اداریہ: عبادات میں ارفع مقام رکھنے والی نماز (نمبر1)

اداریہ ’’انصارالدین‘‘ مارچ و اپریل 2022ء

عبادات میں ارفع مقام رکھنے والی نماز

ایک بار ایک محترم بزرگ سے خاکسار نے پوچھا کہ صبح نماز تہجد کے وقت آنکھ کھلنے اور جاگنے کے باوجود بھی اگر سستی اور کسل کی وجہ سے اُٹھ کر نماز پڑھنے کی بجائے بستر میں ہی پڑے رہنے کو جی چاہے تو ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟
بہت ہی غورطلب جواب ملا کہ اُس وقت صرف یہ سوچ لو کہ خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے کتنی آرام دہ رات گزارنے کا موقع تمہیں عطا فرمایا ہے۔ یہی رات اپنی یا اپنے کسی قریبی عزیز کی بیماری کی وجہ سے یا کسی اَور ناگہانی آفت کی وجہ سے جاگ کر اور پریشانی میں بھی تو کٹ سکتی تھی۔ جب یہ سوچ آئے گی تو شکر کا ایسا احساس پیدا ہوگا جو آپ کو بستر سے اُٹھ کر اپنے ربّ کے حضور سجدہ ریز ہونے پر مجبور کردے گا۔
نماز تہجد کی اہمیت تو قرآن کریم کی سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 79 سے ظاہر ہے جس میں آنحضورﷺ کو قیام الّیل کرنے اور اس میں قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ چنانچہ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’… ہم یہ کہتے ہیں کہ جو خدا تعالےٰ کے حضور تضرع اور زاری کرتا ہے اور اس کے حدود و احکام کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے جلال سے ہیبت زدہ ہوکر اپنی اصلاح کرتا ہے وہ خدا کے فضل سے ضرور حصہ لےگا۔ اس لئے ہماری جماعت کو چاہیئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں۔ جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقع بہر حال مل جائے گا۔ اس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے کیونکہ وہ سچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں۔ جب تک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو۔ اس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار کب ہو سکتا ہے؟ پس اس وقت کا اٹھنا ہی ایک درد دل پیدا کر دیتا ہے جس سے دعا میں رقت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور یہی اضطراب اور اضطرار قبولیت دعا کا موجب ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر اٹھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درد اورسوز دل میں نہیں کیونکہ نیند تو غم کو دور کر دیتی ہے لیکن جبکہ نیند سے بیدار ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ کوئی درد اور غم نیند سے بھی بڑھ کر ہے جو بیدار کر رہا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 245، ایڈیشن 1984ء)

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

نیز فرمایا کہ: ’’اصل غرض انسان کی خلقت کی یہ ہے کہ وہ اپنے ربّ کو پہچانے اور اس کی فرمانبرداری کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن۔ مَیں نے جن اور انس کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں مگر افسوس کی بات ہے کہ اکثر لوگ جو دنیا میں آتے ہیں بالغ ہونے کے بعد بجائے اس کے کہ اپنے فرض کو سمجھیں اور اپنی زندگی کی غرض اور غایت کو مدنظر رکھیں وہ خداتعالیٰ کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور دنیا کا مال اور اس کی عزتوں کے ایسے دلدادہ ہوتے ہیں کہ خدا کا حصہ بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے دل میں تو ہوتا ہی نہیں۔ وہ دنیا ہی میں منہمک اور فنا ہو جاتے ہیں۔ انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ خدا بھی کوئی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 134جدید ایڈیشن)
پس قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کی معراج پنجوقتہ نماز کی ادائیگی ہے جبکہ نفلی نمازوں میں سے بہترین اور ارفع مقام رکھنے والی نماز تہجد ہے جو ایسے وقت پر ادا کی جاتی ہے جب رات کے پچھلے پہر خداتعالیٰ اپنے عاجز بندوں کی دعاؤں کو قبول فرمانے اور اُن کی خالی جھولیوں کو بھرنے کے لیے نچلے آسمان پر اُترتا ہے۔ پس نمازِ تہجد کا پڑھنا بڑی اہمیت و برکات کا موجب ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بحوالہ صحیح بخاری باب قیام رمضان): قیام الّیل کیا کرو۔ یہ تم سے پہلے صالحین کی روش ہے، یہ تمہارے ربّ کے قرب کا ذریعہ ہے، یہ تمہارے گناہوں کے معاف ہونے کا ذریعہ ہےاور یہ تمہارے گناہوں سے باز رہنے کا ذریعہ ہے۔
نماز تہجد کی اہمیت اور اس کی برکات کے حوالے سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’جس قدر ابرار، اخیار اور راست باز انسان دنیا میں ہوگزرے ہیں، جو رات کو اٹھ کر قیام اور سجدہ میں ہی صبح کر دیتے تھے کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ وہ جسمانی قوتیں بہت رکھتے تھے اور بڑے بڑے قوی ہیکل جوان اور تنومند پہلوان تھے؟ نہیں۔ یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ جسمانی قوت اور توانائی سے وہ کا م ہر گز نہیں ہو سکتے جو روحانی قوت اور طاقت کر سکتی ہے۔ بہت سے انسان آپ نے دیکھے ہوں گے جو تین یا چار بار دن میں کھاتے ہیں… اور نیند ان پر غلبہ رکھتی ہے یہاں تک نیند اور سستی سے بالکل مغلوب ہو جاتے ہیں کہ ان کو عشاء کی نماز بھی دو بھر اور مشکلِ عظیم معلوم دیتی ہے چہ جائیکہ وہ تہجدگزارہوں۔
دیکھو ! آنحضرت ﷺ کے صحابہ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کیا تنعّم پسند اور خورونوش کے دلدادہ تھے جو کفار پرغالب تھے ؟ نہیں یہ بات تو نہیں۔ پہلی کتابوں میں بھی ان کی نسبت آیا ہے کہ وہ قائم اللیل اور صائم الدہر ہوں گے۔ ان کی راتیں ذکر اور فکر میں گزرتی تھیں۔ اور ان کی زندگی کیونکر بسر ہوتی تھی؟ قرآن کریم کی یہ آیہ شریفہ ان کے طریق زندگی کا پورا نقشہ کھینچ کر دکھاتی ہے: وَمِن رِباطِ الخَیلِ تُرھبُونَ بہ عَدُوّ اللّٰہ وَعَدُوَّکُم۔ (الانفال:61) اور یٰاَیُّھَا الَّذِینَ آمنُوا اصْبِروا وَصَابِرُوا وَرابِطُوا۔ (آل عمران:201) اور سرحد پر اپنے گھوڑے باندھے رکھو کہ خدا کے دشمن اور تمہارے دشمن اس تمہاری تیاری اور استعداد سے ڈرتے رہیں۔ اے مومنو! صبر اور مصابرت اور مرابطت کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 34-35)
اگرچہ آجکل الارم والی گھڑیاں دستیاب ہیں جن کے ذریعہ انسان کی آنکھ اُس کے اپنے ارادے کے مطابق بآسانی کھل سکتی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جاگنے کے بعد اُس وقت پیاری نیند کو قربان کرنا اور آرام دہ بستر کو چھوڑنا ایک مشکل امر ہے۔ اس لیے کوئی ایسا طریق ہونا چاہیے جس کی بدولت انسان نماز تہجد کے لیے آسانی سے اُٹھ سکے۔ اہل عرفان نے اس کے لیے دو کامیاب نسخے بیان کیے ہیں: پہلا خداتعالیٰ کی محبت کا اپنے دل میں پیدا کرنا ہے جس کی بِنا پر انسان بے اختیار ہو کر اُٹھ بیٹھے گا اور اسے پورے شوق ومحبت سے نماز تہجد کی ادائیگی کی توفیق ملے گی۔ دوسرے دین کی نازک حالت اور ترقیٔ اسلام کا خیال اور دشمنوں کے بدارادوں اور مذہبی آزادی پر قدغنوں کا احساس بھی انسان کی نیند کو کم کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں نمازِ تہجد کے لیے جاگنے، اللہ کے حضور اپنی بےبسی اور لاچارگی پیش کرتے ہوئے عاجزانہ دعاؤں کی توفیق ملتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ ہم محبت الٰہی کے احساس کو بیدار کریں اور اسے پالیں تب جا کر نماز تہجد کے لیے آسانی سے اُٹھ سکیں گے۔


حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جاگنے کے روحانی ذرائع کو زیادہ اہمیت دی ہے اور فرمایا ہے کہ ان کے ذریعہ انسان یقینی طور پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے جاگنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ چنانچہ آپؓ نے نمازتہجد کے لیے اُٹھنے کے جو تیرہ طریقے بیان فرمائے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے:
1۔ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد کچھ عرصہ ذکر کرے۔ جتنا عرصہ وہ ذکر کرے گا ،صبح سے اتنا ہی قبل اس کی آنکھ ذکر کرنے کے لیے کھل جائے گی۔
2۔ عشاء کی نماز پڑھ لینے کے بعد کسی سے کلام نہ کرے اور جلد سو جائے۔
3۔ عشاء کی نماز کے بعد تازہ وضو کر کے چارپائی پر لیٹے تو اس کا اثر قلب پر پڑتا ہے اور اس سے خاص قسم کی نشاط پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح وہ آنکھ کھلتے وقت بھی نشاط میں ہی ہوگا۔
4۔ ذکر الٰہی اور دعائیں کرتے کرتے سوئے۔
5۔ سونے کے وقت کامل ارادہ کر لیا جائے کہ تہجد کے لیے ضرور اٹھوں گا۔
6۔ وتروں کو عشاء کی نماز کے ساتھ نہ پڑھے بلکہ تہجد کے وقت کے لیے رہنے دے۔
7۔ عشاء کی نماز کے بعد نفل پڑھنے شروع کر دیں اور اتنی دیر تک پڑھیں کہ نماز میں ہی نیند آ جائے اور اتنی نیند آئے کہ برداشت نہ کی جا سکے۔ اس وقت سوئیں۔
8۔ جن دنوں زیادہ نیند آئے او ر وقت پر آنکھ نہ کھلے ان میں نرم بستر ہٹا دیا جائے۔
9۔ سونے کے وقت معدہ پُر نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کا اثر قلب پر بہت پڑتا ہے اور انسان کوسست کر دیتا ہے۔
10۔ جُنبی ہونے کی حالت میں یا غلاظت کے ساتھ نہ سوئے۔ صفائی کی حالت میں سونے والے کو ملائکہ آ کر جگا دیتے ہیں۔
11۔ بستر پاک و صاف ہو۔
12۔ میاں بیوی رات ایک بستر پر نہ سوئیں۔
13۔ سونے سے قبل سوچ لیں کہ ہمارے دل میں کسی کے متعلق کینہ یا بغض تو نہیں۔ اگر ہو تو اس کو دل سے نکال دینا چاہیے۔
(ماخوذ از ذکرِ الٰہی ۔انوار العلوم جلد 3صفحہ:516,512)
حضرت مصلح موعودؓ کی بیان فرمودہ مذکورہ بالا ہدایات پر عمل کرنے والے جانتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے کچھ ہی دنوں میں اُنہیں تہجد کا عادی بنادیا اور پھر اس نماز کی برکات کا وہ خود مشاہدہ کرنے لگ گئے۔
اگر ہم حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی دن بھر کی مصروفیات اور پھر نماز تہجد میں آپؐ کے شغف پر نظر دوڑائیں تو دل ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ رات کی اس عبادت کے لیے آپؐ کس قدر محبت سے اہتمام فرماتے اور اپنے پیارے صحابہؓ کو بھی اس حوالے سے توجہ دلاتے رہتے۔ چنانچہ صحابہ بھی اپنے آقاؐ کی اس نصیحت کو ہر حالت میں اپنے پیش نظر رکھتے اور سفروحضر میں نماز تہجد کی ادائیگی اپنی زندگیوں کا معمول بنالیتے۔ بہت سے صحابہؓ کو اپنے آقا کی اقتدا میں بھی اس نماز کی ادائیگی کا شرف حاصل ہوا اور ایسی روح پرور روایات کو بعدازاں انہوں نے بیان فرمایا۔ چنانچہ حضرت عوف بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مَیں نے نبی کریمﷺ کے ساتھ (تہجد کی) نماز پڑھی۔ آپؐ نے ابتدا یوں کی کہ پہلے مسواک کی، پھر وضو فرمایا، پھر نماز شروع کی۔ آپؐ نے سورۃ البقرۃ کی تلاوت شروع کی اور جب بھی کوئی ایسی آیت آتی جس میں رحمت کا بیان ہوتا تو آپ رُک جاتے اور اس رحمت کے حصول کے لیے دعا کرتے اور جب بھی کوئی ایسی آیت آتی جس میں عذاب کا ذکر ہوتا تو بھی آپ رُک جاتے اور عذاب سے پناہ کی دعا کرتے۔ پھر آپؐ رکوع میں گئے اور اپنے قیام کے برابر رکوع کی حالت میں رہے۔ آپؐ رکوع میں یہ کہہ رہے تھے: سُبْحَانَ ذِیْ الْجَبْرُوتِ وَالْمَلَکُوتِ وَالْکِبْرِیَآء وَالعَظَمَۃِ۔ (یعنی پاک ہے وہ ذات جو جبروت اور ملکوت والی ہے اور بڑائی اور عظمت والی ہے۔) پھر آپؐ نے رکوع کے برابر سجدہ کیا۔ آپؐ اپنے سجدوں میں بھی کہہ رہے تھے: سُبْحَانَ ذِیْ الْجَبْرُوتِ وَالْمَلَکُوتِ وَالْکِبْرِیَآء وَالعَظَمَۃِ۔ پھر (دوسری رکعت میں) آپؐ نے سورۃ آل عمران پڑھی۔ پھر اس کے بعد (ہر رکعت میں) ہر بار مختلف سورت پڑھتے رہے۔ (سنن النسائی۔ کتاب التطبیق)
نماز تہجد کب پڑھی جاسکتی ہے؟ اس بارے میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ایک روایت یوں بیان فرمائی ہے کہ :
’’نماز تہجد کے واسطے آپؑ بہت پابندی سے اٹھا کرتے تھے۔فرمایا کرتے تھے کہ تہجد کے معنے ہیں، سو کر اٹھنا، جب ایک دفعہ آدمی سو جائے اور پھر نماز کے واسطے اٹھے تو وہی اس کا وقت تہجد ہے۔عموماً آپ تہجد کے بعد سوتے نہ تھے۔ صبح کی نماز تک برابر جاگتے رہتے……۔‘‘ (الفضل قادیان 3 جنوری 1931ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنے ایک مضمون میں فرمایا تھا کہ ہر سال رمضان المبارک میں ہمیں اپنی کوئی ایک کمزوری ترک کرنے اور کوئی ایک نئی نیکی کی راہ کو اختیار کرنے کا ارادہ کرنا چاہیے اور اس کے لیے کوشش اور دعا کرکے ان دونوں عادات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنالینا چاہئے۔ پس کیا ہی اچھا ہو کہ ہم میں سے ہر وہ احمدی جو نماز تہجد جیسی مجاہدانہ عبادت کے بجالانے میں سست ہے، وہ اس کی ادائیگی کا اس رمضان المبارک میں خود کو ایسا عادی بنالیں کہ پھر نیکی کی یہ عادت ہر احمدی کی زندگی کا دائمی حصہ بن جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو محض اپنے فضل سے مقبول عبادات بجالانے کی توفیق دے اور خصوصیت سے نماز تہجد کا عادی بنادے تاکہ ہم رات کی خلوت میں اپنے محبوب خدا کے حضور اس کی مدد اور فضل کے حصول کی دعائیں مانگیں اور ان دعاؤں کی قبولیت کا مشاہدہ کریں۔ آمین

(محمود احمد ملک)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں