نمک کے نقصانات سے بچیں – جدید تحقیق کی روشنی میں

نمک کے نقصانات سے بچیں – جدید تحقیق کی روشنی میں
(فرخ سلطان محمود)

آج کی دَور کی پُرآسائش اور آرام طلب زندگی نے جہاں بہت سی بیماریوں کو دعوت دے رکھی ہے وہاں مصنوعی غذا میں مختلف کیمیکلز کے استعمال کے ساتھ ساتھ میٹھے اور نمک کی غیرضروری زیادتی سے بھی غیرمعمولی طور پر بعض بیماریوں کو حملہ آور ہونے میں مدد ملی ہے۔
٭ انسانی جسم کے لئے نمک کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ غذا کے ہضم ہونے کے بعد جب توانائی پیدا ہوتی ہے تو نمک کے ذریعے ہی یہ توانائی سارے جسم میں پھیل جاتی ہے۔ نمک کی مدد سے ہی اعصاب دماغ تک مختلف پیغامات پہنچاتے ہیں۔ اسی طرح جسم میں پٹھوں کو پھیلنے اور سکڑنے کے قابل رکھنے کے لئے بھی نمک کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ ہمارا دل بھی پٹھوں میں ہی شامل ہے اس لئے دل کی کارکردگی، نمک کی بھی مرہون منت ہے اور ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کو روزانہ اڑہائی سو سے پانچ سو ملی گرام تک نمک کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اگر جسم میں نمک کی مقدار زیادہ ہوجائے تو گردے زیادہ مقدار میں پانی خارج کرنے لگتے ہیں جس سے خون گاڑھا ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں دل کو زیادہ زور لگاکر یہ خون جسم کے مختلف حصوں تک پہنچانا پڑتا ہے اور اس طرح بلڈپریشر بڑھ جاتا ہے۔ اگر طویل عرصے تک خون کا یہ دباؤ بڑھا ہوا رہے تو خون کی نالیوں پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ بھی متأثر ہوجاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں دل کی بیماریوں اور فالج کے امکانات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت مند بالغ افراد کو ایک دن میں 2300ملی گرام سے زیادہ نمک قطعاً استعمال نہیں کرنا چاہئے اور خصوصاً ایسے افراد کو اِس مقدار سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے جن کے ہائی بلڈپریشر میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ جن لوگوں کو ہائی بلڈپریشر ہونے کا امکان ہوسکتا ہے، اُن میں موٹے افراد، رنگدار قومیں اور ایسے افراد شامل ہیں جن کے خاندان میں کسی کو ہائی بلڈپریشر، فالج یا دل کی بیماری ہوچکی ہو۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ جو لوگ ہائیپرٹینشن یعنی ہائی بلڈپریشر میں مبتلا ہوچکے ہیں، اُنہیں روزانہ پانچ سو ملی گرام سے زیادہ نمک استعمال نہیں کرنا چاہئے۔
طبّی ماہرین کہتے ہیں کہ ہمیں دواؤں کی بجائے فطری طور پر اپنے بلڈپریشر کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زندگی کے ہر دس سال کے بعد Systolic بلڈپریشر میں قدرتی طور پر چار پوائنٹس کا اضافہ ہوجاتا ہے چنانچہ تمام بالغ افراد کو عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ غذا میں نمک کی مقدار بھی کم کردینی چاہئے۔ یعنی پچاس سال سے زیادہ عمر کے صحتمند افراد کو روزانہ 1500 ملی گرام سے زیادہ نمک استعمال نہیں کرنا چاہئے جبکہ 70 سال سے زائد عمر کے صحتمند افراد کے لئے یہ حد 1200ملی گرام ہے۔
غذائی ماہرین کے مطابق یہ بات بھی اہم ہے کہ نمک اور سوڈیم دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ عام خوردنی نمک میں چالیس فیصد سوڈیم اور ساٹھ فیصد کلورائیڈ ہوتا ہے۔ لیکن ایسی غذا جسے پروسس کرکے محفوظ رکھا گیا ہو، اُس میں سوڈیم کی مقدار کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ چنانچہ سوڈیم سے بچنے کا ایک آسان طریق یہ بھی ہے کہ پراسسڈ فوڈ کی جگہ تازہ غذائی اشیاء استعمال کی جائیں جو نہ صرف سوڈیم کی زائد مقدار سے پاک ہوتی ہیں بلکہ ریشے، وٹامنز، معدنیات اور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھی مالامال ہوتی ہیں۔
بلڈپریشر کو کم کرنے میں سوڈیم کی کمی کے ساتھ ساتھ پوٹاشیم کی مقدار میں کسی قدر زیادتی بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ پوٹاشیم ویسے تو زمین کے نیچے اُگنے والی سبزیوں، بہت سے پھلوں اور پالک جیسی سبز پتوں والی سبزیوں میں پایا جاتا ہے لیکن طبّی ماہرین نے جب بلڈپریشر پر قابو پانے کے لئے سوڈیم کی یومیہ مقدار کم کرنے کی سفارش کی تھی تو پوٹاشیم کی یومیہ مقدار 3500ملی گرام سے 4700ملی گرام تک بڑھادینے کا مشورہ بھی دیا تھا کیونکہ متعدد تجربات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ پوٹاشیم سے لبریز غذائی اشیاء کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے نتیجے میں بلڈپریشر اوسطاً تین پوائنٹس کم ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پوٹاشیم ہمارے جسم میں سوڈیم کے اثرات کو متوازن کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
انسانی صحت کا خیال رکھے بغیر غذا تیار کرنے والے اداروں میں بہت سی فاسٹ فوڈ تیار کرنے والی کمپنیوں کو بھی موردالزام ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ حال ہی میں امریکی ماہرین غذائیات نے اپنی ایک رپورٹ میں ایک بار پھر کہا ہے کہ مشہور زمانہ فاسٹ فوڈ کمپنیوں کے کھانوں میں نمک کی مقدار معمول سے زیادہ پائی جاتی ہے اور یہ مقدار بالغوں کے لئے تجویز کردہ نمک کی مقدار سے بھی دُگنی ہے جبکہ بچوں کے لئے تجویز کردہ نمک کی روزانہ مقدار سے چار گنا زیادہ ہوتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی ماہرین غذائیت نے 346 کھانوں اور مشروبات جبکہ 264 اقسام کی دیگر خوراک میں نمک کی موجودگی کا تجزیاتی جائزہ لیا تو ان میں سے بعض کھانوں میں نمک کی مقدار اتنی زیادہ پائی گئی جتنی کہ سمندری پانی میں ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ زیادہ مقدار میں نمک استعمال کرنے والے زیادہ نمک کھانے کے عادی ہوجاتے ہیں اور پھر وہ نمک کی زیادہ مقدار محسوس نہیں کرتے جس کی وجہ سے ان کھانوں کی طلب بڑھتی رہتی ہے جبکہ کمپنیاں بھی اسی حقیقت اور سستے اجزاء کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے کھانوں میں نمک کا استعمال زیادہ کرتی ہیں۔ تاہم فاسٹ فوڈ کمپنیوں نے ماہرین کی مرتب کردہ اس رپورٹ کو تعصب پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کھانوں میں ذائقہ برقرار رکھنے کے لئے تمام غذائی اجزاء مطلوبہ مقدار میں ہی استعمال کئے جاتے ہیں۔
٭ گزشتہ ہفتے برطانوی ماہرین کے مرتب کردہ ایک تحقیقی مطالعے میں کہا گیا ہے کہ اگر آپ اپنے بچے کو موٹاپے سے بچانا چاہتے ہیں تو اُس کی خوراک میں نمک کم کردیں اور میٹھے سافٹ ڈرنکس کا استعمال بھی بہت کم کردیں۔ کیونکہ ان دونوں چیزوں کے زیادہ استعمال سے بچے موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں اور بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اُن میں دل کی بیماریوں کے امکانات میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق چار سے اٹھارہ برس تک کی عمر تک کے بچوں میں نمک کا استعمال موجودہ مروجہ مقدار سے اگر نصف کردیا جائے اور سافٹ ڈرنکس کی تھوڑی سی مقدار پینے کی اجازت صرف ہفتے میں دو مرتبہ دی جائے تو بہت عمدہ نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ جس قدر زیادہ نمک کھایا جاتا ہے، میٹھے مشروب کی طلب بھی اُسی قدر زیادہ ہوتی ہے اور اس طرح دونوں چیزوں کی زیادتی وزن میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق خوراک میں سے روزانہ ایک گرام نمک کم کردینے کا مطلب روزانہ ایک سو گرام میٹھا سافٹ ڈرنکس نہ پینا ہے۔ نیز ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نمک کا استعمال کم کرنے کے نتیجے میں گردوں میں کیلشیم سے بننے والی پتھریوں میں کمی آتی ہے-
امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق صحت مند بالغ فرد کے لئے دن میں چائے کی ایک چمچی کے برابر نمک لینا کافی ہے جبکہ برطانیہ میں بعض مخصوص کھانوں میں استعمال کی جانے والی چیزوں میں نمک کی مقدار 75 فیصد تک ہوتی ہے جن میں ٹماٹو ساس، سُوپ، یخنیاں اور بند ڈبوں میں دستیاب خوراک شامل ہیں۔
برطانوی طبی ماہرین نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ ہائی بلڈپریشر کے مریضوں کو کم نمک والی غذائیں استعمال کرنی چاہئیں۔ شائع شدہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے بلڈپریشر کے عارضے میں مبتلا ایسے بیس مریضوں کا، جنہوں نے اپنی غذا میں بہت کم نمک استعمال کیا تھا، ایک دوسرے گروپ کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جنہوں نے معمول کے مطابق نمک کا استعمال جاری رکھا تھا۔ دونوں گروپوں میں عمر، وزن، کولیسٹرول لیول اور خاندانی میڈیکل ہسٹری کے حوالے سے اکٹھے کئے جانے والے اعدادوشمار میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ ماہرین نے معلوم کیا کہ کم نمک استعمال کرنے والوں کے بلڈپریشر میں تقریباً پچاس فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ چنانچہ ماہرین نے عوام کو ایک بار پھر یہ مشورہ دیا ہے کہ ہائی بلڈپریشر کے مریضوں کو کم نمک والی غذائیں استعمال کرنی چاہئیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں