محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی یادگار تقریر
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍اپریل 2007ء میں مکرم عادل منصور صاحب کے قلم سے محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی ایک یادگار تقریرشامل اشاعت ہے۔
مکرم شہاب الدین غوثی صاحب کا مراسلہ بعنوان ’’پروفیسر سلام کراچی پریس کلب میں‘‘ روزنامہ ڈان 3؍ دسمبر2006ء میں چھپا تھا۔ مکرم غوثی صاحب جو اس وقت کلب کے خزانچی تھے، لکھتے ہیں کہ تقریباً 28سال قبل پریس کلب کراچی نے ڈاکٹر عبدالسلام کو Lifetime Achievement Award دینے کا فیصلہ کیا اور ڈاکٹر عبد السلام نے اپنے نہایت مصروف اور قیمتی شیڈول سے وقت نکالا۔ ملک میں مارشل لاء لگ چکا تھا اور پاکستان کی گلیوں میں نعروں اور بینروں کی بھرمار تھی۔ اشفاق بخاری کراچی پریس کلب کے صدر تھے۔ ایک دوپہر ڈاکٹر عبدالسلام کراچی پریس کلب پہنچے تو ان کی حیرت کی انتہانہ رہی جب ایک دینی جماعت کی طلباء تنظیم کا ایک گروپ یہ نعرہ لگا رہا تھا کہ ڈاکٹر سلام واجب القتل ہے ہمیں ڈاکٹر سلام کا سر چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ ڈاکٹر سلام ایک سادہ سی مسکراہٹ کے ساتھ پریس کلب کی عمارت میں داخل ہوگئے۔ پروفیسر اشفاق اور حبیب خان غوری نے خوش آمدید کے کلمات کے ساتھ استقبال کیا۔ اس وقت تک کراچی پریس کلب، ممبران اور معزز مہمانوں سے کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ ڈاکٹر عبدالسلام سے درخواست کی گئی کہ وہ کچھ کلمات کہیں۔ ڈاکٹر سلام جھجک رہے تھے لیکن انہیں کہا گیا کہ یہ ایک آزاد خیال فورم ہے۔ یہاں پر اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے آپ جو کہنا چاہیں کہیں۔
اس ماحول میں جب پریس کلب کے دروازہ پر وہ استقبال ہوا جبکہ آپ کے سر کا مطالبہ کیا جا رہا تھا، آپ کس قسم کی تقریر کی امید کر سکتے ہیں۔ شاید غم و غصہ سے یا پھر نفرت کے جذبات کا اظہار۔ لیکن پروفیسر سلام کی اس دن کی تقریر شاید آج تک کی پریس کلب میں دی جانے والی بہترین تقریر تھی۔ ان کی تقریر میں قدرت کے کرشموں، سائنسی ترقی اور جدید ترین سائنسی تحقیق کا ماخذ قرآن کو قرار دیا گیا تھا۔ یہ محبت قرآن ہی تھی اُس شخص کی جسے واجب القتل قرار دیا جارہا تھا کہ وہ تمام تر سائنسی ترقی اور تھیوریز (Theories) کو قرآن سے ثابت کر رہا تھا۔ وہ فصاحت و بلاغت جو عام مقرر اپنی دھاک بٹھانے کے لئے دکھاتے ہیں وہ ایک عاجزانہ کوشش کی طرح اعجاز قرآن ثابت کرنے کے لئے استعمال ہورہی تھی۔ جب یہ پُروقار تقریر اختتام کو پہنچی اور تقریب کے بعد ڈاکٹر سلام رخصت ہونے کے لئے پریس کلب کی عمارت سے باہر نکل رہے تھے تو طلباء کا وہ گروہ ابھی بھی ان کے سر کا مطالبہ کر رہا تھا۔ پتہ نہیں کیوں اس وقت میں نے اپنے دوستوں سے بات کرتے ہوئے دعا کی کہ اے اللہ یہ ڈاکٹر سلام کا سر مانگ رہے ہیں انہیں ’’ڈاکٹر سلام کا سا دل بھی دیدے‘‘۔
میں اپنے مضمون کا اختتام اس شعر کے ساتھ کرتا ہوں:
کچھ ایسے بھی اٹھ جائیں گے اس بزم سے جن کو
تم ڈھونڈنے نکلو گے مگر پا نہ سکو گے