محترم نواب عباس احمدخان صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍جنوری 2004ء میں محترم نواب عباس احمد خان صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم محمدرمضان صاحب رقمطراز ہیں کہ آپ 20؍جون 1920ء کو حضرت سیدہ نواب امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ اور حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم قادیان سے حاصل کی۔ شروع سے ایک خادم کی حیثیت سے جماعت کی خدمت کی توفیق پائی اور 1946ء میں آپ خدام الاحمدیہ قادیان کے پہلے قائد منتخب ہوئے۔
29؍دسمبر 1944ء کو آپ کا نکاح صاحبزادی امتہ الباری بیگم صاحبہ بنت حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے پڑھا۔ حضورؓ نے خطبہ مسنونہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ عزیز عباس احمد خان ہمارے خاندان میں سے دوسرا بچہ ہے جو حقیقی طور پر دین کی خدمت کرنے کے لئے تیاری کر رہا ہے اوراس نے اپنی زندگی دین کے لئے وقف کی ہوئی ہے… اور عزم اور ارادہ کے ساتھ باقاعدہ دینی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد محترم نواب صاحب لاہور منتقل ہو گئے اور ذاتی کاروبار کرتے رہے لیکن دین کی خدمت کے کام کو کسی نہ کسی رنگ میں جاری رکھا۔خلیفہ وقت سے پوری پوری وفاداری ان کی فرمانبرداری کا نصب العین تھا۔
دعوت الی اللہ کا خاص جوش تھا۔ پیار اور محبت کے لہجہ میں گفتگو کرتے اور دوسروں کی باتوںکو بڑی توجہ سے سنتے تھے۔ وقف عارضی کی غرض سے اکثر سفر کیا کرتے تھے۔ بڑے علم دوست تھے اور دینی کتابیں پڑھنے اور لکھنے کا بڑا شوق تھا۔ نوجوانی میں سری گوبندپور میں دتبلیغ کے لئے گئے۔ ہیڈ کوارٹر ’’ماڑی بچیاں‘‘ نامی ایک گاؤں تھا۔ نازو نعمت میں پرورش پانے کے باوجود موسم کی پروا کئے بغیر گاؤں گاؤں شوقِ تبلیغ میں پھرتے اور کبھی اگر کھانا نہ بھی ملا تو چنے چبا کر گزارہ کر لیتے۔
آپ پانچوں نمازیں بیت الحمد میں ادا کرنے کے عادی تھے اسی طرح چندہ جات کی بروقت ادائیگی میں کوشاں رہتے۔ بڑے مدبر اور صائب الرائے انسان تھے۔ ہنس مکھ اور اعلیٰ درجہ کے مہمان نواز، رحم دل اتنے کہ اگر کسی ملازم سے کوئی غلطی سرزد ہوتی تو اسے تنبیہ کر کے معاف فرما دیتے تھے۔
طبیعت میں بڑی عاجزی اور انکساری پائی جاتی تھی ان کا لین دین بڑا صاف ستھرا تھا نیز وقت کے بڑے پابند تھے۔ اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی عطا فرمائی۔ 2؍جنوری 2003ء کو لاہور میں آپ کی وفات ہوئی۔ موصی تھے چنانچہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔