حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ

مجلس انصاراللہ برطانیہ کے دو ماہی رسالہ ’’انصارالدین‘‘ مارچ، اپریل 2006ء میں مکرم سردار احمد صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ کی سیرۃ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اسی موضوع پر ایک مضمون 30؍جنوری 1998ء کے شمارہ میں اسی کالم کی زینت بھی بن چکا ہے۔
حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ 1862ء میں کلر سیداں تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ پانچ چھ سال کی عمر میں ہی شفقتِ پدری سے محروم ہو گئے تو آپ کے خاندان کے ایک کرم فرما دوست آپ کو لاہور لے آئے اور آپ کی تعلیم کا انتظام کردیا۔ بچپن سے ہی آپ ذہین، جفاکش اور محنتی تھے۔ ڈاکٹری کا امتحان پاس کرکے بطور اسسٹنٹ سرجن رعیہ خدمتِ خلق میں ایسے مصروف ہوئے کہ تیس سال کا لمبا عرصہ (1890ء سے 1920ء) تک یہیں گزار دیا۔ آپ نے اپنے خلوص اور ایثار سے عوام و خواص کا دل موہ لیا اور جلد ہی علاقہ میں پیشہ وارانہ صلاحیتوںاور اخلاقِ کریمانہ کے باعث نہایت عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھے جانے لگے۔
آپؓ کے والد ماجد کا اسمِ گرامی سید باغ حسن تھا۔ صوفی منش اور خاندانِ سادات کی روائتی پارسائی و پاکبازی کا دامن سنبھالے ہوئے تھے۔ اپنے قریبی اعزا و اقرباء کو دنیا داری میں ملوث دیکھ کر کلر سیداں کو خیر باد کہا اور سہالہ میں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ سلطنتِ مغلیہ کی طرف سے کچھ علاقہ پر گزر اوقات کے لئے حقوقِ مالکانہ حاصل تھے۔ آپ طبابت بھی کرتے تھے۔ ذرائع معاش اطمینان بخش تھے۔ پیری و مریدی سے آپ کو طبعی نفرت تھی اور اسے ذریعہ معاش بنانا پسند نہ کرتے تھے۔ رنجیت سنگھ کے دورِ حکومت میں کلرسیداں کے سادات نے سکھ حکومت سے موالات کرلی تھی۔ جس کے نتیجہ میں انہیں اسلامی اقدار کی ادائیگی کی حسبِ منشاء ضمانت مل گئی تھی۔ عہد وپیمان کے ایسے کھرے نکلے کہ سکھا شاہی کے زوال کے واضح آثار دیکھتے ہوئے بھی قرآنی حکم

ان العھد کان عنداﷲ مسٔولا

پر عمل کرتے ہوئے اپنے عہد کو نبھایا اور فرنگیوں کے مقابل سکھ حکومت کا ساتھ دیا۔ حقوقِ مالکانہ سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ عرصہ تک فرنگی حکومت کے عتاب کا نشانہ بنے رہے۔
حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب ؓکو قرآن کریم سے بہت محبت تھی۔ صبح کی نماز اداکرنے کے بعد دیر تک قرآن مجید کی تلاوت کرنا معمول تھا۔ جب بینائی میں کمی ہوئی تو اپنے بچوں سے قرآ ن مجید سنا کرتے تھے۔ آپ کے پانچ صاحبزادوں میں سے تین حافظ قرآن مجید تھے اورتینوں دنیاوی اعلیٰ تعلیم سے بھی آراستہ تھے اور معزز سرکاری عہدوں پرفائز بھی تھے۔ آپؓ کی شادی محتر مہ سیدۃ النساء سے ہوئی جن کے مورثِ اعلیٰ حضرت سید بدرالدین بھکری ؒتھے جن کا مزار اوچ شریف میں آج بھی مرجع خاص وعام ہے۔
آپؓ کے چہرہ پرآپ کی خاندانی شرافت ونجابت کے گہرے نقوش ہردیکھنے والے پر اثرانداز ہوتے تھے۔ ہمیشہ سفید شلوار و قمیص زیب تن کرتے اور سفید عمامہ پہنتے۔ نہایت منکسرالمزاج، یتیموں اور بے سہارا احباب کے سرپرست اور مخلص دوست تھے۔
آپؓ جوان ہوئے تو عام مسلمانوں کو مسیح و مہدی کا منتظر پایا۔ آپ کی مجالس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ اورقیام جماعت کاذکر بھی ہوتا تھا۔ مگرمنفی انداز میں مخالفین کے اعتراضات بھی ہوتے تھے۔ حضرت شاہ صاحبؓ تلاش حق کے لئے ایک حساس دل رکھتے تھے۔ آپ سوچتے تھے کہ علاماتِ ظہورِ مسیح ظاہر ہورہی ہیں۔ کسوف خسوف ہوچکا ہے اور میدان میں صرف ایک شخص ہے اور یہ دعویدار میرے گھر سے دُور بھی نہیں۔ چنانچہ ایک دن اچانک اہل خانہ اور احباب کو اطلاع دیئے بغیر آپ قادیان پہنچ گئے۔ حالات کا مطالعہ کیا اور حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔ یہ 1901ء کا ذکر ہے۔ حضرت اقدسؑ نے قادیان میں زیادہ دیر قیام کرنے کی تلقین فرمائی تو عرض کی حضور دل تو اب یہی چاہتا ہے کہ قادیان ہی میں قیام کیا جائے مگر سلسلۂ حصول رزق و ملازمت سدِراہ ہے۔ تاہم یہ نصیحت یاد رکھی اور ریٹائرڈ ہونے پر حکومت وقت کی طرف سے توسیع ملازمت کی درخواست قبول نہ کی اور قادیان میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ خدمت خلق کے لئے قادیان کے نور ہسپتال میں آنریری طور پر لمبا عرصہ خدمت سر انجام دیتے رہے۔
بیعت کے بعد قادیان سے واپس رعیہ آئے اور اپنی اہلیہ محترمہ کو تمام حالات سے آگاہ کیا۔ اُنہیں یہ فکر لاحق تھی کہ جس بزرگ کے ہاتھ پر ہم پہلے سے بیعت ہیں اس کا کیا ہوگا؟ ابھی کچھ فیصلہ نہ کر پائی تھیں کہ وہ شدید بیمار ہوگئیں کہ ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دیدیا۔ حضرت ڈاکٹر صاحبؓ نے حضورؑ کی خدمت میں ایک دعائیہ خط تحریر کیا اور دستی کسی کے ذریعہ بھجوادیا۔ اﷲ تعالیٰ نے اُنہیں معجزانہ شفا بخش دی چنانچہ وہ بھی کمال انکساری سے احمدیت میں شامل ہوگئیں۔
حضرت شاہ صاحبؓ رعیہ کی ایک مسجد میں ادائیگی نماز کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اس مسجد میں ایک سیماب صفت عرضی نویس محمد بخش بھی نماز کے لئے آیا کرتے تھے۔ ایک روز احمدیت کا ذکرخیر سن کر اُن سے نہ رہا گیا اور مٹی کا بنا ہوا لوٹا حضرت شاہ صاحبؓ کے ماتھے پر دے مارا۔ چہرہ مبارک لہو لہان ہوگیا۔ شاہ صاحبؓ کچھ کہے بغیر ہسپتال واپس آئے، مرہم پٹی کی، لباس تبدیل کیا اور ادائیگی نماز کے لئے پھر مسجد تشریف لے آئے۔ ادھر وہ عرضی نویس عوام کی ملامت کا ہدف تو تھا ہی، وہ خود بھی اپنے دل میں یہ سوچ کرسخت پریشان تھا کہ حضرت ڈاکٹر صاحبؓ سرکاری ملازم ہیں اگر انہوں نے عدالتی چارہ جوئی کی تو اس کا کیا حشر ہو گا، اس کے روز گار کا کیا بنے گا۔ حضرت شاہ صاحبؓ نے خاندانی شرافت و نجابت کا ثبوت دیتے ہوئے بھری مسجد میں احباب کے روبرو محمد بخش سے صرف اتنا کہا: ’’چوہدری صاحب اب تو آپ کا غصہ فرو ہو گیا ہو گا‘‘۔ حضرت شاہ صاحبؓ کا یہ صبروتحمل دیکھ کر یہ سنگدل موم کی طرح پگھل گیا اور آستانۂ احمدیت میں پناہ گزین ہونے کی التجا کرنے لگا۔ چوہدری محمد بخش صاحبؓ بعد میں نہ صرف مخلص احمدی بلکہ نہایت نڈر داعی الی اﷲ ثابت ہوئے اور درجنوں گم گشتہ راہ کے لئے ہدایت کا موجب بنے۔
حضرت شاہ صاحبؓ سرکاری ملازم تھے۔ سال میں ایک ماہ کی رخصت کے حقدار تھے۔ آپ رخصت جمع کر کے تین سال میں تین ماہ کی رخصت لیتے اور خاندان کے تمام افراد کو ساتھ لے کر تین ماہ قادیان میں گزارتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آپ کو اپنے مکان کے ایک حصہ میں ٹھہراتے تھے۔ آپ کے آرام و راحت کا ہر طرح خیال رکھتے۔
حضرت شاہ صاحبؓ کے آباؤاجداد بخارا سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے اور بر صغیر کے مختلف حصوں میں پھیل گئے اور بخاری سید کہلائے۔ آپ کے دل میں خاندانِ سادات کی روحانی حالت سدھارنے اور انہیں امام وقت کے غلاموں میں شامل کرنے کی تڑپ تھی۔ اپنی اولاد کو اس بارہ میں وصیت کرتے ہوئے آپؓ نے تحریر فرمایا: ’’آجکل خاندانِ سادات مغضوب، ذلیل اور تباہ ہو چکے ہیں اگر یہ متقی ہوتے تو پھر مؤرثِ اعلیٰ آنحضرتﷺ کی نعمت وراثت یعنی مہدویت اور مسیحیت کی وارث سلمان فارسیؓ کی اولاد کیسے بن جاتی۔ اب بھی وقت ہے کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچی متابعت سے اپنے اجداد کا نام روشن کریں …اپنی قوم سادات کی اصلاح و بہبودی کے لئے خاص کر درد ِدل سے دعائیں مانگو اور ان کو خوب دعوت الی اﷲ کرو … اب بھی اﷲ تعالیٰ اس قوم کو ہدایت دیوے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اتباع اور غلامی میں اپنے مؤرث اعلیٰ کی نعمت سے مستفیض ہو سکتے ہیں ورنہ یہ محرومی قیامت تک ان کے گلے کا ہار ہو کر رہ جائے گی۔ العیاذباﷲتعالٰی، اناﷲوانا الیہ راجعون ‘‘
حضرت شاہ صاحبؓ اور آپکی اہلیہ محترمہ جماعت کی مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔ دورِ خلافتِ اولیٰ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کی شاندار عمارت کی تعمیر میں حصہ لیا۔ مسجد نور اور نور ہسپتال کی تعمیر میں حصہ دار ہوئے۔ تعمیر منارۃالمسیح ، عید فنڈ اور قربانی فنڈ میں آپ حصہ دار ہوئے۔ آپؓ نظام وصیت میں شامل ہوئے تو اپنی آمد و جائیداد کے1/3 حصہ کی وصیت کی۔
1907 ء کے وسط میں حضرت شاہ صاحب ؓمع اہل وعیال دارالمسیح میں مقیم تھے کہ ایک دن آپ کی اہلیہ محترمہؓ نے بتایا کہ آج حضرت مسیح موعود ؑنے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ آپ کے ساتھ ہمارے تین تعلق ہیں ایک توآپ ہمارے مرید ہیں دوسرے آپ سادات کرام سے ہیں۔ تیسرا ہمارے ساتھ آپ کا ایک تعلق اَور بھی ہے۔ یہ کہہ کر حضور علیہ السلام خاموش ہوگئے۔ حضرت ڈاکٹر صاحب سنا تو فرمایا کہ کوئی روحانی تعلق ہوگا۔
14جون 1899 ء کو حضر ت مسیح موعود ؑکے گھر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش سے قبل حضورؑ کوایک مہمان کے آنے کی بشارت دی گئی تھی۔ صاحبزادہ صاحب نے اپنا بچپن نہایت صحت مندانہ حالت میں گزارا کہ اچانک وسط1907 ء میں آپؓ شدید بیمار ہوگئے۔ ایک صاحب نے خواب دیکھا کہ صاحبزادہ صاحب کی شادی ہورہی ہے۔ معبرین کے نزدیک اس خواب میں موت کی طرف اشارہ تھا مگر بعض حکماء نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ اگر خواب ظاہر ی حالت میں پوری کردی جائے تو تعبیر ٹل بھی جاتی ہے۔ حضرت شاہ صاحبؓ کی چھوٹی صاحبزادی مریم النساء اڑھائی سال کی تھیں اوردارالمسیح میں ہی مقیم تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض احباب کے اصرار پر خواب کو ظاہری صورت میں پورا کرنے کے لئے اپنے منشاء کا اظہار شاہ صاحب ؓکی اہلیہ محترمہؓ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ میں شاہ صاحب سے مشورہ کرلوں۔ حضرت شاہ صاحب تو پیکر صدق و صفا تھے، انہوں نے نہایت انکساری سے حضرت مسیح موعود کے منشاء کو منشائے الہٰی یقین کرتے ہوئے قبول کیا۔ چنانچہ 13؍اگست1907 ء کو حضر ت مولانا نورالدین ؓ نے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحبؓ کانکاح محترمہ مریم النساء صاحبہ سے پڑھایا۔ مگر صاحبزادہ صاحب 16؍اگست کو بقضائے الٰہٰی اپنے مولائے حقیقی سے جاملے۔
خاندان سادات میں خاندان سے باہر شادی کرنا عموماً معیوب خیا ل کیاجاتا تھا۔ حضرت شاہ صاحب ؓخود ڈاکٹر تھے، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کی علالت کی شدت کا اندازہ کرسکتے تھے۔ ایسے نازک وقت میں ننھی منھی بچی کے نکاح پر رضامندی کا اظہار آپؓ کے ایمان کا امتحا ن تھامگر قدرت اسے ایسے رنگ میں پورا کرنا چاہتی تھی جومشیت ِ الٰہی میں قدیم سے مقرر تھا۔ صاحبزادہ صاحب کی وفات کے بعد حضرت مسیح موعود ؑکی خواہش تھی کہ عزیزہ ہمارے ہی خاندان کا حصہ رہیں۔ وقت آنے پر وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے عقد میں آئیں۔ ایک طرف أبناء الفارس کا نمائندہ وجود اور دوسری جانب سے سید خاندان کی چشم و چراغ کو ایک عقد میں جمع کرکے ایسے وجود کو معرضِ وجود میں لانا قدرت کامقصود تھا جواللہ تعالیٰ کے پیارے مسیح کی جماعت کی ایسے آڑے وقت میں رہنمائی کرے جبکہ جماعت احمدیہ پر غزوہ احزاب کی طرح دشمن چاروں طرف سے ڈیرہ ڈالے حملہ کا منتظر تھا۔ اللہ تعالیٰ حضرت شاہ صاحبؓ کی دعائیں اُن کی اولاد کے حق میں قبول فرماتا چلا جائے۔

100% LikesVS
0% Dislikes

حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ” ایک تبصرہ

  1. مکرم و محترم جناب ایڈیٹر صاحب
    اسلام و علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
    مضمون حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ
    میں لوٹے والے واقعی کے سیاق و سباق میں کچھ غلطی ہے۔
    حضرت منشی چوہدری رحیم بخش صاحب رضی اللہ عنہ
    رعیہ خاص کے پاس گاؤں فتوکے کے بہت صاحب اثر معزز زمین دار تھے۔
    جب حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ نے اپکو تبلیغ کی تو اپنے انکو منع کیا لیکن شاہ صاحب نے اصرار کیا اور بار بار منع کرنے کے باوجود تبلیغ کی تب جوش میں آکر مٹی کا لوٹا جس سے وضو کیا جاتا ہے مار دیا۔ پھر معلوم ہو جسکو مارا وہ حکومت انگریزی کا ڈاکٹر ہے اور وہ چاہے تو اپکو دیوانہ قرار دے تمام جائیداد و زمین ضبط کروا سکتا ہے۔
    لہذا آپ بہت فکر مند ہوئے۔ لیکن جب ڈاکٹر صاحب رضی اللہ عنہ بینڈیج کروا کر مسجد دوبارہ پہچے اور فرمایا چوہدری صاحب اگر آپکا غصہ ٹھنڈا ہوگیا ہو تو کچھ عرض کروں۔
    چوہدری صاحب نے جب یہ اخلاق دیکھنا تو فرمایا۔ آپ کون ہیں یہ مثال تو قرون اولی کے مسلمانوں میں ملتی ہے۔ پھر آپ نے تمام پیغام بغور سنا اور کتب مسیح موعود کا مطالعہ کیا اور بیعت کا خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا۔ ملفوظات میں چوہدری صاحب کے سوالات موجود ہیں۔ پھر چوہدری صاحب کے زریعے پورا گاؤں فتوکے احمدی ہو گیا۔
    چوہدری صاحب میری والدہ کے سگے پردادا تھے۔

Leave a Reply to سید فضل اللہ بسمل Cancel reply