے بعد آپ نے لاہور ميں فارماسیوٹیکل کی امپورٹ ایکسپورٹ کا اپنا کاروبار شروع کيا۔ لمبا عرصہ کاروبار کرنے کے بعد آپ اپنے آبائی شہر گجرات واپس تشريف لے گئےاور اپنے علم اور قابليت کی بِنا پر آپ نے زميندارا ڈگری کالج گجرات ميں بطور مدرس بيالوجی کا مضمون پڑھايا۔آپ کے ساتھی پروفيسر بھی آپ کی قابليت سے متأثر تھے۔ غالبا ً 1964ء کا واقعہ ہے کہ اسی کالج ميں ايک بار مباحثہ کا مقابلہ ہواجس کا موضوع تھا : روح کيا ہے؟ مخالف گروپ نے مغربی فلسفہ سے متأثر ہوکر فرائيڈ اور نطشے کے روح کے متعلق بڑے حوالے پيش کيے۔آپ کے گروپ ميں پروفيسر مولوی فرمان علی اور پروفيسر مولوی شريف بھی شامل تھے، اُن کے کہنے پر آپ نے بھی تقریر کی اور قرآن کريم کی آيت الروح من امر ربی کے حوالے سے تشريح کی اور ايسے مدلّل دلائل پيش کيے کہ مباحثے کے اختتام پر دونوں پروفيسر صاحبان نے آپ کو گلے لگا ليا اور کہا کہ ملک صاحب! آپ نے خوش کرديا ہے۔صدر جلسہ نے آپ کے ساتھ تصويربھی بنوائي۔
آپ کے شاگردوں ميں سے بے شمار لوگ ڈاکٹر بنے جن ميں قابل ذکر ميجر جنرل ڈاکٹر محمد مسعود الحسن نوری صاحب اور ان کے بڑے بھائی بھی ہیں۔
خلافت کا احترام
آپ خلیفۂ وقت کو باقاعدگی کے ساتھ دعا کا خط لکھا کرتے تھے۔ ايک دفعہ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت ميں خط لکھا اور اپنے بيٹے افضال ربانی صاحب کو دیا کہ اسے پوسٹ کردو۔ افضال صاحب کہتے ہيں کہ مجھے تجسّس ہوا کہ ديکھوں کہ آپ خلیفۂ وقت کو خط کيسے لکھتے ہيں۔ اس غرض سے ان کا خط پڑھا جس ميں آپ نے حضرت مسیح موعود عليہ السلام کےکسی رؤيا، کشف يا الہام کی اپنی سمجھ اور خيال کے مطابق تشريح کی ہوئی تھی اوراس سے پہلے اتنی بار لکھا ہوا تھا کہ حضور! آپ ناراض نہ ہوں، ناراض نہ ہوں، ميں معافی مانگتا ہوں، ميں معافی مانگتا ہوں کہ مَيں يہ تشريح لکھ رہا ہوں۔ افضال ربانی صاحب کہتے ہيں کہ يہ سب پڑھ کر ميں کانپ گيا کہ خلیفۂ وقت کے مقام کو مدنظر رکھتے ہوئے اتنی بار معافی مانگی ہےاور ايسے لکھا کہ خلیفۂ وقت کے مقام کی گستاخی نہ ہو۔ ( گستاخی اس لحاظ سے کہ خلیفہ وقت تو ہماری رہنمائی کرتے ہيں۔ مَيں کون ہوتا ہوں ان کو بتانے والا۔)
چند رؤيا و کشوف کا بیان
دادا جان کو خدا تعالیٰ کے فضل سے جوانی سے ہی بڑی کثرت سے رؤيا، کشوف و الہامات ہوا کرتے تھے۔ آپ کی اہليہ محترمہ عابدہ بيگم صاحبہ نے بتايا کے ايک دفعہ آپ گھر میں صوفے پر آنکھيں بند کر کے بيٹھے ہوئے تھے اور ہونٹ ہل رہے تھے جيسے کسی سے بات کر رہے ہيں۔ مَيں نے جھنجوڑ کر پوچھا کہ کيا اپنے آپ سے باتيں کر رہے ہيں ؟ آپ نے ايک دم آنکھيں کھول کر ناراضگی سے کہا : ميں فرشتوں سے باتيں کر رہا تھا سارا سلسلہ منقطع کر ديا ہے۔
جب دادا جان کے ہاں ميرے والد محترم ملک عابد ربانی صاحب کی ولادت متوقع تھی۔ آپ بمبئی سے لاہور بذريعہ ٹرين آرہے تھے۔ راستے ميں ہی آپ کو ايک دم آواز آئی لڑکا ہوا ہے۔ پھر دوبارہ زور سے آواز آئی لڑکا ہوا ہے۔ آپ نے سوچا کہ ساتھ بيٹھے ہوئے شخص کو بتا ؤں کہ ميرے گھر بيٹا ہوا ہے مگر پھر سوچا کہ وہ يہ نہ سمجھے کہ يہ سوٹ بوٹ والا شخص پاگل تو نہيں ہو گيا۔ جب گھر پہنچے تو آپ کی ساس صاحبہ نے آپ کو بتانا چاہا کہ بيٹا ہوا ہے مگر ان سے پہلے ہی آپ نے ان کو کہا کہ بيٹا ہوا ہے اور صبح کے چار بجے ہوا ہے۔ يہ سن کر وہ بہت حيران ہوئيں۔
اپنے والد حضرت ملک عطاء اللہ صاحبؓ کی آخری بيماری کے دنوں ميں دادا جان لاہور ميں اپنے گھر بيٹھے قرآن مجيد کی تلاوت کر رہے تھے کہ آپ کی زبان پر ايک دم انا للہ و انا اليہ راجعون کے الفاظ جاری ہوگئے۔ آپ نے اپنی اہليہ کو کہا: تياری پکڑو، ابا جی وفات پاگئے ہيں۔ جب آپ گجرات پہنچے تو واقعی آپ کے والد صاحب وفات پاچکے تھے۔
ايک مرتبہ ا ٓپ گھر ميں بيٹھے ہوئے تھےتو اپنے بيٹے ملک عابد ربانی صاحب سے فرمايا کہ فلاں آيت کا ترجمہ ابھی ابھی اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھايا ہے۔
ايک دفعہ آپ کے بيٹے افضال ربانی صاحب نے آپ سے پوچھا کہ آپ کو کيسے اتنی کثرت سے رؤيا و کشوف و الہام ہوتے ہيں؟ آپ نے فرمايا : اس ميں ميرا کيا کمال ہے۔ يہ سارے پيغامات تو خلیفۂ وقت کے لیے ہوتے ہيں اور ان کو جارہے ہوتے ہيں۔ ميں تو صرف کنڈی لگا کر سن ليتا ہوں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی آخری بيماری کے دوران ايک رات آپ نے ايک عجيب خواب ديکھا کہ گجرات شہر کی پرانی احمديہ مسجد ہے (جس پر بعد ميں غيراحمديوں نے قبضہ کرليا تھا)۔ ہم سب احباب صبح کی نماز کے لیے جمع ہيں ليکن حضورؓ نماز پڑھانے کے لیے تشريف نہيں لائے۔اتنے ميں دن چڑھ گيا۔ ميں کہتا ہوں صبح کی نماز ضائع ہوگئی ہے۔پھر وہ دن ہٹ گيا اور اگلے دن کی صبح کی نماز کا وقت ظاہر ہو گيا۔ آنکھ کھلنے پر خيال آيا کہ حضورؓ وفات پاگئے ہيں۔ پريشانی کے عالم ميں آپ نے بچوں کو ساتھ ليا اور ربوہ روانہ ہو گئے۔ راستے ميں پنڈی بھٹیاں کے قريب جب پہنچے تو آپ کے کا ن ميں آواز آئی کہ حضورؓ وفات پاگئے۔ آپ کہتے ہيں کہ مَيں خاموش رہا۔ ربوہ پہنچنے پر امير جماعت احمديہ گجرات محترم چوہدری بشير احمد صاحب ايڈووکيٹ نے آپ کو بتايا کہ حضورؓ وفات پاگئے ہيں۔ اس طرح کے واقعات آ پ کے ساتھ کئی مرتبہ ہوئے۔
قبوليت دعا
ممبئی ميں ميڈيکل ريپريزنٹيو کی ٹريننگ کے دوران آپ اور دوسرے ٹرينيز کا ايک ہی ہوٹل ميں قيام تھا۔ ٹريننگ مکمل ہونے کے بعد آپ اور دوسرے شرکاء امتحان کی تياری ميں مصروف تھےتو ايک رات اس ہوٹل کی بجلی چلی گئی۔ آپ نے دعا کر کے بلب کو ہاتھ لگايا تو بجلی آ گئی۔ دوسرے روز ايک اَور شخص جو اسی امتحان کی تياری کر رہا تھا آ پ سےکہنے لگا کہ ہم نے کہاں خاک رات کو پڑھائی کرنی تھی، ہمارے ہاں تو بجلی ہی نہيں تھی۔
آپ کے بيٹے افضال ربانی صاحب بيان کرتے ہيں کہ جب کبھی بچے بيمار ہو جاتے تو آپ پريشانی کی حالت ميں گجرات فون کرکےاپنے والد صاحب کو شفايابی کے لیے دعا کی درخواست کرتے۔ آپ کہتے: اچھا ميں دعا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے صبح تک بچہ ٹھيک ہو گيا ہوتا تھا۔ ميری والدہ صاحبہ بتاتی تھيں کہ تمہارے فون کے بعد نفل پڑھنے کھڑے ہو جاتے تھےاور رو رو کر دعائيں کرتے تھے۔
محترم تنوير احمد صاحب جو کہ آپ کے بيٹے کے برادر نسبتی اور آپ کے شاگرد بھی رہ چکے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ايک روز راستے ميں اُن کی ملاقات محترم ملک صاحب سے ہوگئی۔ آپ نے عرض کی کہ ميری دو بيٹياں ہيں دعا کريں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے بيٹا عطا کرے۔آپ نے اسی وقت دعا کے لیے ہاتھ اٹھالیے اور ان کو بھی دعا ميں شامل کيا۔آمين کے بعد آپ نے کہا کہ بيٹا ہوگا، اس کا نام داؤد احمد رکھنا۔جب بيٹا ہوا تو تنوير احمد صاحب نے داؤد کے نام کے ساتھ اپنے والد صاحب کا نام نصراللہ رکھ ديا يعنی داؤد نصراللہ۔ جب ان کی ملاقات دوبارہ ملک صاحب سے ہوئی تو تنوير صاحب نے آپ کو بتايا کہ بيٹا ہوا ہے اور اس کا نام داؤد نصراللہ رکھا ہے۔ آپ نے سخت ناراضگی سے کہا : مجھے خدا نے اس کا نام داؤد احمد بتايا تھا۔ تمہيں کوئی اَور بيٹا چاہیے تو خود دعا کرو اور اس کا يہ نام رکھ لينا۔ وہ کہتے تھے کہ مَيں ڈر گيا اور مَيں نے اس کا نام تبديل کرکے داؤد احمد کر ديا۔
درود شريف کی اہميت اور برکات کا ذکر کرتے ہوئے دادا جان نے بتايا کہ ايک بار آپ کے والد محترم حضرت ملک عطاء اللہ صاحب ؓ کو مليريا کا بخار ہوگيا۔ آپ نے ايک سو مرتبہ درود شريف پڑھ کر ان پر دَم کيا اور خود عشاء کی نماز پڑھنے چلے گئے۔واپس آکر ديکھا تو والد صاحب کا بخار اللہ تعالیٰ کے فضل سے اترچکا تھا۔
دعوت الی اللہ
آپ کو تبليغ کا بے حد شوق تھا۔ہر سال جماعت کی طرف سے يوم تبليغ پر آپ اپنے بچوں کو بھی تبليغ کی غرض سے ساتھ لے کر جاتے۔ اکثر بچوں کے ساتھ لٹريچر تقسيم کرنےريلوے سٹيشن پر بھی جاتے۔ جنرل ضياءالحق کے زمانے کی بات ہے کہ ايک بار کچھ فوجی مردم شماری کے سلسلے ميں آدميوں کو چيک کرنے گھر آئے۔ آپ بالکل نہيں گھبرائے اور انہيں بتايا کہ ہم احمدی ہيں، ہمارا ووٹ نہيں ہے اور ساتھ ہی تبليغ شروع کردی۔
ضلع گجرات ميں جہاں بھی کوئی مناظرہ يا بحث و مباحثہ ہوتا تو اس ميں آپ پيش پيش ہوتے۔ غالبا ً 1967 ء کا واقعہ ہے جب آپ ناظم انصاراللہ ضلع گجرات تھے۔ايک روز آپ گجرات کی احمديہ مسجد ميں ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد بيٹھے ہوئے تھے کہ ایک قریبی گاؤں شاديوال کے قائد خدام الاحمديہ مسجد میں آئےاور پوچھا کہ مربی صاحب کہاں ہيں ؟ آپ نے بتايا کہ وہ تو ربوہ گئے ہوئے ہيں اور دو دن کے بعد آئيں گے۔ آپ نے اُن سے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتايا کہ عطاءاللہ شاہ بخاری کے بيٹے نے شاديوال آکر تقرير کی ہے اور جماعت کے بارے ميں بہت بدزبانی سے کام ليا ہے۔اس تقرير کو ایک مخالف ريکارڈ کرکے شاديوال ميں ہر جگہ لوگوں کو سناتا پھرتا ہے۔ ہم مربی صاحب کو لينے آئے ہيں تاکہ ان اعتراضات کا جواب ديا جاسکے۔آپ نے انہيں کہا کہ مربی صاحب تو نہيں ہيں، تم جاؤ مَيں خود شام کو شاديوال آؤں گا۔
شام کو شاديوال پہنچنے پر آپ نے عشاء کی نماز پڑھائی۔ عطاءاللہ شاہ بخاری کا بيٹا بھی وہيں اسی گاؤں ميں موجود تھا۔گرميوں کے دن تھے۔ لوگ رات کو چھتوں پر چارپائياں بچھا کر سوتے تھے۔ اس لیے آپ نے نماز کے بعد ايک مقامی احمدی کے گھر پر لاوڈ سپيکر لگواديے تاکہ سب لوگ آسانی سے سن سکيں۔ پھر آپ نے ايک ايک کرکے ان اعتراضات کے الزامی جواب دينا شروع کيے۔ مثلاً پہلا اعتراض يہ تھا کہ احمدی بھگوڑے ہيں۔ اس پر آپ نے بخاری صاحب کے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شاہ جی! بھگوڑے ہم ہيں يا آپ؟ پچھلے سال آپ دھوريئے (گجرات کے قريب ايک گاؤں ہے) گئے تھے۔ وہاں آپ نے گفتگو کے آغاز ميں ہی جماعت کے بارے ميں نہايت بری بات کہی جس پر ایک احمدی لڑکے نے آپ کو ٹوکا کہ کوئی دليل ديں ورنہ ايسی فضول باتيں نہ کريں مگر آپ باز نہ آئے۔دوسری بار آپ نے پھر بد زبانی کی جس پر اُس لڑکےنے آپ کو دوبارہ منع کيا۔ تيسری بار اُس نے آپ کو گريبان سے پکڑا اور گھونسا مارنے لگا کہ پھر یہ بات کروگے؟َ اس پر آپ نے اپنی گردن چھڑائی اور کھتيوں سے ہوتے ہوئے بھاگ گئے۔ اب بتائیں بھگوڑے ہم ہيں يا آپ؟
ایک اعتراض يہ تھا کہ مسلمانوں کا ایمان خریدنے کے لیے احمدی پيسے لے کر آتے ہيں۔ اس پر آپ نے بتایا کہ میری جيب میں اُس چندے کی رسيد ہے جو ميں نے آج ہی ادا کيا ہے۔ لیکن تم اپنی سناؤ۔ مَيں نے سنا ہے تم تين سو روپے لے کر يہاں آئے ہو۔
ایک اعتراض يہ کيا گیا تھا کہ مرزا صاحب کی آنکھيں بند سی ہيں۔جس پر آپ نے کہا کہ اسلام ميں پردے کے ضمن ميں آدميوں کو غض بصرسے کام لينے کا حکم ہےتاکہ وہ آنکھيں کھول کھول کر عورتوں کو نہ ديکھيں اور عورتوں کو کہا گیا کہ وہ اپنی زينت کی جگہوں کو چھپائيں۔مرزا صاحب تو غضّ بصر سے کام ليتے تھے۔ لیکن آپ کيا کرتے ہيں ؟آپ جب (فلاں جگہ) جمعے کی نماز پر مسجد ميں خطبہ ديتے ہيں تو منبر اونچا ہوتا ہے اور قناتيں نيچے ہوتی ہيں اور عورتوں کا حصہ نظر آ رہا ہوتا ہے۔ آپ خطبہ ديتے ہوئے حدیثیں سناتے ہیں اور پھر عورتوں کی طرف منہ کرکے بےہودہ فقرے بھی کہتے ہیں مثلاً ’’ تيرا پيچھا نہيں چھڈنا چاہے لگ جاون ہتھ کڑياں۔‘‘ یہ باتیں سن کر سامنے بیٹھے ہوئے لڑکے ہنستے ہیں۔ اگر مَيں جھوٹ بول رہا ہوں تو بتائيں۔
ایک اعتراض يہ تھا کہ کيا ايک نبی ( مرزا صاحب ) کی شکل ايسی ہوتی ہے؟ آپ نے قرآن مجيد کی ايک آيت پڑھی جس کا ترجمہ تھا کہ ہم نے ہر قوم ميں نبی بھیجے ہيں۔ آپ نے کہا چينيوں کی آنکھيں ديکھيں ان کے چہرے کی ہڈياں ابھری ہوتی ہيں۔ چہرے کو ٹھنڈ سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کی آنکھيں ايسی چھوٹی ہوتی ہيں۔ چينيوں ميں بھی کوئی نبی آيا ہو گا۔ پھر حبشيوں کو ديکھيں ان کا رنگ کالا، ہونٹ موٹے موٹے، بال گھنگر یالے اور ناک چپٹی۔ا ٓخر ان ميں بھی کوئی نبی آيا ہوگا۔ جاپانيوں کو ديکھيں ہنستے ہيں تو سارے دانت نظر آتے ہيں۔ مرزا صاحب تو ان سے ہزار درجے خوبصورت ہيں۔ شاہ جی! آپ کو اگر اپنی خوبصورتی پر بڑا مان ہے تو ميرے ساتھ ربوہ چليں۔ مرزا صاحب کے پوتے وہاں ہوتے ہيں۔ آپ کی نظر ميں جو سب سے زيادہ بدصورت آپ کو نظر آئے اس کا پاؤں آپ کے منہ سے زيادہ خوبصورت نہ ہو تو پھر آپ مجھ سے بات کريں۔
آخر ميں آپ نے شاہ صاحب کو مخاطب کر کے فرمايا : اگر آپ نے بينی (کلائی) پکڑنی ہے تو مَيں اس کے لیے بھی تيار ہوں اور اب مَیں آپ کے جواب کا انتظار کر رہا ہوں۔
پھر آپ کافی دير تک شاہ صاحب کے جواب کے منتظر رہے۔ آخر سحری کے قريب خدام نے آکر اطلاع دی کہ وہ تو رات کو ہی بھاگ گيا تھا۔ اس واقعے کے آخری حصے (پاؤں والی بات ) کا ذکرجب شاديوال کی جماعت کے افراد نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ کے ساتھ کيا تو آپ کھل کر مسکرا ديے۔
سلسلہ احمديہ کے لیے غيرت
آپ ايک نڈر، بہادر اور دلير فدائی احمدی تھے۔ سلسلہ احمديہ کے لیے بہت غيرت رکھتے تھے۔ ايک دفعہ آپ کے بيٹے افضال ربانی صاحب نے گجرات شہر کے مربی سلسلہ جناب محمد دين صاحب کو کہا کہ آپ والد صاحب کو سمجھائيں۔ اگر کوئی حضرت مسیح موعود عليہ السلام يا خلیفۃ المسیح الثانی ؓ پر کوئی تنقيد کرے تو آپ مرنے مارنے پر اتر آتے ہيں۔ اگر کوئی گالی دے تو يہ بخشنے کو تيار نہيں ہوتے۔ کہيں کوئی فساد نہ ہو جائے۔مربی صاحب سن کر فرمانے لگے: ہا ں ہاں مجھے پتہ ہے ملک صاحب بہت جذباتی ہيں۔ اچھا ميں ان سے بات کروں گا۔ مربی صاحب تھوڑی دير خاموش رہے اورپھر کہنے لگے :افضال! خدا کی جماعت ميں ہر طرح کے بندوں کی ضرورت ہوتی ہے۔آپ جماعت کےمعاملے ميں مخالفين کی قطعاً کوئی پروا نہيں کرتے تھے مگر انسانیت کے ناطے اگر ان کو کسی مدد کی ضرورت پڑی تو آپ نے ان کی مدد کی۔
خدمت دين اور بزرگوں سے عقيدت
آپ نے جماعت احمديہ گجرات ميں مختلف شعبہ جات ميں خدمات بجا لانے کے ساتھ ساتھ مسجد ميں امامت اور درس دينے کی سعادت بھی پائی۔ ايک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی کتاب ’’الہام، عقل، علم اور سچائی‘‘ محترم راجہ غالب احمد صاحب آف لاہور کے پاس انگلش ترجمے کے لیے آئی۔ يہ حضور ؒکے ہاتھ کا لکھا ہوا اردو کا نسخہ تھا۔انہوں نے افضال ربانی صاحب کو ترجمے کے سلسلہ ميں مدد کرنے کے لیے کہا۔ افضال ربانی صاحب نے راجہ صاحب کو ترجمے کے سلسلہ ميں والد صاحب کوشامل کرنے کی تجويز دی جسے انہوں نے بخوشی قبول کيا۔ اس طرح آپ نے اس معرکۃالآ را ء تصنيف کے کچھ حصوں کا ترجمہ راجہ صاحب کے ساتھ مل کر کرنے کی سعادت پائی۔ ايک مرتبہ آپ حضرت مولوی شيرعلی صاحبؓ سے ملنے تشريف لے گئے۔اس وقت حضرت مولوی صاحبؓ چٹائی پر بيٹھے قرآن مجيد کا انگلش ترجمہ کرنے ميں مصروف تھے۔ انہوں نے آپ کو مخاطب کر کے فرمايا : بشارت ! ان دو آيات کا ترجمہ انگلش ميں کرو۔ آپ نے ترجمہ کرکے حضرت مولوی صاحبؓ کو دے ديا۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے پڑھا اور خوشنودگی کا اظہار فرمايا اور ترجمہ کا کاغذ اپنے زانوں کے نيچے رکھ ليا۔ شادی کےبعد آپ نے جب حضرت مولوی شير علی صاحبؓ سے ملاقات کی تو انہوں نے چار خرمے آپ کے ہاتھ ميں رکھے۔ آپ نے يہ تعبير لی کہ پہلے آپ کے ہاں چار بيٹے ہوں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ايسا ہی ہوا۔ حضرت مولوی صاحبؓ کے علاوہ جن جليل القدر بزرگوں کے ساتھ ا ٓپ کی دوستی تھی ان ميں حضرت مولانا غلام رسول راجيکی صاحبؓ، حضرت مولانا قدرت اللہ سنوری صاحبؓ، حضرت شيخ عبدالغفور صاحبؓ، حضرت مولانا ابو العطاء صاحبؒ جالندھری ، حضرت ملک عبدالرحمٰن خادم صا حبؒ وغيرہ شامل تھے۔ ايک دفعہ گجرات انصاراللہ کے اجتماع کی صدارت حضرت مولانا ابو العطاء صاحبؒ جالندھری فرما رہے تھے۔تقارير کے سلسلہ ميں دادا جان سورۃ البقرہ کی تفسير بيان کرنے لگے تو حضرت مولانا صاحبؒ تھوڑی تھوڑی دير کے بعد والد صاحب کو نظر اٹھا کر حيرت سے ديکھتے۔تقرير کے بعد آپؒ فرط جذبات کے ساتھ اٹھے اور والد صاحب کو زور سے گلے لگا ليا۔
حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کی وفات کے بعد آپ روزانہ ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کيا کرتے تھے۔ ايک بار آپ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتايا ہے کہ اس کو يہ بات بہت پسند آئی ہے اور وہ تيری اولاد کو بہت ترقی دے گا۔
آپ کی وفات مئی 1998ء میں ہوئی۔ اپنی آخری علالت کے دوران رؤيا ميں ديکھا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود عليہ السلام تشريف لائے ہيں اور اٹھا کر آپ کو اپنی گود ميں بٹھا ليا ہے۔ جماعت احمديہ گجرات کے مربی سلسلہ محمد دين صاحب نے وفات کے بعد آپ کے بيٹے کو تعزيت کے خط ميں لکھا کہ ملک صاحب روزانہ صبح سائيکل پر آتے تھے اور مجھے بغير معاوضے کے دودھ دے کر جاتے تھے۔ نيز بڑے پُرجوش داعی الی اللہ اور جماعت احمديہ کے لیے بڑی غيرت رکھتےتھے۔ مولانا دوست محمد شاہد صاحب اور مولانا سلطان محمود انور صاحب نے لکھا کہ ملک صاحب احمديت کی ننگی تلوار تھے۔
آپ خدا تعالیٰ کے فضل سےموصی تھے چنانچہ بہشتی مقبرہ ربوہ ميں آپ کی تدفين ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الربع ؒ نے آپ کا نماز جنازہ غائب پڑھايا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس ميں جگہ عطا فرمائے اور آپ کی نسلوں کو آپ کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین