مکرم ماسٹر عبدالحکیم ابڑو صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
محترم ماسٹر عبدالحکیم ابڑو شہید دورِ خلافتِ رابعہ کے پہلے اور سندھ میں سندھی قوم کے بھی پہلے شہید ہیں۔ آپ 10؍ اپریل1932ء کو پیدا ہوئے۔ نہایت غربت اور تنگدستی میں پرورش پائی اور ایامِ طفولیت میں ہی شفقتِ پدری سے محروم ہوگئے۔ لیکن ملازمت کے ساتھ تعلیم جاری رکھتے ہوئے سندھ یونیورسٹی سے ایم۔اے، ایم۔ایڈ پاس کرلیا۔قرآن کریم کے عاشق تھے۔ گھر میں بچوں کو اس وقت تک ناشتہ کی اجازت نہ تھی جب تک تلاوت قرآن کریم نہ کرلیں۔ تبلیغ کے شیدائی تھے اور کوئی موقع پیغامِ حق پہنچانے کا ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔حتی کہ سرکاری دفاتر میں بھی جماعتی اخبارات اور رسائل جاری کروادیے۔ خلافت احمدیہ سے عشق تھا۔ خود بھی بار بار مرکز تشریف لاتے اور دوسروں کو بھی نہ صرف تلقین کرتے بلکہ بعض کے سفر کے اخراجات بھی خود برداشت کرتے۔ بوقتِ شہادت جماعت احمدیہ وارہ کے صدر تھے۔
16؍ اپریل 1983ء کی صبح قریباً دو بجے دو آدمی آپ کے گھر میں گھس آئے جن کے پاس کلہاڑیاں تھیں۔ آپ اس وقت سو رہے تھے۔ انہوں نے آپ پر کلہاڑیوں کے پے در پے وار کیے۔ حملہ آوروں اور شہیدکی آوازیں سن کر باقی افرادِ خانہ بھی بیدار ہوگئے۔ آپ کے ایک بیٹے مکرم ریاض احمد صاحب ناصر مربی سلسلہ نے (جو اُن دنوں جامعہ احمدیہ میں پڑھتے تھے اور چھٹیوں پر گھر آئے ہوئے تھے) ایک حملہ آور کو پکڑنے کی کوشش کی مگر اُن کو بھی زخمی کردیا گیا اور وہ بے ہوش ہوکر گِرگئے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ کے سر پر بھی کلہاڑی کے کاری زخم لگائے گئے اور آپ کی ایک بچی بھی زخمی ہوئی۔ آپ نے اس حالت میں بھی لوگوں سے یہی کہا کہ جس مسلک کو میں نے اپنایا ہے خدا کی قسم وہ جھوٹا نہیں ہے، نہ ہی میں نے کوئی بزدلی دکھائی ہے اور نہ ہی میرے قدم اس رستے میں ڈگمگائے ہیں۔ ہاں میرے مقدّر میں اے مخالفو! شہادت ہے اور تمہارے مقدّر میں نحوست اور ہلاکت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پھر آپ نے بآواز بلند سندھی میں یہ نعرہ لگایا:

احمدیت سچی آہے، احمدیت سچی آہے، احمدیت سچی آہے۔

پھر آپ نے حالتِ نزع میں اپنے واقف زندگی بیٹے ریاض احمد ناصر کو نصیحت فرمائی کہ

’’میں تو اب بچ نہیں سکوں گا مگر یاد رکھو کہ احمدیت بالکل سچی اور برحق ہے اور تم اپنا وقف ہرگز نہ توڑنا‘‘۔

حملے کے قریباً ایک گھنٹہ بعد آپ مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے۔
آپ کی نماز جنازہ کھنڈو میں ادا کی گئی۔ آپ کے گھر کے پاک نمونہ اور آپ کی بلاامتیاز خدمت خلق کے غیراحمدی بھی معترف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ بارہ ہزار لوگ آپ کے جنازے میں شریک ہوئے۔ بہت سے غیراحمدی افراد بھی دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ پہلے آپ کو کھنڈو میں امانتاً دفن کیا گیا اور پھر دسمبر1983ء میں میت ربوہ لائی گئی جہاں بہشتی مقبرہ میں آپ کی تدفین ہوئی۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق آپ کے جسم پر کلہاڑیوں کے 27 زخم تھے جن میں سے بعض دو سے تین انچ تک گہرے تھے۔ اگلی صبح ہائی سکول کے لڑکوں نے اپنے شفیق استاد کے وحشی قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے جلوس نکالا۔ قاتل اُسی روز گرفتار کرلیے گئے۔
پسماندگان میں شہید مرحوم نے بیوہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور چار بیٹے یادگار چھوڑے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں