محترم ڈاکٹر راجہ نذیر احمد ظفر صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍جنوری 2000ء میں محترم ڈاکٹر راجہ نذیر احمد ظفر صاحب کا ذکر خیرکرتے ہوئے مکرم مبشر احمد خالد صاحب رقمطراز ہیں کہ محترم ڈاکٹر صاحب کا تعلق ہجکہ شریف سے ہے جو بھیرہ سے ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع گاؤں ہے۔ آپ 1957ء میں مکمل طور پر ربوہ منتقل ہوگئے لیکن اہالیان گاؤں سے حسن سلوک متواتر رکھا ۔ آپ غیرمعمولی ذہین تھے۔ ابتدائی تعلیم قادیان سے حاصل کی اور مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے تک جامعہ احمدیہ سے منسلک رہے۔ اس کے بعد گریجوایشن کے بعد قانون کا امتحان بھی پاس کیا اور سیاسیات و اسلامیات میں ایم۔اے بھی کیا۔ نیز ہومیوپیتھی کورس بھی کیا اور اسی کو اپنے پیشہ کے طور پر اپناکر اس میں کمال حاصل کیا۔
محترم راجہ صاحب نے کیوریٹو سسٹم اور خوشبو سے علاج کے طریق بھی روشناس کروائے اور ان دونوں کے بانی قرار پائے۔ اس وقت آپ کی کمپنی کے ساتھ بیسیوں افراد منسلک ہیں۔ آپ آل پاکستان احمدیہ ہومیو ایسوسی ایشن کے صدر بھی تھے۔ آپ کا اپنے ملازمین کے ساتھ سلوک نہایت عمدہ تھا چنانچہ بعض ملازمین بیس بیس سال سے متواتر آپ کے پاس کام کررہے ہیں۔ آپ نے اپنے خاندان کے ہر بیکار نوجوان کو اپنے پاس روزگار مہیا کیا اور اُس کی قابلیت اور کام سے بڑھ کر اسے مناسب الاؤنس دیتے رہے۔
اللہ تعالیٰ نے محترم ڈاکٹر صاحب کو غیرمعمولی دولت عطا فرمائی اور آپ نے اسے دل کھول کر خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق پائی۔ وفات کے وقت پورے ربوہ میں تحریک جدید کا آپ کا وعدہ سب سے زیادہ تھا۔ بہت سے غرباء کو وظائف دیتے۔ اکاؤنٹنٹ کو ہدایت کر رکھی تھی کہ آپ کے گاؤں سے آنے والے جامعہ احمدیہ کے ہر طالبعلم کو ماہوار کچھ وظیفہ دیا کرے۔ آپ کی وفات سے قریباً ایک ماہ قبل وقف جدید کے خصوصی وعدہ کی تحریک کے سلسلہ میں جب آپ سے جماعت نے رابطہ قائم کیا تو آپ نے فوراً ایک لاکھ روپے کا وعدہ کیا اور دس ہزار روپے پیش کردیئے۔ یہ وعدہ اُس وعدہ کے علاوہ تھا جو آپ معمول کے مطابق اپنے محلہ میں ادا کر رہے تھے۔
محترم ڈاکٹر صاحب کو دعوت الی اللہ کا جنون تھا۔ دلچسپی رکھنے والے مریضوں کو لٹریچر بھی دیا کرتے۔ 74ء میں خطرات کے باوجود ہر جمعہ گاؤں جاکر پڑھاتے اور احباب کا حوصلہ بلند کرتے۔ محض دعوت الی اللہ کی خاطر آپ نے گاؤں میں اپنے کاروبار کی ایک شاخ بھی کھول لی جہاں اپنے ذاتی خرچ پر پُرتکلّف دعوتوں کے ذریعہ گاؤں والوں کو مدعو کرتے۔ 74ء کے بعد کئی خاندانوں نے آپ کے ذریعہ قبول احمدیت کی توفیق پائی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیوی علم کے ساتھ گہرا دینی علم بھی عطا فرما رکھا تھا اور حافظہ بھی کمال درجہ کا تھا۔ آپ نے کئی مخالفین سے مناظرے کئے اور احمدیت کی سچائی ثابت کی۔ آپ گاؤں والوں کے دکھ سکھ میں ہمیشہ شریک ہوتے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی تجہیز و تکفین میں گاؤں کے احمدیوں کی نسبت غیراحمدی افراد زیادہ تعداد میں شریک تھے۔ آپ جس قدر ظاہری حسن سے سرشار تھے، اسی طرح باطنی طور پر بہت خوبصورت اور صاف دل تھے۔
محترم راجہ صاحب ایک اچھے شاعر تھے۔ آپ کا کلام احمدیت کی محبت سے بھرپور ہے۔ آپ کے دونوں بیٹے بھی جماعتی خدمات میں پیش پیش ہیں اور مکرم ڈاکٹر راجہ رفیق احمد صاحب اپنے والد کی وفات کے بعد مدرسۃالظفر وقف جدید میں معلّمین کلاس میں بلامعاوضہ ہومیوپیتھی کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔