محترم مولوی دوست محمد شاہد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26 اپریل 2010ء میں مکرم محمد افضل متین صاحب نے اپنے مضمون میں محترم مولوی دوست محمد شاہد صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم مولانا دوست محمد صاحب دور حاضر کے چوٹی کے عالم باعمل، فقیہ، مصنف، مورخ امام، مقرر، مناظر محقق، دانشور اور سچے عاشق رسولؐ ﷺ تھے، صاحب عرفان اور اپنے مولیٰ کی محبت میں سخت بے کل اور مخمور بزرگ، فرشتہ سیرت وجود باجود تھے۔ ایسی عظیم ہستیاں ہی احمدیت کی عملی تصاویر ہوا کرتی ہیں۔
یوں تو آپ بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے مگر بعض خوبیاں خاص طور پر خاکسار نے نوٹ کیں۔ آپ ہمیشہ عزت و احترام سے مخاطب ہوتے خواہ کوئی چھوٹا بچہ ہی کیوں نہ ہو ہمیشہ میاں صاحبزادے، جناب یا صاحب کے القاب ضرور ساتھ لگاتے۔
یہ 1992ء کا واقعہ ہے کہ عاجزنے ایک مرتبہ نماز فجر کے بعد مسجد مبارک میں آپ سے اپنی ایک خواب کا ذکر کیا تو خواب سنتے ہی آپ نے گلے لگا لیا اور بہت مبارک باد دی اور نہایت شفقت سے خواب کی تعبیر بیان کرکے چلے گئے۔ یہ تعبیر خدا کے فضل سے آئندہ چند سالوں میں من و عن پوری ہو گئی۔
آپ گزرتے ہوئے خواہ کوئی چھوٹا بچہ ہو یا بڑا ہمیشہ بلند آواز سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا کرتے۔
جب بھی کوئی آپ سے دفتر یا گھر میں ملنے آتا تو بلند آواز سے اھلاً و سہلاً ومرحَبَا کہتے اور نہایت خوشی کے جذبات سے ملتے۔ ملنے والا بعض اوقات پہلی مرتبہ مل رہا ہوتا تو خوش ہونے کے ساتھ ساتھ حیران بھی ہوتا کہ میں تو مولانا صاحب سے پہلی مرتبہ مل رہا ہوں اور مولانا صاحب کے ملنے کا انداز بتاتا ہے جیسے وہ انہیں پرانے جاننے والے ہوں۔ یہ علامت شفاف دلوں کی ہوتی ہے۔ آپ کی طبیعت میں دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنے کا وصف بھی بہت نمایاں تھا۔ کوئی بھی اچھا کام کرکے آپ کے سامنے پیش کیا جاتا تو آپ سب کے سامنے کھل کر داد دیتے۔
آپ کی قبولیت دعا کے معجزات بھی دیکھے۔ آپ کی طبیعت میں عاجزی بہت تھی۔ کوئی کام کہنا ہو تو نہایت عاجزی سے درخواست کرتے۔ ایک مرتبہ مسجد مبارک میںنماز کے بعد کسی دوست نے نماز میں کسی غلطی کی طرف توجہ دلائی ، شاید یہ دوست باہر سے کوئی مہمان آئے ہوئے تھے۔ مولانا صاحب فوراً کھڑے ہوئے اور سب کے سامنے توجہ دلانے والے کا بہت شکریہ ادا کیا، ممنون ہوئے اور معذرت کی۔
آپ کی زندگی میں نظم و ضبط، ترتیب اور وقت کی پابندی کی بہت اہمیت تھی۔جب ہسپتال میں داخل تھے تو باوجود بعض اوقات سخت نقاہت کے نمازوں کے اوقات کا انتظار رہتا۔ نماز کا وقت ہوتا تو تیمار دار بھی محسوس کرتے کہ آپ کے نحیف جسم میں جان آ گئی ہے اور خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ آپ لیٹے لیٹے نماز ادا کر لیتے لیکن کوشش ہوتی کہ بیٹھ کر نماز ادا کر سکوں ، اگر بیٹھ کر نماز ادا کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو آپ سمجھتے اب صحت ہو گئی ہے۔ بس اب ہسپتال سے چلنے کی تیاری کرنی چاہئے۔ بہت زیادہ بیماری میںبھی عیادت کو آنے والے لوگوں سے نہایت خندہ پیشانی سے ملنے کی کوشش کرتے اور تکلیف زیادہ ہوتی تو خاموش رہتے ہوئے عیادت کرنے والے کی طرف دیکھ کر آنے والے کے مشکور ہو رہے ہوتے تھے۔
آپ بہت جلد ممنون ہوجاتے اور جزاکم اللہ کھلے الفاظ سے بار بار دہراتے آپ کی بیماری کے ایام میں جامعہ احمدیہ وغیرہ کے بعض طلباء کو آپ کی تیمارداری کی توفیق ملی۔ صحت پانے کے بعد آپ ان طلباء کے ہمیشہ ممنون ہی نظر آئے۔
مضامین تحریر کرتے ہوئے اختصار کا خیال رکھتے اور یہ بھی کہ احباب جماعت کے ایمان میں نمایاں اضافہ کرنے کا موجب ہوں۔
آپ نے ایک لمبا عرصہ خلافت لائبریری ربوہ میں بیٹھ کر تحقیق وتاریخ کا بابرکت اور عظیم الشان کام کیا۔ اس دوران بیسیوں دیگر علمی کام بھی جاری رہتے۔ آپ نے اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ خدمت دین میں مصروف رکھا اور تائیدات الٰہیہ آپ کے کام میں واضح شامل حال نظر آتیں۔
آپ کی شخصیت کا بھی ایک خاص رعب تھا آپ کی تلاوت کی آواز بھی ایک خاص طرز کی تھی جو سوز و گداز سے پُر اور بلند ہوا کرتی تھی۔ آپ کا خاص لب و لہجہ ہی آپ کی پہچان تھا۔ تقریر کا انداز بہت شاندار تھا۔ اپنی تقاریرمیں خلافت سے محبت اور اس کے نتیجہ میں ملنے والے انعامات کا بہت اظہار فرماتے۔ آپ ایک درویش منش ، سادہ لوح، قانع اور خلافت احمدیہ سے سچی محبت کرنے والے جماعت احمدیہ کے حقیقی ترجمان تھے۔ آپ کا لباس اور انداز خلافت احمدیہ سے محبت کا عملی ثبوت تھا۔
رمضان المبارک کے مہینے میں 26؍ اگست 2009ء کو اپنی دھلی ہوئی پاکیزہ روح لئے اپنے محبوب خدا کے حضور حاضر ہو گئے۔