یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن یکم اپریل 2024ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ آصفہ کلیم صاحبہ نے ایک مضمون میں اپنے مشاہدات کے حوالے سے خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دو بزرگ خواتین محترمہ صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ اور محترمہ صاحبزادی امۃالحکیم بیگم صاحبہ کی سیرت رقم فرمائی ہے۔
جلسہ سالانہ جرمنی 1995ء کے موقع پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے ہماری درخواست پر خاندان حضرت اقدسؑ کے جن مہمانوں کو ہمارے ہاں ٹھہرایا اُن میں محترمہ صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ (بی بی باچھی) اور محترمہ صاحبزادی امۃالحکیم بیگم صاحبہ (بی بی حکمی) بھی شامل تھیں۔ دس دن کا قیام تھا۔ میں بہت گھبرا رہی تھی لیکن جب آپ ہمارے گھر آئیں تو مجھے گھبرایا دیکھ کر فرمانے لگیں کہ اتنی افراتفری نہ ڈالو۔ غرض یہ کہ کسی قسم کا کوئی تکلّف ہی نہیں رہا۔ جب مَیں نے آپ سے کہا کہ آپ کے ہاں تو ملازم موجود ہوں گے۔ آپ کومیرے کام کے طریقے سے کچھ پریشانی ہوگی کیونکہ آپ عادی نہیں ہیں۔ اس پر دونوں نے کہا تمہارے پاس یہاں ملازم نہیں پھر کیوں نہ مل جل کر کام کریں۔ اس طرح مجھے ایک ہی دن میں ایسے محسوس ہونے لگا جیسے ہم شروع سے اکٹھے رہ رہے ہیں۔
اگلی صبح جب بی بی حکمی اُٹھ کر باتھ روم میں گئیں تو مَیں نے ان کا کمرہ ٹھیک کردیا۔ پھر اگلے روز بھی اسی کام کے لیے جب مَیں آپ کے کمرے میں گئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ بی بی نے سب کچھ ٹھیک کرلیا ہوا تھا۔ بہت پیارے انداز میں کہنے لگیں: آج تمہاری ہوشیاری کام نہیں آئی۔ پھر اگلے روز علی الصبح کچن سے برتنوں کی آواز آئی۔ مَیں نے جاکر دیکھا تو آپ چائے بنا رہی تھیں۔ میں نے کہا مَیں بنادیتی ہوں۔ تو کہنے لگیں تم کیا سمجھتی ہو مجھے چائے بنانی نہیں آتی؟ اور کہا چلو آؤ بیٹھو آج ہم دونوں ایک ساتھ چائے پی لیتے ہیں۔ اس طرح مجھے اُن کے ہاتھ کی بنائی ہوئی چائے پینے کی سعادت حاصل ہوئی۔
ایک دن میں نے ڈ اکٹر کے پاس جانا تھا۔ صبح ناشتے کے بعد کچن ایسے ہی پھیلا ہوا چھوڑ کر چلی گئی۔ واپس آئی تو ہر چیز اپنی جگہ پرتھی۔ معلوم ہوا کہ آپ نے کیا ہے۔
بی بی حکمی خاموش، حلیم اور نہا یت نفیس طبیعت کی ما لک تھیں اورہر ایک کا دکھ، درد محسوس کرنے والی تھیں۔ غریبوں کے جذبات کابہت خیال رکھتی تھیں۔ شاپنگ کرنے جاتیں تو ایک ہی طرح کی دس بیس چیزیں خرید لیتیں، بیشمار جرابوں کے جوڑے، چھوٹے بچوں کے کھلونے لے لیتیں۔ پوچھنے پر بتایا یہ سب غریبوں کے لیے تحفے ہیں اور ایک ہی طرح کے اس لیے ہیں کہ کوئی یہ نہ کہے کہ اس کا اچھا ہے میرا نہیں۔
جلسہ سالانہ کے پہلے دن وقفے میں بہت ساری عورتیں بےتاب ہو کر بی بی کی طرف آئیں تو سیکیورٹی والوں نے روک دیا۔ اس پر آپ نے صدر لجنہ کو پیغام بھجوایا کہ میرے اوپر سے یہ پولیس کا پہرہ ختم کردیں۔ مَیں نے اس وقت لوگوں میں آپ کے لیے بہت محبت دیکھی۔ آنکھوں میں خوشی کے آنسو دیکھے۔ ایک بار آپ کھانے کے ٹینٹ میں کھانا کھا رہی تھیں۔ باہر ایک لڑکی دو بچوں کے ساتھ آپ کو ملنے کے لیے کھڑی تھی۔ آپ کی نظر پڑی تو مجھے ایک پلیٹ میں چاول ڈال کر دیے کہ اس کو دے آؤ تاکہ اپنے بچوں کو کھلائے۔ جب کھانے سے فارغ ہوئیں تو اس کو بلایا اور بہت پیار کیا۔ وہ لڑکی بہت رو رہی تھی تو بی بی نے بتایا کہ اس کی والدہ کی ایک ماہ قبل وفات ہوگئی ہے۔ وہ مجھے ملنے آتی تھیں۔ وفا ت سے پہلے جب ان کو پتہ چلا کہ مَیں جرمنی جا رہی ہوں تو بڑی خوش ہوئیں کہ میری بیٹی آپ سے وہا ں مل لے گی۔ انہوں نے اس کے لیے ایک سوٹ اور بچوں کے لیے سویٹر بنائے تھے، لیکن دے نہیں سکیں۔ اس لیے مَیں خود اس کے لیے لندن سے جوڑا اور بچوں کے لیے سویٹر خرید کر لائی ہوں۔
آپ میں خلافت کا احترام اور اطاعت کا اعلیٰ مقام تھا۔ ہر روز ناشتے کے بعد حضورؒ کی خدمت میں دعائیہ خط لکھتی تھیں۔ ایک دن بتایا کہ حضور کو جلسہ کی کامیابی پر مبارکباد پیش کی ہے اور ملاقات کے لیے درخواست دی ہے۔ اگلے دن ملاقات کرنے کے بعد جب مَیں آپ کو لینے کے لیے گئی تو حضور ؒنے مجھے فرمایا کہ بی بی کی فوٹو بھی بنائی ہے کہ نہیں؟ مَیں نے عرض کی ابھی تو نہیں بنائی ۔ دراصل جب بھی فوٹو بنانے کا کہتی تو بی بی منع کر دیتیں۔ پھر اگلے دن مَیں نے کہا کہ حضور نے فوٹو بنوانے کے لیے فرمایا تھا۔ اس پر کہا: بنالو، لیکن ہر ایک کو نہ دکھاتی پھرنا۔ مَیں نے وعدہ کیا کہ کسی کو نہیں دکھاؤں گی۔ جب تصویریں حضورؒ کی خدمت میں پیش کیں تو فرمایا: تم نے تو کمال کر دیا ہے۔ جب حضرت آپا جان حرم حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو وہ تصاویر دیں توآپ نے بتایا کہ امی نے تو فرح کی شادی پر بھی تصویر نہیں بنوائی تھی۔ پس آپ کا خلیفۂ وقت کی اطاعت کا یہ اعلیٰ معیار تھا۔
بی بی کو فلو کی شکایت تھی اور پہاڑی علاقے میں سیر کا پروگرام تھا۔ حضور انورؒ نے پیغام بھیجا کہ بی بی آرام کریں کہیں ٹھنڈ سے طبیعت زیادہ خراب نہ ہو جائے۔ دو گھنٹے بعد حضورؓ نے آپ کی طبیعت پوچھنے کے لیے فون کروایا تو آپ نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے بتایا کہ اب طبیعت ٹھیک ہے۔ نماز کے بعد بی بی کو فون کا بتایا تو پریشانی سے پوچھا کہ تم نے کیا جواب دیا؟ میرا جواب سن کر کہا: بہت اچھا کیا۔ آپ کو فکر تھی کہ کہیں حضورپریشان نہ ہو جائیں۔ تھوڑی دیر بعد دوبارہ فون آیا کہ حضور نے فرمایا ہے کہ طبیعت بہتر ہے تو بی بی رات کا کھانا میرے ساتھ کھائیں۔ مَیں آپ کے ساتھ مسجد پہنچی تو آپ ڈرائنگ روم میں کھڑی ہوگئیں۔ مَیں نے کہا:آپ بیٹھ جائیں تو کہا مَیں تو خلیفۂ وقت کے احترام میں کھڑی ہوں، کسی وقت بھی اندر تشریف لا سکتے ہیں۔ قریباً دس منٹ تک آپ کھڑی رہیں۔ حضورؒ تشریف لائے، بی بی کا حال پوچھا اور بیٹھنے کے لیے کہا۔ بی بی کھڑی رہیں۔ حضورؒ مسکرائے اور پھر بیٹھ کرفرمایا: اب بیٹھ جائیں۔ پھر مَیں لجنہ ہال میں چلی گئی۔ کھانے کے بعد آپ کو لینے گئی تو آپ نے پلیٹ میں کھانا پکڑا ہوا تھا۔ مجھے دیا اور کہا حضور نے تمہارے بچوں کے لیے دیا ہے۔ جب ہم باہر آئے تو مہمان بھی سیر سے واپس آ گئے تھے۔ بی بی نے کہا ان کی سیر ہوگئی، ہماری عید ہوگئی۔ میں نے پیکٹ کھولا اور سب کو کہا کہ حضور کا تبرک کھائیں۔ بی بی نے بڑے غور سے میری طرف دیکھا لیکن مَیں سمجھ نہ سکی۔ فجر کی نماز پر میرے بیٹے سے حضورؒ نے پوچھا : میں نے رات کو تحفہ بھیجا تھا، مل گیا؟ بیٹے نے نفی میں جواب دیا تو حضور ؒ نے مسکرا کرفرمایا: تمہاری امی ڈنڈی مار گئی ہیں۔ اُس نے یہ بات گھر آکر بتائی تو بی بی نے کہا: مَیں اسی لیے تمہاری طرف دیکھ رہی تھی کہ تم امانت میں خیانت کررہی ہو۔ میں نے کہا مجھے منع کردیا ہوتا۔ کہنے لگیں: تم اس وقت بہت خوش تھیں اور چیز دے کر واپس تو نہیں لینی تھی۔ میں نے حضورؒ کو ساری بات لکھ کر اپنی شرمندگی کا اظہار کیا تو حضورؒ نے سید صہیب صاحب کے ذریعہ پیغام دیا کہ شرمندگی کی کیا بات ہے اور ساتھ ہی ایک اَور پیکٹ بھجوا دیا۔
ایک دن بی بی نے کہا کہ آج گُڑ والے چاول بناؤ۔ لیکن مجھے تو کوئی بھی چاول ٹھیک سے بنانے نہیں آتے تھے۔ میں نے کسی سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پانی میں گڑ ڈالو اور تھوڑی دیر میں چاول ڈال دینا۔ میں نے بنانے شروع کردیے۔ چاول ڈال کر ڈھک دیے۔ جب کھولا اور اندر چمچ ہلایا تو وہ کھیر بن چکی تھی۔ میں نے سوچ لیا کہ گڑ کے چاولوں کا ذکر نہیں کروں گی۔ کھانا لگانا شروع کیا اور دل میں دعائیں مانگتی جارہی تھی۔ بی بی نے میرے چہرے سے اندازہ لگالیا اور کچن میں جاکر چاول دیکھ آئیں۔ مَیں نے میٹھے میں آئس کریم رکھ دی کہ چاولوں کی طرف دھیان نہ جائے۔ اس پر بی بی نے کہا پہلے چاول تو لاؤ۔ مَیں ڈش لے کر گئی تو کھاتے وقت بی بی نے کہا کہ مجھے تو دو مزے آرہے ہیں ایک گڑ کے چاول کا اور ایک گڑ کی کھیر کا۔ اور پھر بتایا کہ میں نے کچن میں دیکھ لیے تھے اور چکھ بھی لیے تھے۔ مجھے بہت مزیدار لگے۔ مَیں نے بتایا کہ مجھے گڑ والے چاول اور زردہ دونوں ہی بنانے نہیں آتے۔ یہ سن کربی بی باچھی نے کہا مَیں تمہیں زردہ بنانا سکھا دیتی ہوں پھر تم جب بھی زردہ بنائو گی لوگ تعریف کریں گے۔ بی بی کی یہ بات اللہ کے فضل سے اب تک پوری ہورہی ہے۔
کھانے کے بعد بی بی ہمیشہ اپنے برتن خود اٹھاتیں۔ مَیں اٹھانے لگتی تو میرے ہاتھ پراپنا ہاتھ رکھ دیتی تھیں۔
سب مہمانوں کے چہرے ماشاءاللہ بہت فریش اور جلد بہت چمکدار تھی اور کسی کو بھی نظر کی عینک لگاتے نہیں دیکھا۔ ایک دن میں نے اس کی وجہ پوچھی تو بی بی کہنے لگیں کہ بادام کھایا کرو اور روغنِ بادام منہ اورہاتھوں پر لگایا کرو۔
بی بی کی عادت تھی گاڑی میں بیٹھتے ہی نقاب نیچے کرکے نفل پڑھنا شروع کردیتیں۔ جب تک سفر ختم نہ ہوتا نفل پڑھتی رہتیں۔ ہر وقت دعاؤں میں لگی رہتیں۔ سیر کے دوران خوبصورت نظارے دیکھ کر دعا شروع کر دیتیں کہ یہ خدا کی قدرت کے نظارے ہیں، انسان کا اس میں کیا دخل۔
ایک دن مَیں کسی کے سا تھ بیٹھی با تیں کر رہی تھی تو ہماری طرف دیکھ کر کہنے لگیں خاوند کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ مَیں بڑی حیران ہوئی کہ ہم تو آہستہ آہستہ بول رہی ہیں۔ ایک عورت نے بتایا کہ بی بی ہونٹوں سے بات کو سمجھ لیتی ہیں۔ مَیں نے کہا بی بی! مَیں تو تعریف کر رہی ہوں۔ تو کہا کہ غیر کے آگے تعریف بھی نہیں کرتے۔ اگر خاوند اچھا ہے تو خدا کے آگے دعا کرو، اس کا شکر ادا کرو۔ بعض عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ 9 خوبیاں بھول جاتی ہیں اور اگر کوئی کمزوری ہو تو اس کوغصے کے وقت بیان کرتی ہیں۔ یہ سخت غلط بات ہے۔
آخری روز مَیں نے دعا کے لیے کہا کہ مجھ میں بہت کمزوریاں ہیں۔ آپ مسکرائیں اور کہا کہ ایک کمزوری تو مَیں نے بھی دیکھی ہے۔ خاوند کے آگے تمہارا حلیہ درست ہونا چاہیے۔ جب وہ باہر جائے تو خوشکن تصور لے کر جائے، جب باہر سے آئے تو تمہیں دیکھ کر اس کا دل خوش ہوجائے۔ چوڑیاں پہن کررکھا کرو بازو اچھے لگتے ہیں اور کانوں میں بھی کچھ پہنا کرو۔ آنکھوں میں سرمہ اور لپ اسٹک بھی لگایا کرو۔ میں نے وقت کی کمی کا عذر کیا تو بی بی کھلکھلا کر ہنسیں اور کہا: مَیں نے ان دنوں بہت دیکھا ہے، باہر جاتے ہوئے تو سج دھج پر بڑا وقت لگاتی ہو گھر میں تو پانچ منٹ کافی ہیں۔
میری چھوٹی بیٹی ایمن کی عادت تھی کہ ہر نماز پڑھنے والے کے ساتھ ٹوپی پہن کر کھڑی ہو جاتی۔ ایک دن بی بی کو نماز پڑھتے دیکھا تو کھڑی ہوگئی۔ بی بی کے سجدے بہت لمبے ہوتے تھے۔ بعد میں بی بی نے اس کو ساتھ لگا کر ماتھے پرپیار کیا۔ اس نے توتلی زبان میں کہاکہ آپ کی نماز تو بہت لمبی ہوتی ہے۔ بی بی نے بتایا کہ مَیں حضور کے لیے دعا کرتی ہوں، جماعت کے لیے بہت دعا کرتی ہوں۔ آج میں نے تمہارے لیے بھی بہت دعا کی ہے۔ اُن کا اتنا پیار ملا کہ پھر یہ شوخ ہوگئی اور ان کو جرمن نظمیں سناتی رہی۔ وہ بی بی کی انگلی پکڑ کر کتاب پر رکھتی اور کہتی یہ طوطا ہے، یہ پھول ہے وغیرہ۔ بی بی مسکراتے ہوئے سر ہلاتی رہیں۔ پھر اس سے پوچھا تم نے بڑے ہو کر کیا بننا ہے تو ایک دم بولی: ماما۔ بی بی نے پوچھا: ماما بن کر کیا کروگی؟ کہنے لگی مسجد جاؤں گی اور کام کروں گی۔ بی بی نے میری طرف دیکھا اور فرمایا: شاباش! بچے کی باتوں اور حرکات سے گھر کے ماحول کا پتہ چل جاتا ہے۔
گھر کے دروازے کے قریب ڈسٹ بِن پڑا ہوا ہے ایک دن میں جلدی میں گلے میں دوپٹہ لے کر کوڑا پھینکنے چلی گئی۔ اچانک میری نظر اوپر کھڑکی پر پڑی تو بی بی وہاں کھڑی تھیں۔ بے ساختہ میرے ہاتھ سر پر چلے گئے۔ یہ دیکھ کر آپ مسکرائیں اور آسمان کی طرف انگلی اٹھاکر اشارہ کیا جیسے کہہ رہی ہوں کہ مَیں نہیں، اللہ دیکھ رہا ہے۔
پاکستان گئی تو بی بی سے ملنے بھی گئی ۔ پنڈی سے ربوہ تک کا سفر اپنی گاڑی میں کرنا تھا اس لیے چادر لے لی۔ بی بی نے دیکھا تو پوچھا: یہ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے؟ مَیں نے وجہ بتائی توکہا: مَیں تو تمہیں جانتی ہوں لیکن گیٹ پر بیٹھے ہوئے لوگ تو نہیں جانتے۔ یہ تو یہی سمجھیں گے کہ یورپ میں بھی ایسے ہی رہتی ہوگی۔ پھرکہا: اللہ کو جواب دینا ہے اس لیے یہ خیال رکھنا چاہیے کہ کوئی کوتاہی تو سامنے نہیں آرہی ۔ پھر اگلے دن آپ نے مجھے بلاکر ایک پیکٹ دیا جس میں میرے اور میری بیٹیوں کے لیے کانچ کی چوڑیاں، الیس اللہ کی انگوٹھیاں، بچوں کے لیے ٹوپیاں اور میرے لیے چاندی کی بالیاں تھیں۔ ساتھ کہا: بیٹیوں کوابھی سے چوڑیاں پہننے کی عادت ڈالو۔ اس پر مجھے خیال آیا کہ مَیں کل جب ملنے گئی تھی تو چوڑیاں نہیں پہنی تھیں۔ لیکن آپ نے اس با ت کو نوٹ کیا اور کچھ کہے بغیر میرے اور بیٹیوں کے لیے خود چوڑیاں خریدیں۔
بی بی کی دعاؤں کا ایک معجزہ یہ دیکھا کہ آپ کے جانے کے چار ماہ بعد عزیزہ ایمن کو سیڑھیوں سے گر کر سر پر شدید چوٹ آئی کہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ اس کی وفات ہوگئی ہے۔ لیکن پھر بتایا کہ ابھی سانس تو ہے البتہ کومے میں ہے۔ میرے تو حواس ختم ہو گئے۔ وہیں ہسپتال کے کونے میں اپنا دوپٹہ بچھا لیا اور دعا کرنے لگی کہ یا اللہ! بی بی تو دعاؤں اور رحمتوں کا بابرکت وجود تھیں۔ انہوں نے اس بچی کے لیے جو دعائیں کی ہیں ان کو قبول فرما۔ خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا اور بیٹی کو نئی زندگی ملی۔ الحمدللہ
بی بی باچھی کی محبت اور تربیت کے پہلوئوں کو مَیں کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتی۔ ایک روز میرے بچے باہر کھیل رہے تھے کہ ایک بچی کے رونے کی آواز آئی۔ اس کو شہد کی مکھی نے کاٹ لیا تھا۔ بچے پریشان ہوکر گھر آگئے اور بی بی کوبتایا کہ ایک گندی مکھی نے ہماری جرمن دوست کو کاٹ لیا ہے۔ بی بی نے پہلے تو بچوں سے ہمدری کی اور پھر کہا کہ اصل میں آپ سب نے تو مناسب کپڑے پہنے ہوئے ہیں اس لیے مکھی کو کاٹنے کے لیے جگہ نہیں ملی لیکن اس بچی نے بہت چھوٹے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ آپ کی بات سن کر بچوں نے خوش ہوکر اپنے کپڑوں کو دیکھا۔
آپ ہمیشہ موقع کی مناسبت سے بچوں کو نصیحت کرتیں اور بچے اس پر خوشی خوشی عمل کرتے۔ میرا چھوٹا بیٹا احد فٹ بال کا میچ کھیلنے جا رہا تھا۔ اس نے بی بی سے دعا کی درخواست کی کہ آج میری ٹیم جیت جائے۔ ساتھ میں نے بھی آپ سے کہا اس کو ہر دفعہ چوٹ لگ جاتی ہے اس کی مجھے فکر رہتی ہے۔ آپ نے میرے بیٹے کو مخاطب کرکے کہا جب بھی آپ گھر سے باہرجاؤ تو صدقہ نکال کر جایا کرو۔ بیٹے نے پوچھا: بی بی کتنا؟ آپ نے کہا جتنی توفیق ہو بے شک10 پینی ہی ہوں۔ یہ اپنی عادت بنالو اور خلیفۂ وقت کو دعائیہ خط لکھتے رہا کرو، خود بھی دعا کرکے میچ کھیلا کرو۔ اُس دن جب وہ گھر آیا تو سب سے پہلے بی بی کو بتایا کہ آج ہم میچ جیت گئے ہیں۔ الحمدللہ تب سے میرے چاروں بچے روزانہ صدقہ نکالتے ہیں۔
ایک دن بچے کارٹون دیکھ رہے تھے۔ آپ بھی ان کے پاس بیٹھ کر کارٹون دیکھنے لگیں۔ بچے خوش ہوکر جرمن زبان کا ترجمہ کرکے آپ کو بتاتے رہے۔ کافی دیرتک آپ بچوں کے ساتھ مختلف پروگرام دیکھتی رہیں تومیں نے بچوں سے کہا اب بی بی کو تنگ نہ کرو۔ کہا تم فکر نہ کروابھی ہم مل کر MTA دیکھیں گے۔ پھر جب MTA لگایا تو حضورؒ کی مجلس عرفان آرہی تھی۔ یہ بھی بچوں کے ساتھ دیکھی اور جہاں مشکل بات آتی تو آسان اردو میں معنی سمجھا دیتیں۔ پھر مجھے نصیحت کی کہ باقی پروگراموں کے ساتھ ساتھMTA بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا کرو اور ان سے ضرور کچھ نہ کچھ پروگرام کے بارے میں پوچھا کرو اس سے بچہ غور سے دیکھتا ہے۔ بچوں کو یہ بھی کہا کہ آپ ایک ڈائری بنائیں اور حضور انور کے خطبہ جمعہ میں سے جو سمجھ آتی ہے اتنا لکھیں۔
ایک دفعہ ہم آپ کے گھر ربوہ گئے تو آپ نے مجھے بہت خوبصورت چار دلائیاں دیں کہ یہ دو ریشمی تمہاری بیٹیوں کی شادی کا تحفہ ہے اور دو کاٹن کی تمہارے اور تمہارے میاں کا تحفہ ہے۔ بچیوں کا تحفہ دیکھ کر میں نے کہا بی بی ابھی تو یہ بہت چھوٹی ہیں۔ آپ نے کہا بچی جب چھوٹی ہوتی ہے تو اس کے لیے تحفے جمع کرنے شروع کرنے چاہئیں۔ جب کوئی نئی چیز آئے تو پرانی نکال کر نئی رکھ دو۔
ایک دن مَیں نے بی بی کا سوٹ استری کرکے رکھا ہوا تھا اچانک باہر کوئی آیا تو اُسی سوٹ کا دوپٹہ سر پر لے کر باہرچلی گئی۔ واپس آکر دوپٹہ لیے ہوئے بیٹھ گئی تو آپ نے مسکراکر کہا یہ رنگ تم پر سج رہا ہے۔ میں نے کہا تو پھر یہ میرا ہوگیا؟ انہوں نے کہا ہاں یہ تمہارا ہوگیا۔ میں نے سوٹ کی طرف اشارہ کرکے کہا مَیں کچھ اَور بھی پہن لیتی۔ میری بات پر مسکراکر چپ ہوگئیں لیکن اگلے سال اپنے بیٹے سید قمر سلیمان صاحب کے ہاتھ اسی دوپٹے کے رنگ جیسا ایک سوٹ تحفۃً بھجوادیا۔
ایک دن میری بیٹی سے پوچھا کہ آپ نماز پڑھتی ہو؟ اس نے کہا جی۔ آپ نے کہا نماز میں سب سے پہلے حضور اقدس کے لیے دعا کیا کرو، پھر اپنے اچھے نصیب کے لیے دعا مانگا کرو۔ اپنی سمجھ کے مطابق میری بیٹی دعا مانگتی رہی۔ چند سال بعد ہم دوبارہ بی بی سے ملے۔تو باتوں کے دوران میری بیٹی نے پوچھا کہ بی بی! نصیب کا اب کیا حال ہے؟ مَیں تو اس کے لیے بہت دعا کرتی ہوں۔ یہ سنتے ہی آپ کھلکھلا کر ہنسیں۔ اس کو پیار کیا اور کہا کہ اب تک کی ساری دعائیں قبول ہوگئی ہیں۔ پھر مجھے نصیحت فرمائی کہ بیٹیوں کے لیے بہت دعا کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ ماں کو کبھی ان کا دکھ نہ دکھائے۔
ایک دن ہم جنگل میں سیر کے لیے گئے تو مَیں اور میرے بچے مچھروں اورکیڑوں سے ڈر رہے تھے۔ بی بی نے دیکھا تو کہا تم اس وقت یہ دعا پڑھو: وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ اور جب تم گرفت کرتے ہوتو زبردست بنتے ہوئے گرفت کرتے ہو۔ (الشعرآء:131)
حضورؒ نے جلسہ سالانہ کے اپنے خطاب میں سو مساجد کے منصوبے پر خوشی کا اظہار فرمایا۔ جب ہم واپس گھر آئے تو بی بی نے تین سو مارک دیا اورکہا میرا بھی اس بابرکت تحریک میں حصہ ڈال دیں۔ (اس وقت میرے میاں کلیم احمد صاحب اس تحریک کے اسسٹنٹ نیشنل سیکرٹری تھے۔)
ایک بار ہم باتیں کررہے تھے۔ ایمن تنگ کرنے لگی تو مَیں اس کومنع کرنے کے لیے اٹھنے لگی ۔بی بی نے کہاکہ جب بچہ لاڈ میں تنگ کرتا ہے تو اس وقت اس کو کچھ نہ کہو ورنہ دوسروں کے سامنے شرمندگی محسوس کر تا ہے اوراعتماد ختم ہوجاتاہے۔ مزیدبتایاکہ ہمیشہ بچوں پر اعتماد کرکے تربیت کرنا،ہمیشہ نیک بات کی نصیحت کرنا، ان کے کاموں پر نظر رکھنا ہر وقت کی روک ٹوک اور نکتہ چینی نہ ہو، کوئی بات ہوتو الگ سمجھانا زیادہ بہتر ہے۔ ہر وقت نہ کہو نہ سنو۔ مگر جب کہو تو ضرور وہ بات کرو ا کر چھوڑو تاکہ فرمانبرداری کی عادت پڑے۔
نظر ٹھیک رکھنے کے لیے آپ نے بتایا کہ سونف کو تھوڑا سا بھون کر اس میں مصری اور چاروں مغز ملاکر کھاؤ۔