محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا ایک تاریخی انٹرویو

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 16؍ ستمبر 2022ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍نومبر 2013ء میں محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے ایک انٹرویو کا اردو ترجمہ شائع ہوا ہے جو مکرم شیخ مامون احمدصاحب نے جماعت احمد یہ نائیجیریا کے ہفت روزہThe Truthکے لیے 1979ء کے جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر انگلش زبان میں لیا تھا۔ اس انٹرویو کے اہم نکات ہدیۂ قارئین ہیں:

محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

٭…اپنی تھیوری کی تفصیل بیان کرتے ہوئے محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ آج کے موجودہ وقت میں یہ سمجھا جارہا ہے کہ کائنات میں چار بنیادی قوتیں ہیں جو اس کائنات کو چلا رہی ہیں۔ہم نے یہ کیا ہے کہ یہ چار نہیں بلکہ صرف تین ہی قوّتیں ہیں اور ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم ان کو مزید کم کر کے صرف دو کر دیں گے۔پھر دو قوتوں سے ایک قوت ثابت کرنا، یہ بھی ایک تخیّل ہے جس کے لیے ہم کوشش کریں گے لیکن ہمیں اس میں بہت کم دِقّت کا سامنا ہو گا۔
٭… محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ اس نوبیل انعام میں دو امریکی سائنس دان ڈاکٹر وائن برگ اور ڈاکٹر گلاشفر کو بھی میرے ساتھ شامل کیا گیا تھا۔ بنیادی طور پر ہم سب نے آزادانہ طور پر کام کیا ہے لیکن بحیثیت مجموعی مَیں شائدان دونوں سے زیادہ لمبا عرصہ اس کام میں رہا ہوں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ بنیادی طور پر ہم نے اس مسئلے کو مختلف زاویوں سے دیکھا ہے۔ اگر آپ واقعی اس کی تاریخ میں جانا چاہتے ہیں تو آپ کو ان لیکچرز کا مطالعہ کرنا ہوگا جو ہم نے سٹاک ہوم (سویڈن) میں دیے تھے۔ ان سے آپ کو اس تھیوری کی منزل بہ منزل ترقی کے بارے میں علم ہوجائے گا۔
٭…محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ البرٹ آئن سٹائن بجلی اور مقناطیسی قوتوں کو یکجا دیکھنا چاہتا تھا اور مقناطیسی قوتوں کو کشش ثقل کے ساتھ یکجا کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔ لیکن ہم نے مکمل طور پر ایک الگ راستہ اختیار کیا ہے اور کمزور نیوکلیائی قوتوں کو بجلی اور مقناطیسی قوتوں کے ساتھ یکجا کر دیا ہے۔پس بالآخر ہم آئن سٹائن کی طرف لَوٹ کر آئیں گے بعد اس کے کہ ہم نے اس معاملہ کو بالکل مختلف زاویہ نظر سے دیکھا ہے۔ اور یہ بات زیادہ قیمتی اور مدد گار ثابت ہو گی۔
٭… اس سوال پر کہ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم ایسے علاقہ میں حاصل کی ہے جو کہ پاکستان کا سب سے پسماندہ ضلع سمجھا جاتا ہے (یعنی ضلع جھنگ)۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ یہ تعلیم مغرب کے کسی ترقی یافتہ ملک میں حاصل کرتے تو اس سے کوئی فرق پڑتا؟
محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ نہیں۔ جھنگ میں میرے بہت اچھے استاد تھے۔ (اس وقت کمرے میں ایک بزرگ داخل ہوئے جنہوں نے ڈاکٹر سلام صاحب کو بچپن میں قرآن پڑھایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب ان کی تعظیم میں کھڑے ہوگئے اور ان کو گلے لگایا۔ پھر فرمایا کہ) لاہور میں بھی مجھے بہت اچھے اساتذہ میسرتھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے طالبعلموں میں مَیں بہت خوش قسمت تھا کہ میں کیمبرج چلا گیا۔ لیکن بہر حال مَیں نہیں جانتا تھا کہ ان تھیوریوں کو کیسے حل کرنا ہے جب تک کہ مَیں کیمبرج پہنچ نہیں گیا۔میں نے ان کو کیمبرج میں اسی نقطۂ نظر سے سیکھا لیکن میری ابتدائی تعلیم میرے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں بنی۔
٭… اس سوال کے جواب میں کہ آپ کے روز مرہ کے معمولات یعنی مطالعہ اور سوچ بچار وغیرہ سے کیا آپ کی نجی زندگی (فیملی لائف)متأثر نہیں ہوتی؟
آپ نے جواب دیا کہ مَیں نے اپنے آپ کو اپنے دوسرے اہم کام میں مصروف کررکھا ہے یعنی ٹریسٹ (اٹلی)میں انٹرنیشنل سنٹر برائے تھیوریٹیکل فزکس کو چلانا۔ جس میں نائیجیریا سے بھی طالب علموں کی ایک بڑی تعدادہر سال آتی ہے۔ہم ان کے سفر اورتعلیم کے اخراجات برداشت کرتے ہیںاور یہ کام محنت طلب ہے اور اس کے لیے میرا وقت بھی صَرف ہوتا ہے۔ اس سنٹر کو بہتر حالت میں اور چالو حالت میں رکھنے کے لیے عموماً میں جلد اُٹھ جاتا ہوں اور اپنا کام شروع کر دیتا ہوں۔
٭… اس سوال پر کہ کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے بچوں میں سے کوئی انہی خطوط پر کام کرے گا جن پر آپ نے کیا ہے؟
محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ میرے خیال میں آپ کے لیے یہ بہت مشکل ہوگا کہ آپ بچوں کا ان کے باپوں کے ساتھ مقابلہ کر سکیں۔یہ ایک غیر مناسب مقابلہ ہوگا۔ ان میں سے ابھی تک تو کوئی ماہر طبیعات نہیں ہے۔
٭… محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ تیسری دنیا کی اقوام جیسے افریقن،ایشین اور عرب کو ترقی یافتہ قوموں کے ساتھ اپنے سائنسی اور ٹیکنالوجی کے فرق کو کم کر نے کے لیے چاہیے کہ وہ کہیں زیادہ تعداد میں طالب علموں کو تربیت دیں جن کو وہ اس وقت دے رہے ہیں۔ دراصل معاملہ تعداد کا ہے کیونکہ اگر آپ 100 لوگوں کو تربیت دے رہے ہیں تو آپ امید رکھ سکتے ہیں کہ ان میں سے دو ایسے ہوں گے جو واقعی اچھے ہوں گے۔ لیکن اگر آپ کے زیرتربیت صرف10 ہوں گے تو آپ کو اُن میں سے ایک بھی ایسا ملنے کی امید نہ ہوگی جو واقعی اچھا ہو اس لیے پہلے تعداد پر توجہ دیں پھر اعلیٰ معیار کی طرف آئیں۔
٭… یہ عرض کرنے پر کہ تیسری دنیا کے ممالک کے لیے ایک مسئلہ اعلیٰ ذہن رکھنے والوں کا فقدان ہے یا پھر ایسے ذہین لوگوں کا ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کر جانا بھی ایک مسئلہ ہے جس کو Brain Drain یعنی اعلیٰ دماغوں کا انخلا ہو جانا کہا جاتا ہے۔
محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ مجھے یہ ہر گز تشویش نہیں کہ کچھ ذہین لوگ باہر چلے جاتے ہیں۔ ان کے ذہن ضائع نہیں ہوتے۔ مجھے تو اُن ذہین لوگوں کے بارے میں فکر ہے جو پیچھے رہ کر اپنی ذ ہنی استعدادیں گنوا بیٹھتے ہیں۔
٭… اس سوال کے جواب میں کہ کیا افریقہ، عرب اور ایشیا کی محروم قومیں اس لیے پیچھے رہ گئی ہیں کہ وہ اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہیں یا اُن کی یہ استعدادیں ذہنی لحاظ سے مغربی ممالک سے کمتر ہیں؟
مکرم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: ہرگز نہیں!حقیقت میں یہ اُس طریق پر منحصر ہے جس طریق سے ہم ذہانت کو ترقی دیتے ہیں۔ وہ بہت غلط ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں ہر وقت زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ یاد کرو، یاد کرو، یاد کرو (یعنی رٹّا لگاؤ) بجائے اس کے کہ سوال کرنے کی عادت کو ترویج دیا جائے۔اور یہی میں نے سیکھا ہے کہ آپ کو سوال ضرور پوچھنا ہے۔ آپ کو جو ظاہر میں نظر آتا ہے اسی طرح قبول نہیں کرنا۔ یہی ہے جو وہ (مغرب میں) بہت کم عمر سے آپ کو پڑھاتے اور سکھاتے ہیں۔لیکن ایک دفعہ جب آپ سمجھ جاتے ہیں تو پھر کوئی مسئلہ باقی نہیں رہتا۔
٭… ایک سوال تھا کہ آپ کو ایک مذہبی انسان سمجھا جاتا ہے۔ آپ کے سائنسی تحقیق کے کام نے آپ کے خدا پر ایمان میں کوئی تبدیلی (یعنی کمی بیشی)کی ہے؟
محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ یقیناً ایمان کم نہیں ہوا۔لیکن میرے نقطۂ نظر سے مذہب ایک بہت زیادہ بنیادی چیز ہے۔بہت زیادہ روحانی ہے جو کہ انسانی علم، تجربہ یا دلیل کے دائرہ سے بڑھ کر ہے اور جو کہ سائنس کی دسترس سے باہر ہے ۔یہ خیال کرنا کہ اس وقت کے بعض سائنسی تخیلات مذہب کے بعض خیالات کی تائید کرتے ہیں ایک مکمل بے عقلی ہے کیونکہ مذہب اتنا بڑا ہے کہ سائنس جیسی چھوٹی چیز اس کی مدد نہیں کرسکتی۔
٭… ایک سوال تھا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سائنس مذہب کا جزو ہے؟
آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ سائنس تو ایک عاجز چیز ہے۔ہم اپنے خیالات بدلتے رہے ہیں، اس بات کو آپ کی گہری مذہبی اقدار پر اثرانداز نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ایک دوسرے لحاظ سے جس طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’علماء انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘ اب چونکہ عربی زبان میں سائنس کے لیے کوئی دوسرا لفظ نہیں سوائے ’’علم‘‘ کے، اس لیے میں مُلّا حضرات سے یہ کہتا ہوں کہ ہم سائنس دان انبیاء کے ورثا ء ہیں نہ کہ تم۔ کیونکہ ہم زیادہ گہرائی سے باخبر ہیں کہ سمجھ سکیں کہ خداتعالیٰ کا فعل کیا ہے۔
٭…محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ افریقن، ایشین اور عرب ممالک کے لیے میرا یہی پیغام ہےکہ وہ محنت کریں اور خاص طور پر افریقن ممالک کے لیے آپ کو یاد دہانی کراتا ہوں کہ اُن کو محنت کرنا ہے۔
٭… اس سوال پر کہ ایک امریکن ڈاکٹر توینشی جو آئی کیو (I.Q) یعنی ذہن کی استطاعت کے بارے میں ٹیسٹ کر کے بتاتا ہے، اُس نے کہا ہے کہ افریقن یا سیاہ فام لوگوں میں ذہانت کے معیار میں سفیدفام لوگوں کی نسبت 10نمبروں کی کمی ہے۔ کیا آپ اس کے دعویٰ سے متفق ہیں؟
محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ مَیں نہیں سمجھتا کہ اُس نے افریقیوں کے بارے میں کوئی بات کی تھی۔ اُس نے امریکن سیاہ فاموں کے بارے میں کچھ کہا تھا۔لیکن پھر کچھ لوگوں نے اس کی توجہ اس امرکی طرف دلائی کہ شمال میں آباد امریکن سیاہ فام جنوب میں بسنے والے سفید فام امریکنوں سے زیادہ نمبر لیتے ہیں۔پس آپ یہ کہہ لیں کہ یہ تھیوری بہت متنازعہ ہے۔ سب سے پہلے تو میرا یہ یقین ہے کہ آئی کیوٹیسٹ مکمل طور پر ایک مضحکہ خیز چیزہیں۔ یہ اُس شخص کی پیداوار ہیں جو اس چیز کا اظہار کر رہا ہےجو وہ جانتا ہے۔ یہ اُس شخص کا ٹیسٹ ہیں جس نے یہ ایجاد کیے ہیں نہ کہ اُس کا جس کے یہ ٹیسٹ لیے جارہے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ آئی کیو(I.Q) ٹیسٹ کا حقیقی ذہانت سے کوئی تعلق ہے۔ہو سکتا ہے کہ کچھ ہو بھی۔ لیکن مجھے ان باتوں کا خاص علم نہیں۔ مَیں ایک بڑی تعداد میں افریقن طلباء اور تحقیق کرنے والوں سے رابطے میں رہا ہوں۔ مَیں جانتا ہوں کہ وہ ایسی ہی استعدادیں (ذ ہنی قوتیں اور قابلیتیں) رکھتے ہیں جتنی کہ کوئی دوسرا۔اُن میں صرف روایت کی کمی ہے یعنی سائنس کے ساتھ ایک دیرپا (لمبے)تعلق کی کمی ہے۔وہ چیزوں کے بارے میں بہت بلند اندازے اور امیدیں قائم کرتے ہیں (جس کا ان کو حقیقی علم نہیں ہوتا)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ان اندازوں کو حقیقی علم کے ساتھ نہ تو پر کھا گیا ہے نہ ان سے جوڑا گیا ہے۔یورپ میں آپ ہر وقت اپنے ارد گرد تجرباتی علم اور مشاہداتی علم کو پاتے ہیں اس لیے آپ اپنے اندازوں میں کم غلطیاں کرتے ہیں۔لیکن آپ اگر خالص اندازے قائم کر نے والے ہیں تو پھر آپ اندازے ہی قائم کرتے جائیں گے اور ایک نئے ملک میں یہی کچھ ہوتا ہے۔لوگ اس سے زیادہ اندازے لگانے والے، امیدیں باندھنے والے ہوتے ہیں جتنا اُن کو ہونا چاہیے۔ پس وہی تخیل اس وقت بہت بڑا کہلائے گا جس کے ساتھ سائنس کی بڑی قدریں وابستہ ہوں گی۔ ایسا تخیل ہی پھیلے گا اور بڑھے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں