ماحول اور امراض کا یادداشت میں کمی سے تعلق – جدید تحقیق کی روشنی میں

ماحول اور امراض کا یادداشت میں کمی سے تعلق – جدید تحقیق کی روشنی میں
(محمود احمد ملک)

برطانیہ کے طبی ماہرین نے کہا ہے کہ دانتوں سے محرومی کا یادداشت میں کمی سے گہرا تعلق ہے۔ برطانوی ماہرین نفسیات نے حال ہی میں ماہرین امراض دندان کے تعاون کے ساتھ کی جانے والی ایک مطالعاتی تحقیق کے حوالے سے بتایا ہے کہ بڑھاپے میں دانتوں سے محرومی کے علاوہ مسوڑھوں کی بیماریوں، اوائل عمری میں غذا کی کمی، انفیکشن یا دیگر دیرینہ بیماریوں کے باعث بھی انسان دانتوں سے محروم ہوجاتا ہے اور اس صورت میں مسوڑھوں کے دماغ کے ساتھ تعلق رکھنے والے اعصاب متأثر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یادداشت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ ماہرین نے دانتوں سے محروم 144 افراد کو بارہ سال تک زیرمشاہدہ رکھا اور ان افراد کے دانتوں سے محروم ہونے کے مختلف مراحل میں یادداشت اور ذہانت کے حوالے سے ٹیسٹ لئے گئے جن کے دوران معلوم ہوا کہ یادداشت میں کمی کے مرض کا دانتوں کی محرومی سے گہرا تعلق ہے جبکہ معمر لوگوں میں یہ بات تجرباتی طور پر بھی ثابت ہوچکی ہے۔
٭ امریکہ میں طبی ماہرین نے کہا ہے کہ ہائی بلڈپریشر کے عارضے میں مبتلا افراد عملی زندگی میں زیادہ چست نہیں ہوتے جبکہ ایسے افراد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یادداشت میں کمی اور مختلف اقسام کی معذوری لاحق ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین نے ہائی بلڈپریشر کے عارضے میں مبتلا سینکڑوں افراد کو دیئے گئے سوالناموں اور اُن کی میڈیکل ہسٹری کا تحقیقی مطالعاتی جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ہائی بلڈپریشر مریضوں کے نہ صرف سسکولر سسٹم بلکہ دماغ، گردوں اور دیگر جسمانی اعضاء کے افعال کو بھی متأثر کرتا ہے اور ایسے افراد عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ مختلف اشیاء اٹھانے سے بھی قاصر ہو جاتے ہیں اور ان کے جسمانی اعضاء کی کارکردگی متأثر ہوتی ہے۔ ماہرین نے بلڈپریشر کے مریضوں کے کئی زبانی، تحریری اور توجہ مرکوز کرنے والے ٹیسٹ بھی لئے جن کے دوران بھی یہ مریض مناسب بلڈپریشر رکھنے والوں کے مقابلے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے۔ ماہرین نے اپنی تحقیق کے دوران اخذ کیا کہ نچلے درجے کا بلڈپریشر رکھنے والے مریض عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ معذوری کا شکار نہیں ہوتے اور وہ ہائی بلڈپریشر کے مریضوں کے مریضوں کے مقابلے میں بڑھاپے میں بھی چست ہوتے ہیں۔
٭ لندن میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ڈپریشن سے متأثرہ افراد کو یادداشت ختم کردینے والی بیماری الزائمر لاحق ہونے کے خطرات نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔ الزائمر ایک ایسی دماغی بیماری ہے جس کے لاحق ہونے کے نتیجے میں متأثرہ فرد بہت آہستگی کے ساتھ اپنی یادداشت کھو دیتا ہے اور بیماری کی شدّت کی صورت میں مریض کا اعصابی نظام بھی متأثر ہوتا ہے۔ الزائمر کی علامات میں کوئی بات بالکل بھول جانا، بلاوجہ ہیجان میں مبتلا ہونا، انتہائی کنفیوژن کا شکار ہونے کے ساتھ ایک دَم خوش اور کچھ ہی دیر میں دفعۃً ناراض ہوجانا شامل ہیں۔ سائنسدانوں نے اپنی اس تحقیق میں ساٹھ سے نوّے سال کی درمیانی عمر کے ایسے 503؍افراد کو منتخب کیا جو ڈی منشیا کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوئے تھے لیکن اُن میں سے 88 ؍افراد ڈپریشن میں مبتلا رہے تھے جبکہ 46 افراد کو بعد میں ڈپریشن کا مرض لاحق رہا۔ چھ سال کے مطالعے کے دوران اُن میں سے 33؍افراد الزائمر کی بیماری میں مبتلا ہوگئے جس سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ اوائل عمر میں ڈپریشن کا شکار رہنے والوں میں الزائمر لاحق ہونے کا خطرہ تین گنا جبکہ ادھیڑ عمری میں ڈپریشن کا شکار ہونے والوں میں یہ خطرہ اڑہائی گنا زیادہ ہوتا ہے۔
٭ اگرچہ اس سے پہلے امراض قلب اور سانس کی تکلیف کے حوالے سے فِضائی آلودگی کے اثرات معلوم کئے جاچکے ہیں لیکن آلودہ ہوا میں سانس لینے کے دماغ پر مرتب ہونے والے اثرات کا پہلی مرتبہ امریکہ میں اب جائزہ لیا گیا ہے۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ وہ بچے جو ٹریفک سے پیدا ہونے والی آلودگی کے ماحول میں رہتے ہیں، اُن کی ذہانت کی سطح نسبتاً کم ہوتی ہے اور صاف ہوا میں سانس لینے والے بچوں کے مقابلے میں اُن کی ذہانت اور یادداشت کم دیکھی گئی ہے۔ اندازے کے مطابق ذہانت پر فِضائی آلودگی کے اثرات بالکل اُسی طرح کے ہوتے ہیں جس طرح حمل کے دوران روزانہ دس سگریٹ پینے والی ماں کے پیدا ہونے والے بچے پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ بوسٹن میں ہاورڈ سکول آف پبلک ہیلتھ کی ڈاکٹر فرانکو نے اپنی تحقیق میں آٹھ سے گیارہ سال کی عمر کے 202 بچوں پر تحقیق کے دوران یہ معلوم کیا ہے کہ سیاہ کاربن والے دھوئیں میں بچوں کے سانس لینے کے بعد اُن کی ذہنی کارکردگی کس حد تک متأثر ہوتی ہے۔ کاربن کی آمیزش والا یہ دھواں تقریباً تمام قسم کی گاڑیوں اور خصوصاً ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کے چلنے سے خارج ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی معلوم کیا ہے کہ سیسے کی آلودگی سے بھی بچے اُسی طرح متأثر ہوتے ہیں جیسے فِضائی آلودگی سے متأثر ہوتے ہیں۔
٭ یورپ کے ایک طبی جریدے ’نیورون ‘ میں ایک جدید تحقیق شائع کی گئی ہے جس کے مطابق خون میں شکر کی مقدار میں کمی سے یادداشت میں بھی کمی واقع ہونے لگتی ہے جو مہلک بیماری الزائمر کا پیش خیمہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جس وقت خون میں شکر کی مقدار کم ہوتی ہے تو دماغ کو گلوکوز کی مقدار بھی کم ملتی ہے جس کی وجہ سے دماغ کی سرگرمی کم ہوجاتی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک خاص قسم کی پروٹین الزائمر بیماری کو متحرک کرنے کا باعث بنتی ہے۔ طبّی ماہرین نے کہا ہے کہ خون میں شکر کی سطح کو نارمل حالت میں رکھ کر اس بیماری کو روکنے کی کامیاب کوشش کی جاسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہائپرٹینشن کو کنٹرول کرنا بھی لازمی ہے کیونکہ بلڈپریشر زیادہ ہونے سے بھی دماغ میں گلوکوز کی فراہمی کا تناسب متأثر ہوتا ہے۔
٭ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تنہا رہنے والے درمیانی عمر کے افراد کو شادی شدہ افراد کے مقابلے میں، یادداشت کھودینے کی بیماری (یعنی ڈیمنشیا) میں مبتلا ہونے کا خطرہ دو گنا ہوتا ہے۔
آئندہ رپورٹ میں یادداشت کی بیماری کے علاج کے بارہ میں بیان کیا جائے گا-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں