نبی کریمﷺ کے اخلاق فاضلہ کے بارے میں غیرمسلموں کے اعترافات

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 29 اکتوبر 2021ء)

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 5؍اکتوبر 2012ء میں فرماتے ہیں کہ اسلام کے مخالفین آنحضورﷺ پر یا آپؐ کی لائی ہوئی تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں۔ یہ لوگ یا تو انصاف سے خالی دل لیے ہوئے ہیں یا آپؐ کی سیرت کے حسین پہلوؤں کو جانتے ہی نہیں۔ پس دنیا کو آ پؐ کی سیرت سے آگاہی دینا بھی ہمارا کام ہے۔ بعض لوگوں کی فطرت ایسی ہوتی ہے یا دنیا میں ڈوب کر ایسے بن جاتے ہیں کہ اُن پر دنیاداروں یا اپنے لوگوں کی باتوں کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے لوگوں تک اُن کے اپنے مشہور سکالرز اور رائٹرز کے آنحضرتﷺ کی سیرت کے بارے میں تاثرات پہنچانے چاہئیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں بعض غیرمسلم مفکرین کے آنحضورﷺ کے اخلاق فاضلہ کے بارے میں چند اعترافات بھی بیان فرمائے جن میں سے ایک انتخاب ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ نومبر 2012ء میں شامل ہے۔
٭…George Sale اپنے انگریزی ترجمہ قرآن (The Koran) کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
محمد(ﷺ ) کامل طور پر فطری قابلیتوں سے آراستہ تھے، شکل میں نہایت خوبصورت، فہیم اور دُوررَس عقل والے، پسندیدہ و خوش اطوار، غرباء پرور، ہر ایک سے متواضع، دشمنوں کے مقابلہ میں صاحبِ استقلال و شجاعت، سب سے بڑھ کر یہ کہ خدائے تعالیٰ کے نام کا نہایت ادب و احترام کرنے والے تھے۔ جھوٹی قسم کھانے والوں، زانیوں، سفّاکوں، جھوٹی تہمت لگانے والوں، فضول خرچی کرنے والوں، لالچیوں اور جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف نہایت سخت تھے۔ بردباری، صدقہ و خیرات، رحم و کرم، شکرگزاری، والدین اور بزرگوں کی تعظیم کی نہایت تاکید کرنے والے اور خدا کی حمدوتعریف میں نہایت کثرت سے مشغول رہنے والے تھے۔
(Gent, 5th edition, Philadelphia)
٭…مصنف Stanley Lane-Poole اپنی کتاب The Speeches and Tablets of the Prophet Mohammad میں لکھتے ہیں:
حضرت محمد اپنے آبائی شہر مکہ میں جب فاتحانہ داخل ہوئے تو اہل مکہ جو آپؐ کے جانی دشمن اور خون کے پیاسے تھے، اُن سب کو معاف کر دیا۔ یہ ایسی فتح تھی اور ایسا پاکیزہ فاتحانہ داخلہ تھا جس کی مثال ساری تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی۔ (p.146-147)
٭…پروفیسر H.G.Wells کہتے ہیں:
پیغمبر اسلام کی صداقت کا یہی بڑا ثبوت ہے کہ جو آپؐ کو سب سے زیادہ جانتے تھے، وہی آپ پر سب سے پہلے ایمان لائے۔ … حضرت محمد (ﷺ ) ہرگز جھوٹے مدّعی نہ تھے۔ … اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام میں بڑی خوبیاں اور باعظمت صفات موجود ہیں۔ … پیغمبرِ اسلام نے ایک ایسی سوسائٹی کی بنیاد رکھی جس میں ظلم اور سفاکی کا خاتمہ کیا گیا۔
(The Outline of History, part II)
٭…De Lacy O’Leary لکھتے ہیں:
تاریخ نے اس بات کو کھول کر رکھ دیا ہے کہ شدّت پسند مسلمانوں کا دنیا پر فتح پا لینا اور تلوار کی نوک پر مقبوضہ اقوام میں اسلام کو نافذ کر دینا، تاریخ دانوں کے بیان کردہ قصوں میں سے فضول ترین اور عجیب ترین قصہ ہے۔
(Islam at the Cross roads. p.8)
٭…مہاتما گاندھی جریدہ Young India میں لکھتے ہیں:
مَیں اُس شخص کی زندگی کے بارہ میں سب کچھ جاننا چاہتا تھا جس نے بغیر کسی اختلاف کے لاکھوں پر حکومت کی۔ اُس کی زندگی کا مطالعہ کر کے میرا اس بات پر پہلے سے بھی زیادہ پختہ یقین ہو گیا کہ اسلام نے اُس زمانے میں تلوار کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں جگہ نہیں بنائی بلکہ اس پیغمبر کی سادگی، اپنے کام میں مگن رہنے کی عادت، انتہائی باریکیوں کے ساتھ اپنے عہدوں کو پورا کرنا اور اپنے دوستوں اور پیروکاروں کے ساتھ انتہائی عقیدت رکھنا، بے باک و بے خوف ہونا اور خدا کی ذات اور اپنے مشن پر کامل یقین ہونا، اُس کی انہی باتوں نے ہر مشکل پر قابو پایا اور جو سب کو ساتھ لے کر چلیں۔
٭…John William Draper نے کتاب History of the intellectual Development of Europeمیں لکھا ہے:
569ء میں مکّہ میں ایک ایسا شخص پیدا ہوا جس نے سب سے زیادہ بنی نوع انسان پر اپنا اثر چھوڑا اور وہ شخص محمد ہے … ان کے اندر ایسی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے کئی قوموں کی قسمت کا فیصلہ ہوا۔ وہ ایک تبلیغ کرنے والے سپاہی تھے، فصیح خطیب تھے،میدان میں اترتے تو بہادر ہوتے۔ اُن کا مذہب صرف یہی تھا کہ خدا ایک ہے۔ اس سچائی کو بیان کرنے کے لیے انہوں نے نظریاتی بحثوں کو اختیار نہیں کیا بلکہ اپنے پیروکاروں کو صفائی، نماز اور روزہ جیسے امور کی تعلیم دیتے ہوئے اُن کی معاشرتی حالتوں کو عملی رنگ میں بہتر بنایا۔ آپؐ نے صدقہ و خیرات کو دیگر تمام کاموں پر فوقیت دی۔ (p.244)
٭…William Montgomery، اپنی کتاب Muhammad at Madinah میں لکھتے ہیں:
محمدؐ اور اسلام کی ابتدائی تاریخ پر جتنا غور کریں، اتنا ہی آپ کی کامیابیوں کی وسعت کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ اُس وقت کے حالات نے آپ کو ایک ایسا موقع فراہم کیا جو بہت کم لوگوں کو ملتا ہے۔ گویا آپ اُس زمانے کے لیے موزوں ترین انسان تھے۔ اگر آپ کے پاس دوراندیشی، حکومت کرنے کی انتظامی صلاحیتیں، توکل علی اللہ اور اس بات پر یقین کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے، نہ ہوتا تو انسانی تاریخ میں ایک اہم باب رقم ہونے سے رہ جاتا۔ مجھے امید ہے کہ آپﷺ کی سیرت کے متعلق یہ کتاب ایک عظیم الشان ابن آدم کو سمجھنے اور اُس کی قدر کرنے میں مدد کرے گی۔ (pp.335)
٭…عیسائی مؤرخ Reginald Bosworth Smith اپنی کتاب Muhammed and Muhammedanism میں لکھتے ہیں:
مذہب اور حکومت کے راہنما اور گورنر کی حیثیت سے پوپ اور قیصر کی دو شخصیتیں حضرت محمد (ﷺ ) کے ایک وجود میں جمع تھیں۔ آپ پوپ تھے مگر پوپ کی طرح ظاہر داریوں سے پاک۔ آپ قیصر تھے مگر قیصر کے جاہ و حشمت سے بے نیاز۔ اگر دنیا میں کسی شخص کو یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ اُس نے باقاعدہ فوج کے بغیر، محل شاہی کے بغیر اور لگان کی وصولی کے بغیر صرف خدا کے نام پر دنیا میں امن اور انتظام قائم رکھا تو وہ صرف حضرت محمدؐ ہیں۔
آپ کو سب سے پہلے قبول کرنے والے وہ لوگ تھے جو آپؐ کو اچھی طرح جانتے تھے۔ مثلاً آپ کی زوجہ، آپ کا غلام، آپ کا چچا زاد بھائی اور آپ کا پرانا دوست، …آپ کی عظمت کا انکارکرنے والے صرف وہی لوگ ہیں جنہیں آپ کی ذات کا صحیح علم حاصل نہیں تھا۔ (p. 127)
٭…Washington Irving اپنی کتاب ‘‘لائف آف محمدؐ ’’ میں لکھتے ہیں:
آپ کی جنگی فتوحات نے آپ (ﷺ ) کے اندر نہ تو تکبر پیدا کیا، نہ کوئی غرور اور نہ کسی قسم کی مصنوعی شان و شوکت پیدا کی۔ اگران فتوحات میں ذاتی اغراض ہوتیں تو یہ ضرور ایسا کر تیں۔ اپنی طاقت کے جوبن پر بھی اپنی عادات اور حلیہ میں وہی سادگی برقرار رکھی جو کہ آپ کے اندر مشکل ترین حالات میں تھی۔ یہاں تک کہ اپنی شاہانہ زندگی میں بھی اگر کوئی آپ کے کمرہ میں داخل ہوتے وقت غیر ضروری تعظیم کا اظہار کرتا تو آپ اسے ناپسند فرماتے۔ (pp.272-273)
٭…Thomas Carlyle لکھتے ہیں: جو جھوٹی باتیں متعصب عیسائیوں نے اس انسان (یعنی آنحضرتؐ ) کی نسبت بنائی تھیں اب وہ الزام قطعاً ہماری رُوسیاہی کا باعث ہے اور جو باتیں اس انسان نے اپنی زبان سے نکالی تھیں، بارہ سو برس سے اٹھارہ کروڑ آدمیوں کے لیے بمنزلہ ہدایت کے قائم ہیں۔ اِس وقت جتنے آدمی محمدؐ پر اعتقاد رکھتے ہیں اس سے بڑھ کر اَور کسی کے کلام پر اِس زمانے کے لوگ یقین نہیں رکھتے۔
(Six Lectures on Heroes, Hero-Worship and the Heroic in History)
٭…فرنچ فلاسفر Lamartine نے History of Turkey میں لکھا:
اگرکسی شخص کی قابلیت کو پرکھنے کے لیے تین معیار مقرر کیے جائیں کہ اُس شخص کا مقصد کتنا عظیم ہے، اُس کے پاس ذرائع کتنے محدود ہیں اور اُس کے نتائج کتنے عظیم الشان ہیں توآج کون ایسا شخص ملے گا جو محمدؐ سے مقابلہ کرنے کی جسارت کرے۔ …محمدؐ کی بنیادصرف ایک کتاب تھی جس کا حرف حرف قانون بن گیا۔ اُس شخص نے ہرزبان اور ہر نسل کو ایک روحانی تشخص سے نوازا۔ …محمدؐ ایک فلسفہ دان، خطیب، پیغمبر، قانون دان، جنگجو، افکار پر فتح پانے والا، عقلی تعلیمات کی تجدید کرنے والا، بیسیوں ظاہر ی حکومتوں اور ایک روحانی حکومت کو قائم کرنے والا شخص تھا۔ انسانی عظمت کو پرکھنے کا کوئی بھی معیار مقرر کرلیں، کیامحمدؐ سے بڑھ کر کبھی کوئی عظیم شخص پیدا ہوا! (vol.1 pp.154-155)
٭…John Devenport لکھتے ہیں:
کیا یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ جس شخص نے حقیر و ذلیل بت پرستی کے بدلے، جس میں اُس کے ہم وطن یعنی اہل عرب مبتلا تھے، خدائے برحق کی پرستش قائم کر کے بڑی بڑی ہمیشہ رہنے والی اصلاحیں کیں، وہ جھوٹا نبی تھا؟ … جو لوگ ہر وقت اُن کے پاس رہتے تھے اور جو اُن سے بہت کچھ ربط ضبط رکھتے تھے اُن کو بھی کبھی آپ کی ریاکاری کا شبہ نہیں ہوا۔
(An Apology for Mohammed and the Koran, p.82)
٭…Michael H. Hart نے اپنی کتاب “A Ranking of the Most Influential Persons in History” میں دنیا پر اثرانداز ہونے والی شخصیات میں آنحضورﷺ کا اسم گرامی پہلے نمبر پر رکھنے کی وجہ بیان کرتےہوئے لکھا:
تاریخ میں وہ واحد شخص تھے جو کہ مذہبی اور دنیاوی ہر دو سطح پر انتہائی کامیاب تھے۔ …میرے اس فیصلے کے پیچھے پہلی وجہ یہ ہے کہ عیسائیت کے فروغ میں عیسیٰؑ کے کردارکی نسبت محمدؐ کا اسلام کے فروغ میں کہیں زیادہ اہم کردار تھا۔
٭…Karen Armstrong تحریر کرتی ہیں:
محمدؐ کوبنیادی توحید پر مبنی روحانیت کے قیام کے لیے عملاً صفر سے کام کا آغاز کرنا پڑا۔ جب آپ نے اپنے مشن کا آغاز کیا تونا ممکن تھا کہ کوئی آپ کو اپنے مشن پر کام کرنے کاموقع فراہم کرتا۔ عرب قوم توحید کے لیے بالکل تیار نہ تھی۔ وہ لوگ ابھی اس اعلیٰ معیار کے نظریہ (توحید) کے قابل نہ ہوئے تھے۔ درحقیقت اس متشدد اور خوفناک معاشرہ میں اس نظریہ کو متعارف کروانا انتہائی خطرناک ہو سکتا تھا اور … درحقیقت محمدؐ کی جان اکثر خطرہ میں گھری رہتی اور ان کا بچ جاناقریب قریب ایک معجزہ تھا، پر محمدؐ ہی کامیاب ہوئے اور اپنی زندگی کے اختتام تک آپؐ نے قبائلی تشددکی پرانی روایت کا قلع قمع کردیا۔
(Muhammad – A Biography of the Prophet p.53)
٭…Annie Besant لکھتی ہیں:
ایک ایسے شخص کے لیے جس نے عرب کے عظیم نبی کی زندگی اور اس کے کردارکا مطالعہ کیا ہو اور جو جانتا ہو کہ اُس نبی نے کیا تعلیم دی اور کس طرح اُس نے اپنی زندگی گزاری، اس کے لیے ناممکن ہے کہ وہ خدا کے انبیاء میں سے اِس عظیم نبی کی تعظیم نہ کرے۔ مَیں …جب بھی ان باتوں کو پڑھتی ہوں تو مجھے اس عربی استادکی تعظیم کے لیے ایک نیا احساس پیدا ہوتا ہے اور اُس کی تعریف کا ایک نیا رنگ نظر آتا ہے۔
(The Life and Teachings of Muhammad p.4)
٭…Ruth Cranston نے جنگ عظیم دوم کے بعد 1949ء میں اپنی کتاب World Faith میں لکھا:
محمد عربی (ﷺ ) نے کبھی بھی جنگ یا خونریزی کا آغاز نہیں کیا۔ ہر جنگ جو انہوں نے لڑی، مدافعانہ تھی۔ وہ اگر لڑے تو اپنی بقا کو برقرار رکھنے کے لیے اور ایسے اسلحے اور طریق سے لڑے جو اُس زمانے کا رواج تھا۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ چودہ کروڑ عیسائیوں میں سے،جنہوں نے ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد انسانوں کو ایک بم سے ہلاک کردیا ہو، کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جو ایک ایسے لیڈر پر شک کی نظر ڈال سکے جس نے اپنی تمام جنگوں کے بدترین حالات میں بھی صرف پانچ یا چھ سو افراد کو تہ تیغ کیا ہو۔ (صفحہ 155)
٭…Godfrey Higginsلکھتے ہیں:
عیسائی پادری محمدؐ کے مذہب کو اُس کے تعصب اور غیررواداری کی وجہ سے گالیاں دیتے ہیں۔ عجیب منافقت ہے یہ۔ کون تھا جس نے سپین سے ان مسلمانوں کو جو عیسائی ہوچکے تھے، بھگایا تھا کیونکہ وہ سچے عیسائی نہ تھے؟ اور کون تھا جس نے میکسیکو اور پیرو میں لاکھوں لوگوں کو تہ تیغ کر دیا اور اُن کو غلام بنالیا کیونکہ وہ عیسائی نہ تھے؟ اور کیا ہی عمدہ اور مختلف نمونہ مسلمانوں نے یونان میں دکھایا کہ صدیوں تک عیسائیوں کو اُن کے مذہب، اُن کے پادریوں، لاٹ پادریوں، راہبوں اور اُن کے گرجاگھروں کو اپنی جاگیر پر پُرامن رہنے دیا۔
(As Cited in Apology for Mohammed, p.123-124)
٭…Edward Gibbonلکھتے ہیں:
آپؐ کے مذہب کی تبلیغ کی بجائے اُس کا دوام (یعنی ہمیشہ قائم رہنا) ہماری حیرت کا موجب ہے۔ حضرت محمدؐ نے مکہ اور مدینہ میں جو خالص اور مکمل نقش جمایا وہ بارہ صدیوں کے انقلاب کے بعد بھی قرآن کے انڈین، افریقی اور ترک نومعتقدوں نے ابھی تک محفوظ رکھا ہوا ہے۔ مریدانِ محمدؐ اپنے مذہب اور عقیدت کو ایک انسان کے تصور سے باندھنے کی آزمائش اور وسوسے کے مقابل پر ڈٹے رہے۔ اسلام کا سادہ اور ناقابل تبدیل اقرار یہ ہے کہ میں ایک خدا اور خدا کے رسول محمدؐ پر ایمان لاتا ہوں۔ یعنی یہ ہے کہ

لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ۔

خدا کی یہ ذہنی تصویر بگڑ کر مسلمانوں میں کوئی قابلِ دید بُت نہیں بنی۔ پیغمبر اسلام کے اعزازات نے انسانی صفت کے معیارکی حدود سے تجاوز نہیں کیا اور ان کے زندہ فرمودات نے ان کے پیروکاروں کے شکر اور جذبۂ احسان کو عقل اور مذہب کی حدود کے اندر رکھا ہوا ہے۔
(History of the Saracen Empire. p.54)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں