خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بتاریخ 23؍مئی2003ء

نیک نمونہ سب سے بڑی تبلیغ ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ تمام انسانیت کو آنحضور ﷺکی حقیقی تعلیم کے جھنڈے تلے لے آئیں
شادی کے بعد لڑکیوں کوغربت کے یاحسب نسب کے طعنے دینا انتہائی ظلم کی بات ہے۔
(قرآن مجید، ا حادیث نبویہ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ا رشادات کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ کی صفت الخبیر کے تعلق میں مختلف پیش خبریوں کا ایمان ا فروزتذکرہ )

خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
۲۳؍مئی ۲۰۰۳ء مطابق ۲۳؍ہجرت۱۳۸۲ہجری شمسی بمقام مسجد فضل لندن(برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشھد أن محمداً عبدہ و رسولہ-
أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم-
الحمدللہ رب العٰلمین- الرحمٰن الرحیم- مٰلک یوم الدین- إیاک نعبد و إیاک نستعین-
اھدنا الصراط المستقیم- صراط الذین أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین-
الٓرٰ۔کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰـتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ (سورۃ ھود:۲)

اس کا ترجمہ ہے :

الٓرٰ۔ أَنَا اللہُ أَرَیٰ

میں اللہ ہوں- میں دیکھتا ہوں-(یہ) ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات مستحکم بنائی گئی ہیں (اور) پھر صاحب حکمت (اور) ہمیشہ خبر رکھنے والے کی طرف سے اچھی طرح کھول دی گئی ہیں-
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہٗ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’اس کتاب کی آیتیں اپنے اندر حکمت رکھتی ہیں- اور جو کچھ بھی اس میں بیان ہوا ہے وہ بدی سے روکنے والا اور نیکی کی طرف لے جانے والاہے۔ اور انسان کی پوشیدہ بدیوں سے اس کو آگاہ کر کے اس کی حقیقت سے اسے واقف کرتا ہے۔ اور اس کلا م میں کسی قسم کا کوئی نقص نہیں اور نہ کوئی ضرورت سے زائد بات ہے۔ غرض تمام ضروری تعلیم بغیر فضول و لغو کی بقدر حاجت بیان کی گئی ہے۔ اور ساتھ ہی پھر اس امر کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے کہ ہر ایک قسم کی ضروری تفصیل بھی آگئی ہے۔ اور فروعات کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ بلکہ بقدر ضرورت انہیں بھی بیان کیا گیا ہے۔
…… من لدن حکیم خبیر سے یہ بتایا ہے کہ اس کا منبع بھی اعلیٰ ہے۔ اس لئے اس کی تمام تفاصیل پر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ حکیم اسے کہتے ہیں جو موقع کے مطابق کام کرنے والا ہو۔ اس صفت سے یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس کلام کی بھیجنے والی ہستی کے یہ مد نظر نہیں ہے کہ وہ لوگوں میں شہرت یا عزت حاصل کرے بلکہ اس کے مد نظر بنی نوع انسان کا فائدہ ہو۔ پس اس نے کوئی ایسی تعلیم اس میں نہیں دی۔ جو بظاہر خوبصورت ہو لیکن بہ باطن خراب ہو۔ بلکہ اس نے ہر وہ تعلیم جو انسان کے فائدہ کی ہے پیش کر دی ہے۔ خواہ لوگ اس سے کس قدر ہی کیوں نہ بھاگیں اور برا نہ منائیں-
ظاہر میں اچھی اور باطن میں بری تعلیم کی مثال انجیل کی تعلیم ہے کہ اگر کوئی تیری ایک گال پر تھپڑ مارے تو توُ دوسری بھی پھیر دے۔ اور بظا ہر بُری اور حقیقت میں اچھی تعلیم کی مثال قرآن کریم کی یہ تعلیم ہے کہ جو اقوام جبراً مذہب میں دخل دیں- ان کا سختی سے مقابلہ کرنا چاہئے۔ جس تعلیم کی غرض لوگوں میں قبولیت حاصل کرنا ہوگی۔ وہ اول الذکر قسم کی تعلیموں پر انحصار کرے گی اور جس کی غرض اصلاح ہوگی۔ وہ لوگوں کی پسندیدگی یا عدم پسند یدگی کا خیال کئے بغیر جو مفید باتیں ہیں انہیں بیان کردے گی۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد ۳صفحہ۱۴۱۔۱۴۲)
اس بارہ میں مزید حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :-
’’خَبِیْر۔ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ حقیقتِ امر سے واقف ہے۔ خبیر کا لفظ اصل حال کی واقفیت پر دلالت کرتا ہے۔ اور بواطن امور کے جاننے کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے کہ اس صفت کا مالک اندرونی تغیرات پر خاموش نہیں رہ سکتا اور بد اعمالی کی سزا کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔‘‘
( تفسیر کبیر جلد۳ صفحہ۱۴۲)
حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں :

’’اَنَا اللہُ اَرٰی:

اللہ تعالیٰ جل شانہٗ فرماتا ہے بُتوں کے حامی جو کچھ نبی کریم ﷺ کی مخالفت کرتے رہتے ہیں- وہ مَیں دیکھ رہا ہوں (جس کے معنے یہ ہیں کہ ہمیں اِن کی شرارتوں کا علم ہے اس کے مطابق باز پُرس ہوگی۔ اس سورۃ میں دشمنانِ رسالت مآب کی شرارتوں کا بیان ہے……

مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ:

یہ کتاب حکیم کی طرف سے ہے۔ عام حکیم جو کچھ کہتے ہیں اس کے سامنے عوام کو چون و چرا کا یارا نہیں-
چہ جائیکہ ایک عظیم الشان حکیم کی طرف سے ہو اور حکیم بھی ایسا کہ جو ہر طرح سے باخبر ہو۔‘‘
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹دسمبر۱۹۰۹ء)
اللہ تعالیٰ نے ا س میں صرف یہی نہیں بتایا کہ جو کچھ ا س وقت ہو رہا ہے وہ مَیں دیکھ رہا ہوں بلکہ پہلوں کی بھی خبر دی جن کے انکار کی وجہ سے جو قومیں ہلاک کردی گئیں اور آئندہ زمانہ میں جوکچھ ہونے والاہے جوکچھ مسلمان کہلانے والے آنے والے شاہد کے ساتھ سلوک کریں گے اس سے بھی باخبر ہے۔چنانچہ اسی لئے حضورﷺ نے فرمایا (جو آیت مَیں نے پڑھی تھی سورہ ھود کی ہے) آنحضور ﷺنے فرمایا کہ سورۃ ھود نے مجھے بوڑھا کردیاہے- آپ سے پہلے کے انبیاء کے انکار کرنے والوں کی ہلاکت کاتو غم آ پ کو تھاہی، اپنی امت کا بھی غم تھا کیونکہ امت کی ذمہ داری بھی آپﷺپر ڈالی گئی تھی۔ اس بارہ میں حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ آج یہی ذمہ داری آ پ کے جانشینوں اور آ پ کے ماننے والوں پرہے۔ کیفیت اور کمیت دونوں لحاظ سے یہ ذمہ داری اس قدر ہے کہ پڑھ کر دل کانپ جاتاہے۔
پھر حضرت مصلح موعود ؓ اس کی مزید تفصیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ھود اور اس جیسی سورتوں نے قبل از وقت بوڑھا کردیا ہے کیونکہ آپ دیکھتے تھے کہ آپ کے ساتھ توبہ کرنے والے لوگ آپ کے زمانہ تک ہی محدود نہ تھے بلکہ آپ کے بعد قیامت تک آنے والے تھے۔ ان لوگوں کی تربیت کی ذمہ د اری آپ ؐ کس طرح اٹھا سکتے تھے۔ یہ خیال تھا جس نے آپ پر اثر کیا اور آپ کو بوڑھا کردیا۔ مگر آپ کا یہ تقویٰ اللہ تعالیٰ کو ایسا پسند آیا کہ اس نے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا اور وعدہ کرلیا کہ مَیں ہمیشہ تیری امت میں سے ایسے لوگ مبعوث کرتا رہوں گا جو تیرے نقش قدم پر چل کر میرا قرب حاصل کریں گے اور تیری طرف سے اس امت کی اصلاح کریں گے۔
پھر آپ ؓفرماتے ہیں :
’’رسول کریم ﷺکے عمل کے مقابلہ میں اب ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہم نے کیا کیا ہے۔ ہمارا بھی رسول کریم ﷺ کی طرح یہ فرض رکھا گیاہے کہ اپنے نفس کی اصلاح کے ساتھ دوسرے مومنوں کی اصلاح کی بھی فکر کریں-ایک ادنی غور سے یہ بات معلوم ہو سکتی ہے کہ بغیر ایک کامل نظام کے اس حکم پر عمل نہیں ہو سکتا۔ ایک مومن اپنے پاس کے مومنوں کو تو نصیحت کر سکتاہے لیکن وہ سب دنیا کے مومنوں کوبغیر نظام کے کس طرح نصیحت کرسکتاہے۔ صرف مکمل نظام ہی نہیں ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے گھر بیٹھا سب مسلمانوں کی خبر رکھ سکتاہے کیونکہ جب وہ نظام کے قیام میں مدد دیتاہے خواہ روپیہ سے، وقت سے، قلم سے، زبان سے یا دماغ سے تو وہ اس نظام کا ایک حصہ ہو جاتاہے۔ اور اس نظام کے ذریعہ سے جہاں جہاں بھی کام ہوتاہے اس میں وہ شریک ہوتاہے۔ اس وقت احمدی جماعت ہی نظام کے ماتحت ہے اور دیکھ لو وہی تبلیغ اسلام دنیا کے مختلف ممالک میں کررہی ہے۔
فرماتے ہیں :ایک پنجاب کے گاؤں کا زمیندار یا ایک افغانستان کے ایک گوشہ میں بسنے والا افغان جو جغرافیہ سے محض نابلد ہے جب اپنی کمائی کاایک حصہ خزانہ ٔسلسلہ میں ادا کرتاہے تووہ نہ صرف اپنے ذاتی فرض کو ادا کرتاہے بلکہ اس طرح وہ یورپ،امریکہ،سماٹرا، جاوا، افریقہ وغیرہ مختلف براعظموں اور ملکوں میں تبلیغ اسلام کا جو کام ہو رہا ہے اس میں شریک ہو جاتاہے۔ اور اس حکم کی ذمہ داری سے ایک حد تک سبکدوش ہو جاتاہے۔ (تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ ۲۶۵)
پس آج ہمارا جو مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب جماعت ہے اور جو سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ کے محبت اور عشق کی دعویدار ہے اور ا س زمانہ میں مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر یہ ثابت کر دیاہے کہ ہم صرف دعویٰ ہی نہیں کررہے بلکہ حقیقت میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق آپ کے حکم کے مطابق ہم نے امام کوپہچانا اور مانا اور ہم اس جماعت میں داخل ہو گئے ہیں جس پرذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ڈالی ہے کہ وہ آئندہ بھی دنیا کی اصلاح کی کوشش کرتی رہے گی، ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ ہم اس عشق کو سچ کردکھائیں اور امت مسلمہ کو خصوصاً کہ وہ ہمارے محبوب ﷺ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اور تمام انسانیت کو عموماً آنحضور ﷺکی حقیقی تعلیم کے جھنڈے تلے لے آئیں- اور اس کے ساتھ سب سے بڑھ کر ہمیں خود بھی اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ اس طرف توجہ دینی ہوگی کیونکہ نیک نمونہ سب سے بڑی تبلیغ ہے۔ اللہ کرے ہمارا شمار ان خوش قسمت لوگوں میں ہو جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی فکر کو دیکھ کر یہ وعدہ کیاتھا کہ تیرے راستہ پر چل کر میرا قرب حاصل کرنے والے ہوں گے۔
اب کچھ اور آیات ہیں صفت خبیر کے متعلق وہ پیش کرتاہوں-

وَکَمْ اَہْلَکْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ بَعْدِ نُوْحٍ۔وَکَفٰی بِرَبِّکَ بِذُنُوْبِ عِبَادِہٖ خَبِیْرًا بَصِیْرًا (نبی اسرائیل :۱۸)۔

اور کتنے ہی زمانوں کے لوگ ہیں جنہیں ہم نے نوح کے بعد ہلاک کیا اور تیرا ربّ اپنے بندوں کے گناہوں کی خبر رکھنے (اور) اُن پر نظر رکھنے کے لحاظ سے بہت کافی ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہٗ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’اس قسم کی مثالیں تم کو شروع سے دنیا میں نظر آئیں گی، نوح سے لے کر اس وقت تک نبی آتے رہیں ہیں سب کے زمانہ میں اسی طرح ہوتا چلا آیا ہے۔

وَکَفٰی بِرَبِّکَ بِذُنُوْبِ عِبَادِہٖ خَبِیْرًا بَصِیْرًا

کہہ کر یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو خبیر و بصیر ہے بندوں کو غلط راستہ پر چلتے دیکھ کر کس طرح خاموش رہ سکتا ہے۔ یہ فقرہ بھی ان معنوں کو ردّ کرتا ہے جو اوپر کی آیت کے بعض نادانوں نے کئے ہیں (کہ خداتعالیٰ بڑے بڑے لوگوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ بدکار ہوجاؤ) کیونکہ اس میں بتایا ہے کہ معذب لوگ پہلے سے گناہ گار ہوتے ہیں یہ نہیں کہ خداتعالیٰ ان کو گنہگار بناتا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۴صفحہ ۳۱۷)
پھر ایک آیت ہے:

وَالَّذِیٓ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ ھُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ۔ اِنَّ اللہَ بِعِبَادِہٖ لَخَبِیْرٌ بَصِیْرٌ (سورۃ الفاطر:۳۲)

اور جو ہم نے تیری طرف کتاب میں سے وحی کیا ہے وہی حق ہے۔ اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس کے سامنے ہے۔ یقینا اللہ اپنے بندوں سے ہمیشہ باخبر رہنے والا (اور ان پر) گہری نظر رکھنے والا ہے۔
امام رازی ؔ

اِنَّ اللہَ بِعِبَادِہٖ لَخَبِیْرٌ بَصِیْرٌ

کے تحت فرماتے ہیں کہ اس ارشاد الٰہی کے دو پہلو ہیں :
نمبرایک:حقیقت یہ ہے کہ یہ بات برحق ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہے اور وَاللہُ خَبِیْرٌ کا مطلب ہے کہ وہ چھپی ہوئی باتوں کو جاننے والا ہے-اور بَصِیْرٌ کا مطلب یہ ہے کہ وہ ظاہری باتوں کو بھی جاننے والا ہے۔ پس اس کی وحی میں ظاہری طورپر بھی اور باطنی طورپر بھی کوئی باطل با ت نہیں ہے۔
نمبر ۲:

اِنَّ اللہَ بِعِبَادِہٖ لَخَبِیْرٌ بَصِیْرٌ

اس اعتراض کا جوا ب بھی ہو سکتاہے جو مشرکین مکہ کیا کرتے تھے کہ یہ قرآن کسی عظیم المرتبت شخص پر کیوں نازل نہیں ہوا؟
پس فرمایا

اِنَّ اللہَ بِعِبَادِہٖ لَخَبِیْرٌ بَصِیْرٌ

یعنی وہ ان کے باطن کو جانتاہے اور ان کے ظاہر پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔ پس اس نے محمد ﷺکوچنااوران کے علاوہ کسی اور کو نہ چنا۔ کیونکہ ان کے نزدیک وہی اس مقام کے لئے ان میں سے سب سے زیادہ اہل تھے۔
(تفسیر کبیر رازی)
پھر فرمایا:

وَلَوْبَسَطَ اللہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہٖ لَبَغَوْ فِی الْاَرْضِ وَلٰـکِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآء۔ اِنَّہٗ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرٌ بَصِیْرٌ (سورۃ الشوریٰ :۲۸)

اور اگر اللہ اپنے بندوں کے لئے رزق کشادہ کر دیتا تو وہ زمین میں ضرور باغیانہ روش اختیار کرتے لیکن وہ ایک اندازہ کے مطابق جو چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔ یقینا وہ اپنے بندوں سے ہمیشہ باخبر (اور ان پر) گہری نظر رکھنے والا ہے۔
اس آیت کے تعلق میں حضرت انسؓ آنحضرت ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے جو باتیں اپنے رب تبارک وتعالیٰ سے بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جس نے میرے کسی ولی کی اہانت کی اس نے گویا مجھے جنگ کے لئے للکارا اور مَیں اپنے اولیاء کی مدد کرنے میں سب سے سُرعت سے کام لینے والا ہوں- اور مجھے ان کے باعث اس طرح غصہ آتاہے جس طرح غضبناک شیر کو غصہ آتاہے۔ اور مَیں کسی کام کے کرنے میں کبھی متردّد نہیں ہوا البتہ ایک ایسے مومن کی روح قبض کرنے میں مجھے تردّد ہوتاہے جو موت کو ناپسند کرتاہے۔اگر چہ مَیں اس کی ناگواری کو ناپسند کرتاہوں مگر اس کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔ اور میرا کوئی مومن بندہ میرا مقرب نہیں ہوا مگر ان فرائض کی ادائیگی کی وجہ سے جو مَیں اس پر فرض کئے ہیں- اور میرا مومن بندہ نوافل کے ذریعہ مسلسل میرے قریب ہوتا جاتاہے یہاں تک کہ مَیں اس سے محبت کرنے لگ جاتاہوں- اور جب مَیں اس سے محبت کرنے لگ جاتاہوں تو مَیں اس کے کان،آنکھیں ،زبان اور ہاتھ اور اس کا مددگار ہوجاتاہوں- پس اگر وہ مجھ سے کچھ مانگتاہے تو مَیں اسے د ے دیتاہوں- اوراگر وہ مجھ سے کوئی دعا کرتاہے تو مَیں اس کی دعا قبول کرتاہوں- میرے کچھ بندے مجھ سے عبادت کا دروازہ پوچھتے ہیں اور مَیں جانتاہوں کہ اگر مَیں نے اس کو وہ دروازہ بتا دیا تو اس شخص میں عُجب آجائے گا جو اس کو بگاڑ دے گا۔ اور میرے کچھ مومن بندے ایسے ہیں کہ جن کو دولتمندی ہی راہ راست پر قائم رکھ سکتی ہے اوراگر مَیں ان کو غریب کر دوں تو غربت ان کو بگاڑ دے گی اور میرے مومن بندوں میں سے بعض ایسے ہیں جن کو غربت ہی درست حال پر قائم رکھتی ہے اور اگر مَیں انہیں غنی کردوں تو امیر ہونا اس کو فساد میں مبتلا کردے گا۔ اور مَیں اپنے بندوں کے بارہ میں ان کے دلوں کے حال کو جانتاہوئے تدبیر کرتاہوں-پس مَیں علیم و خبیر ہوں-
اس کے بعد حضر ت انسؓ نے ان الفاظ میں دعا کی ہے:

’اَللّٰھُمَّ اِنِّی مِنْ عِبَادِکَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُصْلِحُھُمْ اِلَّا الْغِنٰی فَلَا تُفْقِرْنِیْ بِرَحْمَتِکَ‘۔

اے اللہ !مَیں تیرے ان مومن بندوں میں سے ہوں جن کو صرف غناء ہی رات آتاہے۔ پس توُ اپنی رحمت سے مجھے مفلس نہ رہنے دینا۔ (تفسیر قرطبی)
پھر فرمایا:

یٰـاَیُّھَاالنَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰـکُمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (سورۃ الحجرات:۱۴)

اے لوگو! یقینا ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے۔ یقینا اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) ہمیشہ باخبر ہے۔
علامہ فخرالدین رازیؔاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ظاہر کوجانتاہے، تمہارے نسب کوجانتاہے، تمہارے باطن سے باخبرہے ،اس پر تمہارے بھید مخفی نہیں ہیں- پس تم تقویٰ کو اپنا عمل بناؤ اور تقویٰ میں بڑھتے چلے جاؤ جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بڑھایاہے (تفسیر کبیر رازیؔ)
حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں :
’’تم میں سے معزز اور زیادہ مکرم وہ ہے جو زیادہ ترمتقی ہے۔ جس قدر نیکیاں اور اعمال صالح کسی میں زیادہ ہوتے ہیں وہی زیادہ معزز ومکرم ہے۔ کیا بے جا شیخی اور انانیت نہیں ہو رہی؟ پھر بتلاؤ۔ اس نعمت کی قدر کی تو کیا کی؟یہ اخوت اور برادری کا واجب الاحترام مسئلہ اسلام کی دیکھا دیکھی اب اور قوموں نے بھی لے لیا۔ پہلے ہندو وغیرہ قومیں کسی دوسرے مذہب و ملت کے پیرو کو اپنے مذہب میں ملانا عیب سمجھتے تھے اور پرہیز کرتے تھے۔ مگر اب شدھ کرتے اورملاتے ہیں- گو کامل اخوت اور سچے طور پر نہیں- مگر رسول اللہ ﷺ کی طرف غور کرو کہ حضورؐ نے اپنی عملی زندگی سے کیا ثبوت دیا کہ زید جیسے کے نکاح میں شریف بیبیاں آئیں- اسلام، مقدس اسلام نے قوموں کی تمیز کو اُٹھا دیا جیسے وہ دنیا میں توحید کو زندہ اور قائم کرنا چاہتا تھا اور چاہتا ہے اسی طرح ہر بات میں اس سے وحدت کی روح پھونکی اور تقویٰ پر ہی امتیاز رکھا۔ قومی تفریق پر جو نفرت اور حقارت پیدا کرکے شفقت علیٰ خلق اللہ کے اصول کی دشمن ہو سکتی تھی اُسے دور کر دیا۔ ہمیشہ کا منکر جب اسلام لاوے تو شیخ کہلاوے۔ یہ سعادت کا تمغہ یہ سعادت کا نشان جو اسلام نے قائم کیا تھا صرف تقویٰ تھا۔(الحکم ۵مئی ۱۸۹۹ء صفحہ ۴)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :’’ مکرم و معظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا۔ خدا کخ نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے۔-

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللہِ اَتْقٰـکُمْ۔ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ

یہ جو مختلف ذاتیں ہیں یہ کوئی وجہ شرافت نہیں- خدا تعالیٰ نے محض عرف کے لئے ذاتیں بنائیں اور آج کل تو صرف بعد چارپشتوں کے حقیقی پتہ لگانا ہی مشکل ہے۔ متقی کی شان نہیں کہ ذاتوں کے جھگڑے میں پڑے۔ جب اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کردیا کہ میرے نزدیک ذات کوئی سند نہیں-حقیقی مکرمت اور عظمت کا باعث فقط تقویٰ ہے‘‘۔(رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۷۹۸ء صفحہ ۵۰)
پھر فرماتے ہیں :’’دینی غریب بھائیوں کو کبھی حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو۔ مال ودولت یا نسلی بزرگی پر بے جا فخر کرکے دوسروں کو ذلیل اور حقیر نہ سمجھو۔ خدا کے نزدیک مکرم وہی ہے جو متقی ہے۔ چنانچہ فرمایا

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللہِ اَتْقٰـکُمْ

لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے گو کہ جماعت میں بہت بڑا حصہ ایسا ہے جو اس بات پر قائم ہے لیکن پھر بھی وقتا ً فوقتاً ایسی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں-ہمیں اب اس تعلیم کو بڑی اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔اب بھی ایسے خطوط آتے رہتے ہیں جن میں یہ ذکر ہوتاہے کہ ہمیں یاہمارے عزیز وں کی لڑکیوں کی طرف سے شادیوں کے بعد غربت کے طعنے دئے جاتے ہیں یا حسب نسب کے طعنے دئے جاتے ہیں- یہ باتیں تو ایسی ہیں جوشادی کرنے والے کوپہلے سوچ لینی چاہئیں-پہلے حسب نسب یا غربت و امارت کا پتہ یاعلم نہیں تھا۔ انتہائی ظلم کی بات ہے یہ۔ پہلے بھی کسی نے آپ کو مجبور نہیں کیا ہوتا کہ ضرور فلاں جگہ شادی کرنی ہے۔ اپنی مرضی سے،اپنے شوق سے کرتے ہیں تو پھر اس کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ اس قسم کے طعنے یا اس قسم کی باتیں کی جائیں- کچھ خدا کا خوف ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سب کوتقویٰ پر قائم کرے۔
قرآ ن کریم کی بعض اور بیان فرمودہ پیشگوئیاں ہیں ، پیش خبریاں ہیں- فرمایا:

وَاِذَالْعِشَارُ عُطِّلَتْ

اور جب دس ماہ کی گابھن اونٹنیاں بغیرکسی نگرانی کے چھوڑ دی جائیں گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ تکویر کی اس آیت کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں :
’’قرآن اور حدیث دونوں بتلارہے ہیں کہ مسیح کے زمانہ میں اونٹ بیکار ہوجائیں گے یعنی ان کے قائم مقام کوئی سواری پیدا ہوجائے گی۔ یہ حدیث مسلم میں موجود ہے۔ اور اس کے الفاظ یہ ہے:

’’وَلَیُتْرَکَنَّ الْقلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا‘‘

اور قرآن کے الفاظ یہ ہیں

وَاِذَاالْعِشَارُ عُطِّلَتْ-

شیعوں کی کتابوں میں بھی یہ حدیث موجود ہے مگر کیا کسی نے اس نشان کی کچھ پرواہ کی۔ ابھی عنقریب ہی اس پیشگوئی کا دلکش نظارہ مکہ ّ اور مدینہ کے درمیان نمایاں ہونے والاہے جبکہ اونٹوں کی ایک لمبی قطار کی جگہ ریل کی گاڑیاں نظر آئیں گی۔ اور تیرہ سو برس کی سواریوں میں انقلاب ہو کر ایک نئی سواری پیدا ہوجائے گی۔ اس وقت ان مسافروں کے سر پر جب یہ آیت

وَاِذَالْعِشَارُ عُطِّلَتْ

اور یہ حدیث

’’وَلَیُتْرَکَنَّ الْقلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا‘‘

پڑھی جائے گی تو کیسے انشراح صدر سے ان کو ماننا پڑے گاکہ یہ درحقیقت آج کے دن کے لئے ایک نشان تھا اور ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی جو ہمارے نبی کریم ؐ کے مبارک لبوں سے نکلی اور آج پوری ہوئی‘‘۔
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۴۰۶)
یہ بھی اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کے لئے پیش کی گئی ہے۔
حضر ت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’مَیں وہ شخص ہوں جس کے زمانہ میں اس ملک میں ریل جاری ہو کر اونٹ بیکار کئے گئے اور عنقریب وہ وقت آتاہے بلکہ بہت نزدیک ہے جبکہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل جاری ہوکر اونٹ بیکار ہوجائیں گے جو تیرہ سو برس سے یہ سفر مبارک کرتے تھے۔ تب اس وقت ان اونٹوں کی نسبت وہ حدیث جو صحیح مسلم میں موجود ہے صادق آئے گی یعنی یہ کہ

’’َلَیُتْرَکَنَّ الْقلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا‘‘

یعنی مسیح کے وقت میں اونٹ بیکار کئے جائیں گے اور کوئی ان پر سفر نہیں کرے گا‘‘۔
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۶)
پھر فرمایا :

وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (التکویر:۱۱)

اور جب صحیفے نشر کئے جائیں گے۔
حضر ت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:
’’ایسا ہی قرآن شریف میں آخری زمانہ کی نسبت اور بھی پیشگوئیاں ہیں-ان میں سے ایک یہ پیشگوئی بھی ہے

وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ

یعنی آخری زمانہ وہ ہوگا جبکہ کتابوں اور صحیفوں کی اشاعت بہت ہوگی گویا اس سے پہلے کبھی ایسی اشاعت نہیں ہوئی تھی۔ یہ ان کلوں کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ سے آج کل کتابیں چھپتی ہیں اور پھر ریل گاڑی کے ذریعہ سے ہزاروں کوسوں تک پہنچائی جاتی ہیں ‘‘۔(چشمہ ٔمعرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۲۲)
ویسے تو قدیم زمانہ سے درختوں کے پتوں ،ان کی چھالوں اور ہڈیوں اور پتھروں وغیرہ پر لکھنے کارواج رہاہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں رائج تھا۔تاہم باقاعدہ فن کتابت کا آغاز چین سے ہوا۔ پہلامطبوعہ نمونہ ۷۷۰ء کا ہے جو برٹش میوزیم میں موجود ہے وہ چین کا ہے۔
بہرحا ل اب یہ فن روز بروز ترقی پر ہے۔ اس کی نئی نئی شکلیں مثلاً کمپیوٹر اور کمپیوٹرائزڈ چھاپہ خانے،پھر آج کل ای میل وغیرہ مختلف چیزیں ہیں جو جاری ہیں جو اس الٰہی خبروں کی کہ

وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَت

کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں-
پھر فرمایا

وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْھَا وَزِیْنَۃً۔وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (النحل:۹)

اور گھوڑے اور خچر اور گدھے (پیدا کئے) تاکہ تم ان پر سواری کرو اور (وہ) بطور زینت (بھی) ہوں- نیز وہ (تمہارے لئے) وہ بھی پیدا کرے گا جسے تم نہیں جانتے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اس آیت کے حوالے سے سورۃ کے تعارفی نوٹ میں فرماتے ہیں :
’’ہر قسم کے جانوروں کی تخلیق کاذکر فرمانے کے بعد یہ عظیم الشان پیشگوئی فرمائی گئی ہے کہ اس قسم کی اور سواریاں بھی اللہ تعالیٰ پیدا فرمائے گا اور جن کا تمہیں اِس وقت کوئی علم نہیں-چنانچہ فی زمانہ ایجاد ہونے والی نئی نئی سواریوں کی پیشگوئی اس آیت میں فرما دی گئی ہے‘‘۔
اب مختلف النوع قسم کی سواریاں اور پھر ان کے مختلف النوع قسم کے فیولز(Fules) ہیں جن سے یہ چلتی ہیں- سولر انرجی(Solar Energy) سے چلنے والی سواریاں بھی ایجاد ہیں-
پھر ترقی یافتہ قوموں کے زوال کی خبر ہے۔

اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ۔ اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ۔ وَاَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ۔تَرْمِیْہِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفُ مَّاْکُوْلٍ (سورۃ الفیل :۲تا۶ )۔

کیا تُو نہیں جانتا کہ تیرے ربّ نے ہاتھی والوں سے کیا سلوک کیا؟ کیا اُس نے اُن کی تدبیر کو رائیگاں نہیں کردیا؟اور اُن پر غَول در غَول پرندے (نہیں ) بھیجے؟ وہ اُن پر کنکر ملی خشک مِٹّی کے ڈھیلوں سے پتھراؤ کر رہے تھے۔ پس اس نے اُنہیں کھائے ہوئے بُھوسے کی طرح کردیا۔
اس کی تفسیر میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’دنیاوی قوموں کی ترقی آخر اس نقطۂ عروج پر ختم ہوگی کہ وہ ساری عظیم طاقتیں اسلام کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہوچکی ہوں گی۔ قرآن کریم ماضی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اس سے پہلے بھی اُمُّ القریٰ یعنی مکہ کو بڑی بڑی ظاہری حشمت والی قوموں نے تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ اصحاب الفیل یعنی بڑے بڑے ہاتھیوں والے تھے لیکن پیشتر اس سے کہ وہ ان بڑے بڑے ہاتھیوں پر مکہ تک پہنچتے، ان پر ابابیل نے جو سمندری چٹانوں کی کھوہوں میں گھر بناتی ہیں ، ایسے کنکر برسائے جن میں چیچک کے جراثیم تھے اور ساری فوج میں وہ خوفناک بیماری پھیل گئی اور آناً فاناً وہ ایسی لاشوں کے ڈھیر ہوگئے جیسے کھایا ہوا بُھوسا ہو۔ ان کے جسموں کو مُردار خور پرندے پٹک پٹک کر زمین پر مارتے تھے۔ پس آئندہ بھی اگر کسی قوم نے طاقت کے بِرتے پر اسلام کی یا مکہ کی بے حرمتی کا اور تباہی کا ارادہ کیا تو وہ بھی اسی طرح تباہ کردی جائے گی۔
پھر شق قمر کی خبر ہے۔ فرمایا: اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ کہ ساعت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :-
’’آنحضرتﷺ مکہ میں ہی تھے کہ آپؐ کو الہام ہوا: اِقْتَرَبَتِ السَّاعۃُ وَانْشقّ القَمَرُ اسلام کی ترقی کا وقت آگیا ہے اور عرب کی حکومت تباہ کردی گئی۔ چاند عرب کا نشان تھا چنانچہ جب کوئی شخص خواب میں چاند دیکھے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اُسے عرب کی حکومت کے حالات بتائے گئے ہیں- پس چاند کے پھٹنے کے یہ معنے تھے کہ عرب کی حکومت تباہ ہوجائے گی۔ اُس وقت جب آپؐ کے صحابہؓ چاروں طرف دنیا میں جان بچائے دوڑے پھرتے تھے جب رسول اللہﷺ کا گلا گھونٹا جا تا اور آپؐ کی گردن میں پٹکے ڈالے جاتے تھے۔ جب خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے کی بھی آپؐ کو اجازت نہیں تھی اور جب سارا مکہ آپؐ کی مخالفت کی آوازوں سے گونج رہا تھا، اُس وقت محمد رسول اللہﷺ نے مکہ والوں کو یہ خبر دی کہ عرب کی حکومت کی تباہی کا خدا نے فیصلہ کردیا ہے اور اسلام کے غلبہ کا وقت آگیا ہے۔ پھر کس طرح چند سال کے بعد ہی یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ قیدار کی ساری حشمت توڑ دی گئی۔ اسلام کا جھنڈا بلند کردیا گیا۔ چاند پھٹ گیا۔ قیامت آگئی اور ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین بنادی گئی۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن۔ صفحہ ۲۸۳)
پھرآنحضرت ﷺکی چند احادیث ہیں جو مَیں پیش کرتاہوں- حضرت زیدؓ اور حضرت جعفر ؓ کی شہادت کی خبر۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (اللہ تعالیٰ سے علم پاکر) حضرت جعفر اور حضرت زید رضی اللہ عنہما کی وفات کی خبر اطلاع آنے سے پہلے اس حال میں دی کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
آنحضرت ﷺ کی اس خبرکے عین مطابق جس روز آپ ﷺنے صحابہ کو حضرت زید اور حضرت جعفر کی شہادت کی خبر دی۔ میدان موتہ میں دونوں صحابہ کی شہادت ہوچکی تھی جس کی تصدیق ان کی شہادت کی باقاعدہ خبر لانے والے فرد کے پیغام پہنچانے سے ہوگئی۔
پھر آپ ؐنے صحابہ کوان کی خوشحال کی خبر دی۔ حضرت جابر ؓروایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا:’’کیا تمہارے پاس قالین ہے؟ مَیں نے عرض کیا حضور!ہمارے پاس قالین کہاں !۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا عنقریب تمہارے پاس قالین بھی ہوں گے۔ پھر ہم پر و ہ زمانہ آیاکہ مَیں بیوی کو کہتاکہ میرے راہ سے اپنا قالین ہٹاؤ تو کہتی کیا نبیﷺ نے نہیں فرمایا تھاکہ عنقریب تمہارے پاس قالین ہوں گے۔ یہ جواب سن کر مَیں ان قالینوں کو بچھے رہنے دیتا۔ (بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام)
حضرت عبدالرحمن بن ابی میلٰیرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا کہ مَیں نے دیکھاکہ کالی بکریوں کا ریوڑ میری پیروی کررہاہے اور ان کے پیچھے خاکستری رنگ کی بکریوں کا ریوڑ ہے۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓنے کہا کہ یارسول اللہ ! یہ عرب آپ کی پیروی کریں گے اور پھر عجم ان کی پیروی کریں گے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ فرشتے نے بھی یہی تعبیر کی ہے
(مصنف ابن ابی شیبہ جلد ۶ صفحہ ۱۷۶)
پھر مسلمانوں اوردوسری اقوام کے حملہ آور ہونے کی خبر ہے۔
عبدالرحمن،بشر، ابن جابر،ابو عبدالسلام،ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قریب ہے کہ دوسری قومیں تم پر اس طرح حملہ آور ہوں گی جیسے کھانے والے کھانے کے کسی برتن پر آ ٹوٹتے ہیں- ایک شخص نے عرض کی کہ یہ ہماری تعداد کی کمی کی جہ سے ہوگا؟ فرمایا نہیں-تم اس زمانے میں تعداد میں بہت ہوگے لیکن تم ایسے ہوگے جیسے دریا کے پانی پر میل اورکوڑے کا جھاگ ہوتاہے۔ اللہ تمہارے رعب کو تمہارے دشمنوں کے دل سے نکال ڈالے گا۔ آپؐ نے فرمایا :دنیا کی محبت اور موت کا خوفٗ
(سنن ابی داؤد کتاب الملاجم باب فی تداعی الامم علی الاسلام)
یہ جو آج کل ہم دیکھ رہے ہیں-
آخر ی زمانہ میں تجارت کے بارہ میں پیشگوئی۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جب قرب قیامت کا زمانہ آئے گا تو خاص خاص لوگوں کوہی سلام کیاجائے گااورتجارت اس قدر پھیل جائے گی کہ عورت اپنے خاوند کی تجارت میں اس کی مدد کرے گی اور رحمی رشتے منقطع ہوجائیں گے۔(مسند احمد بن حنبل جلد ۱صفحہ۴۱۹ مطبوعہ بیروت)
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺکے پاس آیا اور کہا کہ اے محمدؐ! اگر جنت کا عرض آسمان اور زمین ہے توپھر دوزخ کہاں ہے؟۔ آپؐ نے فرمایاکہ تو نے نہیں دیکھا کہ جب رات آتی ہے تو دن کہاں چلا جاتاہے۔ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتاہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اسی طرح اللہ جو چاہتاہے کرتاہے۔(المستدرک علی الصحیحین جلد ۱ صفحہ۹۲)
اس زمانہ میں یہ سمجھنامشکل تھا لیکن اس میں جو مختلف سمتوں یا Dimentionکے وجود کی خبر دی گئی ہے آج کل انسان سمجھ سکتاہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آئندہ ہونے والی باتیں بیان فرمائیں ان کی چند مثالیں- آپ ؑ فرماتے ہیں :
’’میرے مخلص دوست نوردین کا ایک لڑکا فوت ہو گیا تھااور وہی ایک لڑکا تھا۔ اس کے فوت ہونے پر بعض نادان دشمنوں نے بہت خوشی ظاہر کی اس خیال سے کہ مولوی صاحب لاولد رہ گئے،تب مَیں نے ان کے لئے دعا کی اور دعا کے بعد خداتعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملی کہ دعا سے ایک لڑکا پیدا ہوگا اور اس بات کا نشان کہ وہ محض تمہاری دعا کے ذریعہ سے پیدا کیا گیا ہے۔ یہ بتایا گیا کہ اس کے بدن پر بہت سے پھوڑے نکل آئیں گے۔ چنانچہ وہ لڑکا پیدا ہواجس کا نام عبدالحئی رکھا گیا اور اس کے بدن پر غیرمعمولی پھوڑے بہت سے نکلے جن کے داغ اب تک موجود ہیں- اور یہ پھوڑوں کا نشا ن لڑکے کے پیدا ہونے سے پہلے بذریعہ اشتہار شائع کیا گیاتھا۔
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۳۰)
سعداللہ لدھیانوی کی موت کی خبر دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’منجملہ اُن نشانوں کے سعداللہ لدھیانوی کی موت ہے جو پیشگوئی کے مطابق ظہور میں آئی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب منشی سعداللہ لدھیانوی بدگوئی اور بدزبانی میں حد سے بڑھ گیا اور اپنی نظم ونثر میں اس قدر مجھ کو گالیاں دیں کہ…مَیں باور نہیں کر سکتا کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کسی نے ایسی گندی گالیاں کسی نبی اور مرسل کودی ہوں جیساکہ اس نے مجھے دیں- چنانچہ جس شخص نے اس کی مخالفانہ نظمیں اورنثریں اور اشتہار دیکھے ہوں اس کو معلوم ہوگاکہ وہ میری ہلاکت اور نابود ہونے کے لئے اور نیز میری ذلت اوراس کی نامرادی دیکھنے کے لئے کس قدر حریص تھا اور میری مخالفت میں کہاں تک اس کا دل گندہ ہوگیا تھا۔پس ان تمام امور کے باعث مَیں نے اس کے بارہ میں یہ دعا کی کہ میری زندگی میں اس کو نامرادی اور ذلت کی موت نصیب ہو۔ سوخدا نے ایسا ہی کیا اور جنوری ۱۹۰۷ء کے پہلے ہفتہ میں چند گھنٹہ میں نمونیا پلیگ سے اس جہان فانی سے ہزاروں حسرتوں کے ساتھ کوچ کرگیا …اور وہ پیشگوئی جس میں مَیں نے لکھاتھاکہ نامرادی اور ذلت کیساتھ میر ے روبرو وہ مرے گا۔وہ انجام آتھم میں عربی شعروں میں ہے اوروہ یہ ہے:
تو نے اپنی خباثت سے مجھے بہت دکھ دیا ہے۔پس مَیں سچا نہیں ہوں گا اگر ذلت کے ساتھ تیری موت نہ ہو۔ اور صرف تیری ذلت پر کچھ حصہ نہیں ، خدا تجھے مع تیرے گروہ کے ذلیل کرے گا اور مجھے عزت دے گا یہاں تک کہ لوگ میرے جھنڈے کے نیچے آ جائیں گے۔
اے میرے خدا مجھ میں اورسعداللہ میں فیصلہ کر۔ یعنی جو کاذب ہے صادق کے روبرو اس کو ہلاک کر۔اے علیم وخبیر جومیرے دل کو اور میرے اندر کی پوشیدہ باتوں کودیکھ رہاہے۔اے میرے خدا !مَیں تیری رحمت کے دروازے دعا کرنے والوں کے لئے کھلے دیکھتاہوں-پس یہ جو مَیں نے سعداللہ کے حق میں دعا کی ہے اس کو قبول فرما اورردّ نہ کر یعنی میری زندگی میں ہی اس کوذلت کی موت دے ‘‘۔
پھر کانگڑہ کے زلزلہ کی خبر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’مَیں نے زلزلہ کی نسبت پیشگوئی کی تھی جو اخبار الحکم اور البدر میں چھپ گئی تھی کہ ایک سخت زلزلہ آنے والاہے۔ جو بعض حصہ پنجاب میں سخت تباہی کا موجب ہوگا اور پیشگوئی کی تمام عبارت یہ ہے :

’’زلزلہ کا دھکا۔عَفَتِ الدَّیَارُ مَحِلُّھَا وَ مَقَامُھَا‘‘۔

چنانچہ یہ پیشگوئی ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کو پوری ہوئی۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۲۳۱)
اور اس پیشگوئی کے مطابق کانگڑ ہ میں شدید زلزلہ آیا جس میں ہندوؤں کے مشہور مندر زمین بوس ہوگئے۔ دھرمسالہ کی اور متفرق چھاؤنیاں جو تھیں ان میں بڑی تباہی آئی اور ایک محتاط اندازہ کے مطابق کہتے ہیں کہ بیس ہزار افراد القمہ ٔاجل ہوئے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا عجیب معجزہ ہے کہ کسی احمدی کا جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔
پھر کانگڑہ کے زلزلہ کے حالات بیان کرتے ہوئے حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ اپنی کتاب ’’ذکر حبیبؑ‘‘میں بیان فرماتے ہیں :
’’۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کی صبح کو جبکہ پنجاب میں سخت زلزلہ آیا اورکانگڑہ کے پہاڑ میں کئی ایک بستیاں بالکل تباہ ہو گئیں اور ہندوؤں کی دیوی جوالامکھی کی لاٹ بجھ گئی اور عمارت مسمار ہوگئی۔ اس وقت صبح ساڑھے بجے کے قریب قادیان میں بھی سخت زلزلہ محسوس ہوا مگر یہ خدا کافضل رہا کہ جیسا کہ لاہو ر اور امرتسر میں کئی ایک مکانات گرگئے اور آدمی مر گئے اور بہتوں کوچوٹیں آئیں ،ایسا کوئی حادثہ قادیان میں نہیں ہوا۔مَیں ان دنوں کچھ بیمار تھا اور خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میرا علاج کرتے تھے۔روزانہ تازہ ادویہ منگوا کر اورایک گولی اپنے ہاتھ سے مجھے بھیجا کرتے تھے۔ مَیں اس وقت اپنے اہل بیت کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑکے مکان میں اس کمرہ میں مقیم تھا جو گول کمرہ کے نام سے مشہور ہے اور جس میں مَیں قادیان میں سب سے پہلی دفعہ ۱۸۹۱ء کے ابتدا میں آن کر مقیم ہوا تھا۔چونکہ زلزلے کے اس بڑے دھکے آنے کے بعد بھی چند گھنٹوں کے وقفے پر باربار زمین ہلتی تھی اس واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تجویز کی کہ مکانات چھوڑ کر باہر باغ میں ڈیرہ لگا یاجائے۔ اکثر دوست مع قبائل باہر چلے گئے او چھوٹی چھوٹی جھونپڑیاں بنائی گئیں اور بعض نے خیمے کھڑے کر لئے اور کئی ماہ تک اسی باغ میں قیام رہا۔ انہی ایام میں جاپان کا ایک پروفیسر اوموری جو علم زلازل کے محقق اور مبصر تھے ان زلازل کی تحقیقات کے واسطے ہندوستان آیا تھااور بعد تحقیقات اس نے فیصلہ کیا تھاکہ یہاں اب کئی سال تک زلزلہ نہیں آئے گا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی الہامی پیشگوئی شائع کی تھی کہ موسم بہار میں پھر زلزلہ آئے گا۔چنانچہ دوسرے سال ایسا ہی ایک شدید زلزلہ پھر آیا‘‘۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے الہام کیا:
’’بھونچال آیا اور شدت سے آیا۔ زمین تہہ بالاکردی‘‘
اس ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :
’’ اس دن آسمان سے کھلا کھلا دھواں نازل ہوگا اور اس دن زمین زرد پڑجائے گی۔ یعنی سخت قحط کے آثار ظاہر ہونگے۔ میں بعد اس کے جومخالف تیری توہین کریں گے تجھے عزت دونگا اور تیرا کرم کرونگا۔ وہ ارادہ کریں گے جو تیرا کام ناتمام رہے اور خدانہیں چاہتا کہ جو تجھے چھوڑ دے جب تک تیرے کام پورے نہ کرے۔ میں رحمن ہوں اور ہر ایک امر میں تجھے سہولت دوں گااور ہر ایک امر میں تجھے برکتیں دکھلاؤں گا‘‘۔(حقیقہ الوحی۔ روحانی خزائن۔ جلد نمبر ۲۲۔ صفحہ ۹۸)
پھرحضورؑ ایک جگہ فرماتے ہیں :’’ یاد رہے کہ جس عذاب کے لئے یہ پیشگوئی ہے اس عذاب کوخداتعالیٰ نے بار بارزلزلہ کے لفظ سے بیان کیا ہے اگرچہ بظاہر وہ زلزلہ ہے اور ظاہر الفاظ یہی بتاتے ہیں کہ وہ زلزلہ ہی ہوگا۔ لیکن چونکہ عادت الٰہی میں استعارات بھی داخل ہیں اس لئے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ غالباً تو وہ زلزلہ ہوگا ورنہ کوئی اور جاں گدا ز اور فوق العادت عذاب ہے جو زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہے‘‘۔
(براہین احمدیہ جلد پنجم)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’یاد رہے کہ خدانے مجھے عام طورپر زلزلوں کی خبر دی ہے۔پس یقینا سمجھو کہ جیساکہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض ان میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اوراس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے چرند، پرندد بھی باہر نہیں ہوں گے اورزمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیر وزبر ہوجائیں گے کہ گویا ان میں کبھی آبادی نہ تھی اوراس کے ساتھ اور بھی آفات زمین وآسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہاں تک کہ ہر عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گے اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ پر ان کا پتہ نہیں ملے گا۔ تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگاکہ یہ کیا ہونے والاہے اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہوجائیں گے۔ و ہ دن نزدیک ہیں بلکہ مَیں دیکھتاہوں کہ دروازے پرہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی۔ کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے-یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں-… مَیں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں ،پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے۔نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے۔جو خدا کو چھوڑتاہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ ‘‘۔(حقیقۃالوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۲۶۸۔۲۶۹)
پھر آپ فرماتے ہیں :
’’اے سننے والو ! تم یاد رکھو کہ اگر پیشگوئیاں صرف معمولی طورپر ظہور میں آئیں تو سمجھ لو کہ مَیں خدا کی طرف سے نہیں ہوں- لیکن اگر ان پیشگوئیوں نے اپنے پورے ہونے کے وقت دنیا میں ایک تہلکہ برپا کر دیااور شدت گھبراہٹ سے دیوانہ سا بنادیا اوراکثر مقامات سے عمارتوں اور جانوں کو نقصان پہنچا توتم اس خدا سے ڈرو جس نے میرے لئے یہ سب کچھ کردکھایا ‘‘۔
(تجلیات الٰہیہ صفحہ ۴ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۹۶)
آپ کے کچھ الہامات ہیں- فرمایا:
’’مجھے اللہ جل شانہ نہ یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ بعض امراء اور ملوک کوبھی ہمارے گرو ہ میں داخل کرے گا اور مجھے اس نے فرمایا کہ مَیں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اور یہ کسی حد تک ہم نے پورا ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور آئندہ بھی دیکھیں گے۔
پھر یہ الہام ہے ۱۸۸۳ء کا :پھر بعد اس کے فرمایا

’’اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَان۔ِ وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنَاہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ۔ صَدَقَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ۔وَکَانَ اَمْرُاللہِ مَفْعُوْلاً‘‘

یعنی ہم نے ان نشانوں اور عجائبات کو اور نیز اس الہام پُر ازمعارف وحقائق کو قادیان کے قریب اتارا ہیے اور ضرورت حقہ کے ساتھ اتارا ہے اور بضرورت حقہ اترا ہے۔ خدا اور اس کے رسول نے خبر دی تھی کہ جو اپنے وقت پر پوری ہوئی اور جو کچھ خدانے چاہا تھاوہ ہونا ہی تھا‘‘۔(براہین احمدیہ ہر چہار حصص۔روحانی خزائن جلد ۱صفحہ ۵۹۳ بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳۔تذکرہ صفحہ ۷۴۔۷۵مطبوعہ ۱۹۶۹ء)
پھر ایک الہام ہے فرمایا:’’اللہ جل شانہ نے مجھے خبر دی ہے کہ

’’یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ صُلَحَآء الْعَرَبِ وَاَبْدَالُ الشَّامِ وَتُصَلِّیْ عَلَیْکَ الْاَرْضُ وَالسَّمَآء وَیَحْمَدُکَ اللہُ عَنْ عَرْشِہٖ‘‘۔

(از مکتوب حضرت اقدس مورخہ اگست ۱۸۸۸ء مندرجہ الحکم جلد ۵ نمبر ۳۲ مورخہ ۳۱؍اگست ۱۹۰۱ء۔تذکرہ صفحہ ۱۶۲۔ مطبوعہ ۱۹۶۹)
اس کا صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓنے ترجمہ کیاہے کہ تجھ پر عرب کے صلحاء اور شام کے ابدال درود بھیجیں گے۔زمین وآسمان تجھ پر درود بھیجتے ہیں اوراللہ تعالیٰ عرش سے تیری تعریف کر تاہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں